کامیابی کا راز
تحریر:ابوبکر دانش میروانی
کامیابی وہ شے ہے جس کی تمناہرشخص کرتا ہے مگر کامیابی کیسے حاصل کی جائے۔یہ اس دنیاکا بہت بڑا مسئلہ ہے کِسی بھی مقصد میں کامیابی حاصل کرنے میں دو عوامل کا کردار کلیدی ہوتا ہے: اوّل اِنسان کی اپنی محنت؛ اور دوم قسمت (یعنی fate)۔ اِن دونوں عوامل کے تناسب کے بارے میں مختلف آراء ہیں۔ کچھ لوگ صرف قسمت کو کامیابی کے حصول کیلیے ضروری قرار دیتے ہیں جبکہ کچھ افراد قسمت کے فیکٹر کو یکسر نظرانداز کرکے صرف محنت کی عظمت کے حامی ہیں۔ مگر اکثریت کی رائے یہ ہے کہ قسمت اور محنت کا کردار 50-50 ہوتا ہے۔ یعنی کامیابی کے حصول کیلیے نصف کردار محنت ادا کرتی ہے جبکہ باقی ماندہ نصف قسمت ادا کرتی ہے۔ اِسی مفروضے کی بنیاد پر بات جاری رکھتے ہیں۔
کسی بھی دنیاوی مقصد میں کامیابی کو 100 نمبروں کا ایک پرچہ ہی سمجھیے۔ تعلیمی اداروں میں کِسی بھی مضمون کے پرچے میں نمبروں کے دو حصے ہوتے ہیں: تھیوری اور سیشنل۔ تھیوری کے مارکس، پرچہ حل کرکے اپنی قابلیت کے بل بوتے پر حاصل کیے جاتے ہیں جبکہ سیشنل مارکس ممتحن کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور ممتحن اُن مارکس کے معاملے میں مکمل طور پر بااختیار ہوتا ہے۔ سیشنل مارکس دیتے وقت ممتحن، طالب علم کی حاضری، کلاس کنٹری بیوشن، ڈسپلن اور مجموعی رویّے کو مدِنظر رکھتا ہے۔ طالب علم کا رویہ کلاس میں اچھا رہا ہو تو اُس کو سیشنل مارکس میں اچھے گریڈز سے نوازا جاتا ہے۔ خراب رویہ رکھنے کی صورت میں وہ سیشنل مارکس سے محروم رہتا ہے۔
اب اِسی فارمولے کو عملی زندگی میں اپلائی کرتے ہیں۔ آپ کا کوئی بھی مقصد، جو آپ اپنی زندگی میں حاصل کرنا چاہتے ہیں، 100 مارکس کا ایک پرچہ ہے جس کا نصف تھیوری ہے اور نصف ”سیشنل۔“ اپنے مقصد کے حصول کیلیے آپ کی انتھک محنت اور تگ و دو آپ کی تھیوری کے 50 مارکس ہیں جبکہ باقی کے 50 مارکس ”سیشنل“ ہیں یعنی آپ کی قسمت، مقدر یا fate ہے۔ اِس پرچے کا ممتحن کوئی اور نہیں بلکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہے۔ جس طرح تعلیمی اداروں میں سیشنل مارکس کیلیے مجموعی رویہ دیکھا جاتا ہے، بالکل اسی طرح یہ ”ممتحنِ اعلیٰ“ بھی قسمت کے سیشنل مارکس سے نوازتے وقت یہ دیکھتا ہے کہ امیدوار کا رویہ اُس کے ساتھی اِنسانوں کے ساتھ، اور ممتحن کے خاندان والوں (الخلق عیال اللہ) کے ساتھ کیسا ہے۔
آپ کو کامیابی کیلئے اپنی زندگی کا دوسروں سے موازنہ نہیں کرنا چاہیئے، ایسا کہنا ہے ڈاکٹر ٹریوس بریڈ بری کا جنہوں نے خوشحال اور کامیاب افراد پر اچھی ریسرچ کی ہے۔ اگر آپ دوسروں کو صرف اس وجہ سے خوشحال سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس آپ سے زیادہ بڑا گھر، مہنگی گاڑی اور زیادہ پیسہ ہے تو عین ممکن ہے کہ آپ کا اندازہ غلط ہو۔ ضروری نہیں ہر امیر شخص بہت زیادہ خوشحال ہو۔ صرف وہی دولت مند لوگ مطمئن خوشحال زندگی گزارتے ہیں جو اپنے پیشے سے پیار کرتے ہیں اور محنت و لگن سے کام کرنے میں خوشی تلاش کرلیتے ہیں۔