بلوچستان کی قاتل شاہراہ پر لانگ مارچ

یوسف عجب بلوچ
آج جہاں پوری دنیا سمیت پاکستان میں کورونا وائرس سے بچنے او ر بھیانک موت مرنے سے بچنے کے لیے لوگوں کو آگاہی دی جارہی ہے اس وقت بلوچستان کے چند نوجوان بلوچستان کی قاتل شاہراہ پر لانگ مارچ کر رہے ہیں قاتل شاہراہ سے مراد کوئٹہ کراچی شاہراہ ہے جس پر اب تک بلوچستان کے ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں۔نجیب یوسف زہری اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ کراچی سے کوئٹہ پیدل لانگ مارچ پر ہے اس احتجاجی لانگ مارچ کا مقصد اعلی اور ذمہ دار حکام سمیت حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانا ہے کہ اس سات سو کلومیٹر طویل شاہراہ پر ٹریفک حادثات کے نتیجے میں ہونے والے خونی رقص کا خاتمہ کیا جائے۔
13مارچ 2020کو نجیب یوسف زہری نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس طویل لانگ مارچ کا آغازکراچی سے کیا۔زخموں سے شل پاؤں کے ساتھ اسکے دوست اس امید پر رواں دواں ہیں کہ اب بلوچستان اپنی قیمتی جانوں کو کھونے کو مزید کھونے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اب بلوچستان پر رحم کرکے مزید جانوں کو ضائع ہونے سے بچایا جائے۔ کیونکہ بلوچستان اب تک سینکڑوں حادثات میں ہر طبقے ہیرے جیسے سینکڑوں لوگوں سے محروم ہوچکا ہے۔یہی وہ درد ہے جس نے ان نوجوانوں کو پیدل چل کر اپنا احتجاج کرنے پر مجبور کیا۔
کراچی ٹو کوئٹہ شاہراہ پر حادثات میں قیمتی جانوں کا نقصان روز کا معمول بنتا جارہا ہے بلوچستان جو کہ امن و امان کے حوالے سے بہتر بھی نہیں مگر پھر بھی اگر گذشتہ ایک دہائی کے اعداد شمارکا جائزہ لیا جائے تو لوگوں کی اموات دہشت گردی اور فرقہ ورانہ واقعات میں کم مگر ٹریفک حادثات میں زیادہ ہوئی ہیں۔ نیشنل ہائی ویز اور موٹر ویز پولیس کے مطابق بلوچستان میں ٹریفک حادثات کے دوران ہر سال اوسطا چھ ہزار لوگ ہلاک ہوجاتے ہیں۔حادثات کی صورت میں لگنے والے آگ میں شعلوں کی زد میں آکر درجنوں مسافر لقمہ اجل بن کر نا قابل شناخت ہو چکے ہیں۔
نیشنل ٹرانسپورٹ ریسرچ سینٹر کے مطابق سالانہ 14لاکھ لوگ پاکستان میں ٹریفک حادثات میں متاثر ہوتے ہیں مگر ان حادثات کی تحقیقات نہیں ہوتیں اور اگر تحقیقات ہو بھی تورپورٹ منظر عام پر نہیں لائی جاتی۔ اسی طرح ملک میں روڈ سیفٹی ایکٹ تو نافذ ہے مگر اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوتا۔ یوں تو نیشنل ہائی ویز کا 40فیصد بلوچستان میں موجود ہیں مگر بہتر حفاظتی اقدامات کا فقدان ہے۔ٹریفک حادثات کی صورت میں ہلاکتوں کی بڑی تعداد بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے بھی رونما ہوتے ہیں۔ گوکہ اب چند عرصے سے بلوچستان میں ایمرجنسی ریسپانس سینٹرز موجود ہیں مگر اس سے قبل نہ کوئٹہ تو کراچی اور نہ ہی گوادر ٹو کراچی کوئی ٹراما سینٹر موجود رہا ہے۔بلوچستان میں ہلاکتوں کی اہم وجوہات میں شاہراہ کا دو رویہ نہ ہونا،تیز رفتاری، اوور لوڈنگ، غیر تربیت یافتہ اور کم عمر افراد کی ڈارئیونگ سمیت ڈیزل، پیٹرول اور کیمیکلز کی ترسیل بھی شامل ہیں
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ملک کے بڑے پروجیکٹس کا چلنا ہی بلوچستان کے وسائل کی مرہون منت ہے اور بلوچستان کے وسائل کی لوٹ مار آج کی بات نہیں مگر یہاں کے عوام کو کہیں بھوک، کہیں بیماروں تو کہیں ٹریفک حادثات میں جان دینے کے لیے بے یار مدد گار چھوڑ دیا گیا ہے۔ وفاقی بد نیتی اور وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم بھی بلوچستان میں بے شمار مسائل کی ماں ہے۔ آج اگر کوئٹہ ٹو کراچی شاہراہ دو رویہ ہوتا تا شاید حادثات کی شرح اتنی نہیں ہوتی جتنی موجودہ وقت میں ہے۔سڑکیں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ حادثات کا سبب بننے والی جتنی بھی وجوہات ہیں ان سب کو کنٹرول کرنے والا کوئی بھی ادارہ متحرک نظر نہیں آتا اور نہ ہی ان کی ذمہ داری لی جاتی ہے۔
نجیب یوسف زہری اور اسکے ساتھیوں کا لانگ مارچ کی صورت میں احتجاج اور مطالبہ یقینا بلوچستان کے عوام کا مطالبہ ہے انکا یہ مخلصانہ اقدام اور مطالبہ بلوچستان کے عوام کو ٹریفک حادثات کی نذر ہونے سے بچانے کے لیے ہے۔ حکومت بلوچستان اور دیگر ذمہ دار حکام کا یہ فرض بنتا ہے کہ نجیب اور اسکے ساتھیوں کی بات نہ صرف سنی جائے بلکہ بلوچستا ن میں ہونے والے ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے اقدامات کے ساتھ ساتھ کراچی ٹو کوئٹہ شاہراہ کو دو رویہ کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔ ساتھ ساتھ لاک ڈاون کی صورتحال اور کورونا وائرس کے پھیلنے کے خدشات کے پیش نظر اس لانگ مارچ کو عارضی طور پر خضدار میں ہی روکنے کا مطالبہ کیا جائے تو یہ ایک بہترین عمل ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں