کرونا وائرس اور سرحدی شہر ماشکیل

تحریر:چیئرمین الطاف بلوچ

کرونا کا پہلا کیس دسمبر 2019 میں چین کے شہر ووہان میں سامنے آیا۔ ووہان شہر سے پھیلتے ہوئے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ہمسایہ ملک ایران سے زائرین کی واپسی کیساتھ پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آگیا اور برق رفتار پھیلاو کی وجہ سے پاکستان اٹلی کے بعد متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔ تفتان بارڈر پر حکومت کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے بلوچستان حکومت کو سخت تنقید کا سامنا ہے اور یقینا یہ وباء خلاء سے پھیلنے والی نہیں بلکہ آمدورفت سے پوری دنیا میں پھیل گئی
سہولیات سے محروم شہر ماشکیل ڈسٹرکٹ واشک کا وہ پسماندہ تحصیل ہے جس کے باشندے معمولی بیماری کے علاج کیلئے ایران کا رخ کرتے ہیں یا 600 کلومیٹر دور کوئٹہ جانے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ماشکیل میں اس غیر معمولی بیماری کا علاج محض بچگانہ خیال ہے۔ سہولیات سے محروم ماشکیل کے عوام کے پاس پہلا اور آخری ممکنہ آپشن احتیاطی تدابیر ہیں کیونکہ پرہیز علاج سے بہتر ہے اور ویسے بھی ہم حفاظتی اقدامات سے یکسر محروم ہیں۔
یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کے قریباً 14 دن بعد علامات ظاہر ہوتے ہیں اور کمزور قوت مدافعت اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے انسان کو بالآخر موت کی نیند سلا دیتی ہے۔ ماشکیل کے عوام اس خوش فہمی میں نہ رہے کہ ابھی تک ماشکیل میں کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا ہے اس سے پہلے محتاط رہیے اور مکمل لاک ڈاون کا پابند رہیں۔

کورونا وائرس اور ہماری مہمان نوازی
پاکستان اٹلی کے بعد کرونا کی رفتارپھیلاؤ کیساتھ متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے اور یہ پھیلاو پاک ایران بارڈر تفتان سے ہوئی۔ نااہل حکومت کے قرنطینہ سینٹر، اسکریننگ سینٹر الغرض تمام دعوے عروج پر تھے مگر یہ دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے اور یہ پورے پاکستان میں پھیل گیا۔
کرونا وائرس سے لرزہ براندام ایران کے شہرستانی لوگوں نے ایران کے سرحدی کا رخ کیا ہے جو کہ ماشکیل سے متصل ہے اورابھی تک اس بیماری کی حقیقت سے ناواقف ماشکیل کے عوام ایران سے ہر آنے والے شخص کو خندہ پیشانی سے سے ویلکم کر رہے ہیں جو اس خطرناک حالات میں خود کشی سے کم نہیں۔ یہاں بھی تفتان بارڈر کی طرح قرنطینہ اور اسکریننگ سینٹر کی باتیں اور فوٹو سیشن ہورہے ہیں لیکن یہ بھی دعوے ہی ہیں اور کوئی بھی ڈاکٹر فلحال یہاں ڈیوٹی دینے پر آمادہ نہیں۔ اس نااہل حکومت کے حفاظتی اقدامات جکئے بغیر عوام سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے متاثرہ ایران سے آنے والے کسی بھی مہمان کو ویلکم کرکے موت کو دعوت نہ دیں۔
میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ہمارا پہلا اور آخری ممکنہ آپشن احتیاطی تدابیر ہیں کیونکہ ہم کسی ایسی ریاست میں نہیں جہاں ہم کسی قسم کے حفاظتی اقدامات کی توقع کرسکیں۔
ایران، اٹلی اور ملیشیا کے حالات ہمارے سامنے ہیں۔ ایران نے قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا محتاط رہنے کی بجائے لوگ امام بارگاہوں، درباروں اور مزاروں پر جاتے رہے مگر چند ہفتوں میں ہی حکومت اپنے مْردوں کو اجتماعی دفنانے پر مجبور ہوگئی۔ اٹلی میں حکومت نے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرکے مطمئن ہوکر عوام کو تسلی دی مگر آج اپنے ہی شہریوں کو گولی مارنے پر مجبور ہے۔ملیشیائمیں بھی لوگ اسی بیانیے سے خوش تھے کہ اس وباء سے مسلمانوں کو کچھ نہیں ہوگا اور اجتماعات کرتے رہے جس سے ایک ہی تبلیغی اجتماع سے 800 افراد اس وباء کا شکار ہوئے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ آج تمام مذاہب، اقوام اور ممالک اس جان لیوا مرض کی لپیٹ میں ہے۔ اس کو کسی خاص مذہب یا قوم سے مربوط کرنا محض جہالت ہے۔ خدارا مذہب سے بالاتر ہوکر انسانیت کے ناطے احتیاطی تدابیر اختیار کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا خیال رکھیں۔
ہم علم و آگاہی سے ناواقف ایک ایسے معاشرہ کا حصہ ہیں جہاں 95 فیصد سے زائد لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ یہ بیماری مسلمانوں کیلئے نہیں ہے اب چونکہ غالباً تمام مسلم ممالک بھی اس کی زد میں آگئے ہیں مگر ابھی بھی ہمارے نادان شہری اس کو یکسر تقدیر سے جوڑ کر غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ علماء کرام کے علاوہ کسی بھی طبقہ فکر کے لوگ اس عوام کو غیر معمولی بیماری کرونا سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر آمادہ نہیں کرسکتا۔ علماء کرام سے دست بستہ اپیل ہے کہ قرآن وسنت کی روشنی میں احتیاطی تدابیر بیان کرکے سادہ لوح عوام کی صحیح رہنمائی کریں۔
چند دنوں کی بات ہے کہ ماشکیل بازار میں ایک ازبک باشندہ بے حالت ہوکر بے ہوش ہوا اور ہم نے اسے کورونا کا مریض سمجھ کر سینکڑوں کلومیٹر دور تفتان ریفر کیا اور بعد میں خبر ملی کہ یہ بندہ مرگی کا مریض ہے۔ میں عوامی نمائندوں کے نااہلی یا غیر سنجیدگی پر مزید بحث نہیں کرتا یقیناً آپ کو اس واقعے سے ہماری حالت زار کا اندازہ ہوا ہوگا۔ عوام الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا ہر فورم پہ اس خطرناک حالات میں سہولیات کا فقدان اور عوامی نمائندوں کی غیر سنجیدگی کا رونا روتے رہے مگر کسی کے کانوں پر جون تک نہ رینگی۔
اس خطرناک حالات میں عوامی نمائندے اور ذمہ دار عناصر اپنی ذاتی ترجیحات پر نظرثانی کرکے علاقے میں قرنطینہ سینٹر، اسکریننگ سینٹر اور آئسولیشن وارڈ و دیگر حفاظتی اقدامات کیلیے عملاً میدان میں آئیں قبل اس کے کہ بہت دیر ہوجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں