آریاپارہونے کا وقت ابھی نہیں آیا
سیاست دان پاکستانی ہویا امریکی جذباتی لحاظ سے ایک جیسا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دور میں کرائے گئے انتخابات کو بڑے تواتر اور مستقل مزاجی سے دھاندلی زدہ کہہ رہے ہیں۔ایک قدم آگے بڑھ کر اپنے عدالتی نظام کے حوالے سے بھی مایوسی کااظہارکررہے ہیں۔پاکستانی عوام توکئی دہائیوں سے اپنے سیاست دانوں کے منہ سے ہارنے کے بعد یہی سنتے چلے آرہے ہیں کہ انتخابات غیر شفاف اور دھاندلی زدہ تھے۔ واقعتاً ایسا ہوتابھی رہاہے۔مگر جیتنے والوں کو کبھی انتخابات میں کوئی دھاندلی نظر نہیں آئی سوائے 2013میں جیتنے والی مسلم لیگ نون کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی کے، جنہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پر بڑی جرأت سے اعلان کیا:”اگر تحقیقات کرائی جائیں تو ہر ایم این اے کے بکس سے 50ہزار جعلی ووٹ نکلیں گے“۔انتخابات کو پی پی پی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے”آر-او“ زدہ کہاتھا۔ اس سے پہلے محترمہ بینظیر بھٹو شہید انتخابات کے حیران کن نتائج کو ”چمک“کا نتیجہ کہہ چکی تھیں۔مادرملت محترمہ فاطمہ جناح کی شکست کے بارے میں اسی قسم کے جذبات کاظہار کیاگیاتھا۔ امریکہ یا پاکستان دونوں ملکوں میں یہ منظر تکلیف دہ ہے۔ایسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔یہ بلا وجہ نہیں ہے کہ 2018کے انتخابی نتائج کو سلیکٹڈ کہا جارہا ہے،پہلی بار پاکستان میں نتائج کا اعلان کمپیوٹر کے ذریعے کیاگیا۔رات11بجے یہ سسٹم اچانک بیٹھ گیا پھر گھنٹوں بند رہنے کے بعد سنائے گئے نتائج کو عوام نے تسلیم نہیں کیا۔وزیر اعظم عمران خان کو قومی اسمبلی کے فلور پر چیئرمین پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے”سلیکٹڈوزیراعظم“ کہہ کر مخاطب کیا اور انہیں وزیر اعظم ماننے سے انکار کر دیا۔بس وہ دن اور آج کا دن یہ تنازعہ پوری شدو مد کے ساتھ ملک کے طول عرض میں چل رہا ہے۔
20ستمبر 2020کو ملکی کی 11سیاسی پارٹیوں نے ”پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ“(پی ڈی ایم) تشکیل دیا اورموجودہ حکومت کو گھر بھیجنے کیلئے ایک مشترکہ پلان وضع کیا۔جس میں ملک کے مختلف جلسوں کا انعقاد بھی شامل ہے۔اس سلسلے کا آخری جلسہ 13دسمبر کو مینار پاکستان لاہور پر ہوگا۔اس جلسے میں عوام کوشرکت کی دعوت دیتے ہوئے مسلم لیگ نون کی سینئر نائب صدر مریم نواز نے ایک کارنر میٹنگ میں دعوی کر دیاکہ 8دسمبر کو پی ڈی ایم کی قیادت بڑے فیصلے کرے گی اور ا ن فیصلوں کے نتیجے میں ”آر ہوگا۔۔۔یاپار“۔نون لیگ کی دوسرے درجے کی قیادت نے بھی ٹی وی ٹاک شوز میں کہنا شروع کر دیا کہ 13دسمبر کو لاہور کے جلسے میں پی ڈی ایم سرپرائز دے گی۔پی پی پی کے رہنما قمر الزمان کائرہ نے یہ کہہ کر جے یوآئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے سلوگن ”ڈنڈے کا جواب ڈنڈا“کو قانونی شکل میں پیش کیا۔ انہوں نے کہا:13دسمبر کو پی ڈی ایم کے کارکن”جھنڈا“ لے کر نکلیں گے جس میں ”ڈنڈا“ ہوگا۔وفاقی وزیرداخلہ اعجاز شاہ نے صوبائی حکومتوں کو ایک خط لکھ کرانہیں سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے وردیاں،رینکس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں جیسے جتھوں کے خلاف کارروائی کی ہدایت کی۔اور ایسے جتھوں (ملیشیا) کو آئین کیآرٹیکل256اور نیشنل ایکشن پلان کی تیسری شق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ اس مراسلے کے اجراء کے فوراً بعد جے یو آئی کے سربراہ مولانافضل الرحمٰن نے وضاحت کی ہے کہ پارٹی کا کوئی مسلح ونگ نہیں،رضاکار تنظیم ہے۔پنجاب حکومت نے اصولی فیصلہ کرلیاہے کہ پی ڈی ایم کومینارپاکستان پر جلسے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔انتظامیہ نے ساؤنڈ سسٹم اور کرسیاں دینے والے کیٹررز کی فہرستیں طلب کر لی ہیں اور کیٹرنگ کی سہولت فراہم کرنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کے احکامات دیئے ہیں۔جبکہ گراؤنڈ میں پانی چھوڑنے لی اطلاعات بھی گشت کر رہی ہیں۔سہولت کاروں کے خلاف بڑا کریک ڈاؤن بھی متوقع ہے۔
مریم نوازکو ان کے چچا شہباز شریف نے پیرول پر رہائی کے دوران جاتی امراء میں مشورہ دیا تھا کہ معاملات کو بند گلی میں لے جانے سے بچاجائے۔ حالات نے ثابت کر دیا کہ مینار پاکستان پر پر پی ڈی ایم کے جلسے میں کوئی سرپرائز نہیں دیا جا رہا۔حتیٰ کہ مریم نواز کو مولانا فضل الرحمٰن نے بولنے کا موقع بھی نہیں دیا حالانکہ وہ مولاناکے برابر کھڑی تھیں اورکچھ کہنا چاہتی تھیں۔مگر جہاندیدہ اور سیاست کے نشیب و فرازسے آشنا مولانا اپنی گفتگو ختم کرتے ہی روانہ ہو گئے۔مریم نواز کو شاید احساس ہو گیاہوگاکہ پی ڈی ایم مختلف الخیال11سیاسی جماعتوں کا ایک ڈھیلا ڈھیلا روایتی سا اتحاد ہے، جس کا کوئی منشور اور مشترکہ جھنڈا بھی نہیں ہے۔ہر پارٹی اپنے محدود اغراض و مقاصد کے ساتھ یہاں جمع ہوئی ہے۔مستعفی ہونے اور لانگ مارچ جیسے اعلانات مؤخر کر دیئے گئے ہیں۔اراکین اسمبلی اپنے استعفے اپنی پارٹی قیادت کے پاس31دسمبر تک جمع کرائیں گے۔اول تو ذوالفقار علی بھٹودور کے بعد 9پارٹیوں نے براوقت دیکھاہی نہیں۔جنرل ضیاء الحق کو9ستاروں کی جانب سے ”پہلے احتساب، بعد میں انتخاب“ کا نعرہ لگا کر مقررہ تاریخ پر انتخابات نہ کرانے کی تجویز پیش کی اور کسی نہ کسی شکل میں جنرل ضیاء الحق کی اتحادی جماعتوں کاکردار ادا کیا۔ایسے ڈھیلے ڈھالے سیاسی پلیٹ فارم کو ایک جمی جمائی حکومت گھر بھیجنے کا ٹاسک دینے سے پہلے ایک سے زائد مرتبہ سوچنا چاہیئے۔ نون لیگ کی سینئر نائب صدر مریم نواز کو پی ڈی ایم کے قائدین سے آئندہ کالائحہ عمل طے کرتے وقت اندازہ ہو گیاہوگاکہ کونسی پارٹی کتنے فاصلے تک ساتھ دے سکتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر پارٹی الگ منزل تک جانا چاہتی ہے۔اعتماد کافقدان بھی اپنا اثر دکھاتا ہے۔پی پی پی کے ڈپٹی چیئرمین آصف علی زرداری بہت پہلے مشورہ دے چکے ہیں کہ اعتماد کی بحالی پر توجہ دی جائے۔۔۔۔۔۔۔ ”آر ہوگا۔۔۔یاپار“ جیسے بڑے ٹاسک کے لئے تمام پارٹیوں کے درمیان بھرپور اعتماد کی اشد ضرورت ہے۔ 8دسمبر کی پریس کانفرنس میں جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا محتاط رویہ دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے سمندر کی پر سکون سطح کے نیچے تند و تیز موجیں دیکھ لی ہیں۔


