گوادر کے ساحلی علاقوں میں کچھوؤے غیر محفوظ

ظریف بلوچ
گوادر کے ساحلی علاقے ماضی میں آبی حیات اور نایاب نسل کے کچھوؤں اور آبی پرندوں کیلئے محفوظ پناہ گاہوں کی حیثیت رکھتے تھے،جہاں سائبریا سے آنے والے پرندے اور مختلف اقسام کے سمندری کچھوؤے وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں۔ بلکہ ”دران بیچ“ جیوانی، ”اسٹولہ جزیرہ“ پسنی اور ”تاک بیچ“ اورماڑہ کچھوؤں کی افزائش نسل ہوتی ہے۔حالیہ چند ہفتوں کے اندر گوادر کے مختلف ساحلی علاقوں میں کچھوؤں کی بڑی تعداد میں مردہ حالات میں پائے جانے سے آبی حیات کے ماہرین کافی تشویش میں ہیں۔ چند روز پہلے جیوانی کے ساحل علاقہ ”بندری“ میں نایاب نسل کے سات(Olive Redly)کچھوؤے مردہ حالات میں پائے گئے تھے۔ Olive Redly کچھوؤں کی ایک ایک قسم ہے۔اس حوالے سے جب ہم نے ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے کنزرویشن اینڈ انفارمیشن سنٹر جیوانی کے کوارڈینٹر سدھیر بلوچ سے رابطہ کیا تو انکا کہنا تھا کہ جب میں معمول کے ہفتہ وار وزٹ کے لئے میں جیوانی کے ساحلی علاقوں کا دورہ کررہا تھا تو ”بندری“ کے ساحل کے قریب سات (Olive redly) کچھوؤے مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔انکا کہنا تھا کہ پہلے مہینے میں ایک یا دو کچھوؤں کا خول ملتا تھا اور اب ایک ہی ہفتے میں سات کچھوؤں کی موت آبی حیات کے لئے کسی المیہ سے کم نہیں۔ انکے مطابق بڑی تعداد میں کچھوؤں کی موت کے وجوہات پلاسٹک کے جال،آبی آلودگی اور کلائمٹ چینج ہوسکتی ہے۔ WWF کے مطابق Olive Redly کچھوؤے کی وزن 75 سے 100 پونڈز اور اسکی لمبائی میں 26 سے 28 انچ ہوتی ہے۔ اس وقت کچھوؤں کی یہ اقسام پاکستان کے پانیوں میں وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ماہر حیاتیات اور کراچی یونیورسٹی میں انسٹی ٹیوٹ آف میرین سائنس کے معاون پروفیسر شعیب کیانی کا کہنا ہے کچھوؤں کی یہ اقسام ماضی میں کراچی کے ساحل پر انڈے دیتے تھے،لیکن اب افزائش نسل کے لئے یہ کراچی کے ساحل کا رخ نہیں کرتے ہیں۔ اسکے وجوہات معلوم کرنے کے لئے تحقیق کی ضرورت ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مکران کے ساحلی علاقوں میں ممنوعہ پلاسٹک جالوں کے استعمال سے کچھوؤے انکے زد میں آکر موت کے شکنجے میں چلے جارہے ہیں،کیونکہ مقامی ماہی گیر اب بڑی تعداد میں پلاسٹک کے ممنوعہ جال مچھیلوں کے شکار کے لئے استعمال کررہے ہیں۔اور ان جالوں کو سمندر کے اندر اور ساحل کے قریب چھوڑتے ہیں۔جب کچھوؤے اپنے بلوں سے خوراک کی تلاش میں نکلتے ہیں تو ان جالوں میں پھنسے سے انکی موت واقع ہوتی ہے۔ مقامی سماجی کارکن کامران اسلم کے مطابق چند روز پہلے جب ہم اسٹولہ گئے تھے،تو کچھووں کے کئی چھوٹے بچے ساحل کے قریب پلاسٹک کے جالوں میں پھنسے ہوئے تھے اور ہم نے بروقت ریسکیو کرکے 20 کے قریب کچھوؤں کو پلاسٹک کے جالوں سے آزاد کیا۔جبکہ زیادہ تر کچھوؤے بروقت ریسکیو نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اسٹولہ جزیرہ پسنی، دران بیچ جیوانی اور تاک بیچ اور ماڑہ مقامی آبادی سے دور ہونے کی وجہ سے کچھوؤں کے لئے محفوظ پناہ گاہ تصور کیا جاتے ہیں۔کیونکہ کچھووے شرمیلے جانور ہونے کی وجہ سے روشنی اور شور کی وجہ سے انڈے نہیں دیتے ہیں۔شعیب کیانی کہتے ہیں کہ انسانی مداخلت اور آبی آلودگی کی وجہ سے اب کچھوؤے محفوظ نہیں ہیں۔ وہ مذید بتاتے ہیں کہ یہ ایک معمہ ہے کہ Olive redly کچھوؤے پاکستان کے پانیوں میں وافر مقدار میں پائے جانے کے باوجود یہاں انڈے کیوں نہیں دے رہے ہیں؟۔ اب کچھوؤں کی یہ اقسام نیسٹنگ کے لئے انڈیا،عمان اور یو ای اے کے ساحلوں پر جاتے ہیں۔ سدھیر بلوچ کے مطابق مکران کے ساحلی علاقوں میں پہلے گرین ٹرٹل کے خول ملتے تھے،اور اب ایک ہفتے کے اندر Olive redly کے سات خول ملے ہیں۔جو کہ آبی حیات کے لئے ایک المیہ ہے۔ انہوں نے مذید بتایا کہ ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان کے ساحلی علاقوں میں کنزرویشن پر کام کررہا ہے اور بڑی تعداد میں کچھوؤں کا ریسکیو کیا گیا ضرورت اس امر کی ہے کہ نایاب نسل کے کچھوؤں کے تحفظ کے لئے مقامی لوگوں کے شعور و آگہی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سرکاری اور غیرسرکاری کچھوؤں کے تحفظ کے لئے اقدامات کریں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں