کرونا،کرونا

تحریر: انور ساجدی
جس دن ملک میں کوئی مسئلہ نہ ہو اس دن وزیراعظم خود اپنے کسی عمل سے کوئی نہ کوئی مسئلہ کھڑا کردیتے ہیں مثال کے طور پر صوبہ سندھ نے دوصوبوں کے ساتھ اپنی حدود بند کردی ہیں کراچی میں تقریباً لاک ڈاؤن ہے ہرطرف کرونا کاخوف چھایاہوا ہے سندھ حکومت نے تمام بڑے شہروں میں قرنطینہ مراکز قائم کردیئے ہیں اس ہنگامی اور خوفناک صورتحال کے باوجود وزیراعظم صاحب نے جمعہ کی صبح اچانک چمن کے قریب پاک افغان بارڈر کھولنے کا اعلان کردیا اپنے ایک ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ہم مشکل کی اس گھڑی میں اپنے افغان بھائیوں کوتنہانہیں چھوڑسکتے واہ بھئی واہ:کرونا میں پاکستان مبتلا ہے۔
وزیراعظم کے نزدیک یہ افغان عوام کیلئے مشکل گھڑی ہے لگتا ہے کہ تفتان بارڈر کھولنے کے بعد ذوالفی بخاری نے مشورہ دیا ہوگا کہ افغان بارڈر بھی کھول دیاجائے گزشتہ روز شیخ رشید احمد ساری صورتحال کا دوش تفتان بارڈر کو دے رہے تھے حالانکہ اسکے کھولنے کا مشورہ بھی ذوالفی بخاری نے دیا تھا شیخ صاحب میں اتنی جرأت نہیں کہ وہ سچ بات کہہ سکیں اگر مرکز نے بارڈر کھولا ہے تو اس میں صوبائی حکومت کاکیا قصور ہے؟وفاق نے مزید ہزاروں زائرین کو واپس آنے کی اجازت دی ہے جس کا مطلب ہے کہ پاک ایران بارڈر مستقل طور پر کھلارہے گا اب تو یک نہ شد والا معاملہ بن گیاہے۔ اگرچہ اس شک شبہ یا تہمت کی گنجائش نہیں کہ وفاقی حکومت جان بوجھ کرسرحدیں کھولنے اورکرونا سے متاثرہ افراد کواندر آنے کی اجازت دے رہی ہے اگر یہ شک صحیح ہے تو اس کا واضح مقصد یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ عالمی امداد حاصل کی جائے اب تک آئی ایم ایف نے 59 کروڑ ڈالر امداد کا اعلان کیا ہے امریکہ نے بھی سخاوت کامظاہرہ کرتے ہوئے ایک ملین ڈالر دیئے ہیں ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی آئندہ چند روز امداد کا اعلان کرنے والے ہیں اگر کرونا کا پھیلاؤ زیادہ ہوجائے تو عالمی برادری امداد کاپھیلاؤ بھی زیادہ کردے گی۔
غیر ملکی میڈیا نے تبصرہ کیا ہے کہ دنیا کے تمام ممالک کرونا کے تدراک جبکہ اریٹریا تنزانیہ اورپاکستان زیادہ سے زیادہ امداد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس تبصرہ کی بنیاد وزیراعظم کا وہ انٹرویو ہے جس میں انہوں نے مطالبہ کیا کہ کرونا کے پیش نظر پاکستان کے قرضے معاف کئے جائیں۔اب تک کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاق نے کرونا کے مقابلہ کیلئے سب سے کم کوششیں کی ہیں جبکہ ملکی عوام کواس وبا سے بچانا وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔اگردیکھاجائے تو پاکستان میں روز ٹریفک حادثات اور خطرناک بیماریوں سے سینکڑوں لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں بلکہ شہبازشریف کے دور میں ڈینگی سے زیادہ اموات ہوئی تھیں ابھی تک کرونا سے بہت کم اموات ہوئی ہیں اگرچندسو یا چند ہزار لوگ بھی کام آجائیں تو حکومت کیلئے کونسی بڑی بات ہے اگر اسکے بدلے میں ایک دو ارب ڈالر ہاتھ آجائیں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے ایران اور افغانستان کے ساتھ بارڈر کھولنے کا کیا مطلب ہے یورپ کے تمام ممالک نے اپنے بارڈرز بند کئے ہوئے ہیں جب چین میں وبا پھیلی تھی تو اس نے پورے ملک کا لاک ڈاؤن کیا تھا ان دنوں اٹلی میں کرفیو نافذ ہے اور اسکے سات کروڑ عوام گھروں کے اندر قائم قرنطینہ میں محصور ہیں اسکے باوجود وزیراعظم ایران اور افغان بارڈر کھولنے کے احکامات روز کیوں جاری کررہے ہیں؟وہ ذاتی طور پر کرونا سے اسقدر خوفزدہ ہیں کہ کسی کے ہاتھ نہیں ملاتے حتیٰ کہ ممتازعالم دین طارق جمیل کے سامنے بھی انہوں نے ہاتھ جوڑکر پرنام کیا وہ وزرا کو بھی دوربٹھاتے ہیں۔اپنے لئے وہ اس قدر فکر مند ہیں جبکہ عوام کی کوئی فکر نہیں ہے۔
قوم سے خطاب کے دوران وزیراعظم نے ان محنت کشوں کیلئے کسی پیکیج کا اعلان نہیں کیا جو روز کماتے اور روزکھاتے ہیں ڈاکٹرحفیظ پاشا نے دعویٰ کیا ہے کہ کرونا کی وجہ سے پاکستان کے56لاکھ لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں اگر وبا پر قابو نہ پایا گیا تو یہ تعداد بڑھ سکتی ہے ان 56لاکھ لوگوں میں سے بڑی تعداد روز کمانے والے محنت کشوں کی ہے جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے فاقوں نے انکے ہاں ڈیرے ڈال رکھے ہیں کرونا مارے نہ مارے بھوک ضرور انکو ماردے گی لیکن وزیراعظم نے ان لوگوں کے مسئلہ کو نظرانداز کردیا بس انکی ساری توجہ اس بات پر ہے کہ کرونا کی وجہ سے جو معاشی نقصان ہورہا ہے غیر ملکی امداد سے اس کا ازالہ کیسے ہوگا یہ وزیراعظم اور انکی حکومت کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے رواں سال کوترقی اورخوشحالی کا سال قراردیاتھا لیکن یہ سال تباہ کن ثابت ہورہا ہے ساری صنعتیں بند ہیں اسٹاک مارکیٹ دم توڑ رہی ہے برآمدات شدید متاثر ہونے کا امکان ہے شرح نمواس وقت 1.9ہے گرکر ایک یا صفر ہونے کا خدشہ ہے اگر ایسا ہوا تو حکومت عوام کو کیا کہہ کر مطمئن کرے گی پہلے ڈیڑھ سال تو وہ سابق حکومتوں کارونا روتے رہے آئندہ وہ کرونا کو لیکر معیشت کی زبوں حالی کا جواز پیدا کریں گے مطلب اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اس حکومت کا رونا دھونا جاری رہے گا اسکے پاس اقدامات اور حکمت کی کمی ہے مشکل صورتحال سے نمٹنے کیلئے کوئی پلان نہیں ہے کرپشن کے خاتمہ کے باوجود خزانہ خالی ہے ترقی کا پہیہ رک چکا ہے بس اگر دلچسپی ہے تو اس بات کی ہے کہ سرحدیں کھلی رہیں بے شک وہاں سے کرونا آئے سیاہ وسفید بلائیں آئیں حکومت کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔
کسی نے لکھا ہے کہ
حضرت مولانا طارق جمیل اب تک 10لاکھ مرتبہ قیامت جنت دوزخ اور حوروں کے بارے میں درس دے چکے ہیں۔10لاکھ کا حساب اس لئے موجودہے کہ گوگل نے گزشتہ سال انہیں ”گولڈن کی“ کاتحفہ پیش کیا تھا یہ سنہری کنجی اس وقت پیش کی جاتی ہے جب کسی آئٹم کو10لاکھ لوگوں نے دیکھا ہو۔
اپنے وعظ میں مولانا حوروں کی اتنی تعریف کرچکے ہیں کہ پکے تو پکے کچے مسلمان بھی موت کا ذائقہ چکھنے اور حوروں سے ملاقات کیلئے بے تاب ہیں لیکن کرونا وائرس کے بعد مولانا جس طرح خوفزدہ پائے گئے ہیں اس سے لگتا ہے کہ وہ اور انکے مرید وزیراعظم عمران خان حوروں سے ملنے کیلئے بے تاب نہیں ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ زمینی حوروں کو فوری طور پر چھوڑنے کیلئے آمادہ نہ ہوں جنت کی حوریں تو ویسے بھی صدا انکی منتظر ہیں انہوں نے جنت سے کہاں جانا ہے۔وزیراعظم نے کرونا وائرس کے مسئلہ پر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایران کی سرحدپر واقع اپنے علاقہ تفتان کو ”ویرانہ“ قراردیدیا اتفاق سے 1960کی دہائی میں تفتان سے متصل میرجاوا کے علاقہ کووزیراعظم کے آئیڈیل لیڈرایوب خان نے ویرانہ کہہ کر شاہ ایران کوتحفے میں دیا تھا میرجاوا آج ایران کااہم مقام ہے جبکہ ایوب خان نے جو پانچ ہزار مربع میل کاعلاقہ سرحدی قطع وبرید کے تحت دیا تھا آج گل وگلزاربن چکا ہے اگرتفتان ویران ہے تو دوش علاقے کا نہیں بلکہ پاکستانی حکومتوں کا ہے انہوں نے گزشتہ70برس میں بلوچستان کو ویران رکھا ہوا ہے۔
کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کر گھریاد آیا
یہ دشت اہل بلوچستان کا وطن ہے اور قطعی طورپر ویران نہیں ہے اسی علاقے میں 28مئی 1998ء کوپاکستان نے6ایٹمی دھماکے کئے تھے جبکہ اسکے ساتھ واقع علاقہ ریکوڈک میں جوسینکڑوں کلومیٹر تک پھیلاہوا ہے کاپر اورسونے کا سب سے بڑا ذخیرہ دفن ہے۔اسی کے بارے میں وزیراعظم نے فرمایا تھا کہ وہ ریکوڈک کے ذخائر کوبیچ کر ملک کا پورا قرضہ اتاردیں گے جس جگہ اتنا سونا ہو ہیرے جواہر ہوں اور ملک کاوزیراعظم اسے ویرانہ قراردے رہے ہوں کتنے افسوس کی بات ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم اپنے کم علمی کی وجہ سے اپنے ہی ملک کے جغرافیہ سے واقف نہیں ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ تفتان کومیرجاوا کی طرح ویرانہ سمجھ کر تحفے کے طور پر کسی کو بخش دیں کیونکہ نیازیوں نے آج تک جغرافیہ میں اضافہ نہیں کمی کی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں