اور …… اب بات جا پہنچی!

تحریر: عزیز لاسی
کرونا وائرس پھیلاؤ اور بلوچستان میں اب باب جا پہنچی ہے تصدیق شدہ کیسز کی 108تک اور ایک ہلاکت بھی ہو گئی کرونا کیسز میں روز افزوں اضاضہ تشویش ناک ہے اور اسی تشویش کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومت بلوچستان نے صوبے میں جزوی لاک ڈاؤن کا الرٹ جاری کردیا ہے اور فوج سے مددبھی طلب کرلی گئی ہے لہٰذا حکومتی الرٹ نہ صرف بیو روکریسی اور روک تھام اور عملدرآمد کو یقینی بنانے والے اداروں کو مکمل سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا ہو گا بلکہ عوام الناس کو بھی حکومت کے احکامات کی مکمل پاسداری کرنا ہو گی کیونکہ یہ سب کچھ لوگوں کو اس انتہائی مہلک مرض سے بچاؤ کیلئے کیا جارہا ہے حکومتی احکامات پر عملدر آمد کرانے والے متعلقہ سرکاری محکموں کو اپنی کارکردگی دکھا نا ہو گی ورنہ ایسا نہ ہو کہ تفتان جیسا پھر سے معاملہ ہو جائے اس وقت یقینی طور پر لاء اینڈ فورسمنٹ اداروں کے اہلکار جوان اور بالخصوص اسپتالوں اور قرنطینہ میں ڈیوٹیاں انجام دینے والے ڈاکٹرز،پیرامیڈیکس وغیرہ ہمارے ملک کے ہیرو ہیں اور وہ اس لنگڑے لولے نظام میں مطلوب طبی سہولیات اور آلات اور بچاؤ کے دیگر لوازمات کے ادھورے پن کے باوجود اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر کام کر رہے ہیں گزشتہ دنوں حب میں قائم جام غلام قادر گورنمنٹ اسپتال میں طبی سہولیات کے فقدان اور بالخصوص کرونا وائرس سے بچاؤ کے حوالے سے اقدامات میں کوتاہی کے بارے میں اسپتال کے منتظمین اور اسپتال کا دورہ کرنے والے صحافیوں اور شہریوں کے وفد کے مشاہدے کی روشنی میں جب مسائل کی نشاہی کی گئی تو اکثریت حلقوں نے رپورٹ کو سراہا تاہم ہماری ایک بہن ڈاکٹر صاحبہ شاید انھوں نے مکمل رپورٹ ملا خطہ نہیں کی ہوگی صرف شہہ سرخیاں پڑھ کر رپورٹ کو ڈاکٹرز پر تنقید سے مظہر سمجھا لیکن ایسانہ تھا بلکہ مذکورہ رپورٹ تو اسپتال کے منتظمین کی اُنکی اپنی رودار پر مبنی تھی اس حوالے سے بعض حلقوں نے یہ بھی تجویز دی کہ جام غلام قادر اسپتال کو مکمل طور پر بند کر کے حب شہر میں پیرکس روڈ پر بوائز ڈگری کالج میں کرونا آئسولیشن اسپتال قائم کیا جائے اور یہ ایک اچھی تجویز ہے چونکہ کالج شہر سے ذرہ فاصلے پر بھی ہے اور وہاں پر اگر خدانخواستہ کوئی ممکنہ کیس بھی آجائے تو بہتر خیال رکھا جاسکتا ہے تاہم باقی جہاں تک سہولیات کی فراہمی کی بات ہے تو صوبائی حکومت اور لسبیلہ انتظامیہ کو اس بابت حب اور قرب وجوار میں قائم صنعتی اداوں کے مالکان اکور انکی انتظامیہ سے رابطہ کر کے کرونا سے بچاؤ میں کام آنے والے طبی آلات اور دیگر سہولتوں کی فراہی کو ممکن بنانا چاہئے،ویسے بھی حب میں قائم صنعتی مالکان کا یہاں کی دیگر ترقی میں آٹے میں نمک کے برابر ہی تعاون ہوگا لیکن اس وقت ایک قومی ایمرجنسی ہے اس میں اُن سے تعاون لینا اور انکی طرف سے دست تعاون بڑھانا قومی فریضہ ہوگا اور اس میں صرف یقین دہانی نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں کچھ کر دکھانے کی ضرورت ہے جس طرح ہمارے وزیر اعلیٰ جام کمال خان نے صوبے میں جزوی لاک ڈاؤن کے دوران غریب پروری کی ایک اعلیٰ مثال قائم کرتے ہوئے لاک ڈاؤن میں متاثرہ روزمرہ دیہاڑی کما کر اپنے گھروں کی کفالت کرنے والے غریب مزدوروں کیلئے ماہانہ 15ہزار روپے کی فراہمی کا اعلان کیا ہے وزیر اعلیٰ کا یہ اقدام واعلان واقعی مستحسن ہے لیکن غریب مزدوروں کی فہرستیں مرتب کرتے وقت سیاسی ریفرنس نہیں ہونا چاہئے اور بلا امتیاز یہ 15ہزار روپے حقیقی غریب محنت کشوں تک پہنچانے کو بھی یقینی بنانے کی ضرورت ہے ورنہ ایسا نہ ہو کہ مختلف سرکاری محکموں میں گریڈ فورکے ملازمین پر بھرتی کیلئے نوجوانوں کی طویل قطاروں کا فوٹو سیشن کراکے افسران کو سیاسی ریفرنس والی فہرستیں تھمادی جاتی ہیں۔بہر حال یہ ایک تجویز ہے باقی خوف خداہونا چاہئے جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنی اشرف المخلوقات کو اپنی جانب رجوع کرنے کیلئے مختلف ادوار میں جو عذاب نازل کئے لہٰذا اس کرونا کی صورت میں بھی ایک عذاب ہے اور اسکے علاج کی ویکسین بھی ہمارے پاس خوف خدا اور اللہ تعالیٰ کی جانب رجوع کرنے کی صورت میں موجود ہے صرف اس پر عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے اللہ پاک اپنے بندوں سے بے حد پیار کرتا ہے لیکن اگر بندے خود حق اور سچ کی راہ چھوڑ دیں تو پھر راہ راست پر لانے کیلئے اس قسم کے عذاب کا سامنا کرنا ہوتا ہے بہرحال ہمیں توبہ اور استغفار کا راستہ اپنانا ہو گا اور کرونا سے بچنے کی ویکسین توبہ واستغفار ہی ہے کچھ دنوں سے اخبارات اور سوشل میڈیا پر دیکھا جارہا ہے کہ کرونا کو لیکر بعض حلقے جو مخیر حضرات کے طور پر سامنے آرہے ہیں وہ چند کلو آٹا اور کھانے کی اشیاء ضرورت مندوں میں تقسیم کرتے وقت جس طرح فوٹو سیشن کر کے انکی تذلیل کر رہے ہیں وہ بھی قابل افسوس ہے غریبوں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی ترغیب دلانے کے اور بھی کافی طریقے موجود ہیں جن پر لوگ عمل بھی کر رہے ہیں بہرحال جسکے جو کرم صوبائی حکومت کی جانب سے جزوی لاک ڈاؤن ایک اچھا اقدام ہے اور اس سے زیادہ غریب مزدوروں کو ماہانہ رقم کی فراہمی لیکن سرکار کے ماتحت جو ادارے کام کر رہے ہیں ان پر بھی سختی کی ضرورت ہے کہ ان دنوں میں لوگوں کے گھروں میں پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے چونکہ اسوقت حب شہر میں پانی کا بحران ہے اور لوگ برتن اٹھا ئے پانی کی تلاش میں سرگرداں نظر آتے ہیں لہٰذا محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ حب کے ذمہ داروں کو تنبیہ کی جائے کہ شہر یوں کو پینے کے پانی کی فراہمی کو یقینی بنا یا جائے دوسری جانب حب شہر میں گیس کے کم پریشر کو بہتر بنانے کیلئے سوئی سدرن گیس کمپنی کو ہدایات جاری کی جائیں اسی اثناء میں حب میں جزوی لاک ڈاؤن کا فائدہ اٹھانے والے منافع خور ذخیرہ اندوزوں کے بھی کان کھینچنے چاہئیں اور سیٹنگ بھائی کو صرف سلیکٹڈ دکانوں پر کارروائی کے بجائے بلا امتیاز کارروائیاں کر کے شہر یوں کو راشن اور کھانے پینے کی دیگر اشیاء منہ مانگے داموں فروخت کرنے والوں کو پکڑنا چاہئے کیونکہ یہ وقت سیٹنگ کو نبھانے کا نہیں بلکہ قومی فریضہ نبھانے کا ہے بہر حال بات جاپہنچی ہے اور آگے اللہ خیرکرے اور ہم سب پر رحم کرے اور اپنی رحمتیں نازل کر کے کرونا کے عذاب سے نجات دلائے (آمین)

اپنا تبصرہ بھیجیں