کیا 2021 کیلئے کچھ آنسو بچا کر رکھیں؟

تحریر: منان صمد بلوچ
رات کے 12 بج رہے ہیں، باہر سردی کی لہروں کی کپکپاہٹ ہے، کمرے کے چپے چپے میں سکوت پھیل چکا ہے، میں کاغذ، پین لئے بیٹھا سوچ رہا ہوں لیکن ایک بڑی خلش اور بیچینی ہے، اندر ایک اضطرابی کیفیت موجزن ہے، خیالات کے مابین محاز آرائی ہے، قلبی سکون کا ستیاناس ہوچکا ہے، اب سوال یہ ہے کہ لکھوں تو کیا لکھوں؟ کالم ایک، موضوع کئی، اسی الجھاؤ کو سلجھانے کیلئے میں نے اپنی آنکھیں بند کرکے خاموشی اختیار کرلی-
چند لمحوں کے بعد ”الوداع 2020“ کی گونج میرے ذہن کو کلبلانے لگ گیا تو جھٹ سے میں نے اِسی موضوع پر نوشت کرنے کیلئے حامی بھرلی- جب میں لکھنے لگ گیا تو قلم رک گیا، کمرے کی کھڑکی یکایک سے کھل گئی، کمرے میں سردی پھیل گئی، ہیٹر کی گرمی کی شدت تھم گئی، اچانک سے لائٹ بند ہوگئی، کمرے میں تاریکی چھا گئی، کمرے کے کونے کونے سے مدہم سی آہ و پکار کی آواز آنے لگی لیکن رفتہ رفتہ پورے کمرے میں کہرام مچ گیا، مجھے ایسا لگا کہ کچھ لوگ چیخ چیخ کر ماتم کررہے تھے، میں نے لحاف اوڑھے ہوا تھا اور ڈر کے مارے کانپ رہا تھا- میں گلا پھاڑ پھاڑ کر کہتا رہا کہ میں نے کچھ نہیں کیا ہے-

”دیکھو دیکھو، ڈرو مت، یہ آپکی خود کی درد بھری کہانی ہے، آئیں مل کے کریں گریہ زاری و نوحہ خوانی“ کمرے کے کسی چپے سے ایک آواز آئی- یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گیا- دھیرے دھیرے جب میں نے کمبل اٹھایا تو مجھے رونگٹے کھڑے کردینے والا اندوہناک نظارہ دیکھنے کو ملا، یہ بھیانک منظر سال 2020 کا تھا جو بلوچستان میں رونما ہوا تھا، اس منظر میں درد ہی درد تھا، کرب ہی کرب تھا، لہو ہی لہو تھا-

کمرے کے ایک کونے سے 26 مئی کو کیچ ڈھنک میں جرائم پیشہ افراد سے مزاحمت کے دوران شہید ہونے والی ملک ناز کی بہادری کے نغمے زور زور سے سنائی دے رہے تھے جبکہ دوسرے کونے سے بھولی سی برمش کی بلک بلک کر رونے کی آواز آرہی تھی جو اپنی ماں کی خوشبو کے حصار میں رہنا چاہتی ہے- کمرے کے ایک طرف 14 جون کو تمپ دازن میں ڈاکوؤں کی چھری سے بیدردی سے قتل ہونے والی کلثوم سعید اپنی 4 بچوں کیلئے فریاد کناں تھی جبکہ دوسری طرف 14 اگست کی شام کو فرنٹیئر کور کے کارندوں کی گولیوں سے ہلاک ہونے والے طالب علم حیات بلوچ کی آہوں اور سسکیوں کی آوازیں آرہی تھیں اور اس کے والدین ماتمی انداز میں سڑک پر پڑا اپنے بچے (حیات) کی لاش پر ماتم کررہے تھے- یہ مناظر انتہائی دل خراش تھے جن سے چھٹکارا پانا بہت محال ہے-

اچانک سے اس درد انگیز مناظر کے دوران 23 اپریل کو سویڈن میں ‘پراسرار’ طور پر ہلاک ہونے والے معروف بلوچ دانشور اور ممتاز صحافی ساجد حسین بلوچ کی لکھی گئی بلوچستان کی کہانیاں کمرے کی دیواروں پر چسپاں ہوگئیں جس سے دیواریں لرز اٹھیں اور ان میں دراڑیں پڑ گئیں- نتیجے میں دیواروں سے خون ٹپکنے لگا- میں اپنی ہوش و حواس کھو کر پھٹی پھٹی نظروں سے دیکھتا رہا-

اسی اثنا میں 5 ستمبر کو تربت میں مبینہ طور پر شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی بلوچستان کی نمایاں خاتون صحافی، مصورہ، سماجی کارکن شاہینہ شاہین بلوچ کی پینٹنگز بھی کمرے کے دیواروں پر چسپاں ہوگئیں جس سے ایک اودھم برپا ہوگیا کیونکہ ان پینٹنگز میں خواتین پر ڈھایا جانے والاظلم و ستم کی داستانوں کی منظرکشی کی گئی تھی-

کچھ وقفے کے بعد کمرے میں دریا کی تیزوتند لہروں کی آواز آنے لگی- دریا کی ٹھاٹھیں مارنے کی آواز سن کر میں دنگ رہ گیا کیونکہ کمرے کے نزدیک تو کوئی دریا نہیں تھا- جب دریا کی موجوں کی گونج خاموشی میں تبدیل ہوگئی تو 21 دسمبر کو ٹورانٹو کینیڈا میں ‘پراسرار’ طور پر ہلاک ہونے والی بی ایس او کے سابقہ چیئرپرسن بانک کریمہ بلوچ کی ولولہ انگیز تقریروں کی صدا سنائی دی گئی- بانک کریمہ کی باتوں میں درد و الم اور اذیتیں پوشیدہ تھیں- ”تم میرے وجود کو مار سکتے ہو مگر میری فکر، نظریے اور شعور کو نہیں مار سکتے“ میں ششدر رہ گیا کہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے، میں نے پاگلوں کی طرح اِدھر اُدھر نظر دوڑائی لیکن کریمہ مجھے کہیں نظر نہیں آئی- اسی دوران کمرے کے کسی گوشے سے ایک آواز آئی- ”ڈیئر! اِدھر اُدھر مت دیکھ، میں کمرے میں موجود ہوں بلکہ میں مادر لینڈ کی نگر نگر میں موجود ہوں، میں اپنی دھرتی کی سانسوں میں بس چکی ہوں، میں اپنی وطن کی دل کی دھڑکن بن چکی ہوں، میں ہمیشہ کیلئے امر ہوگئی ہوں“

یہ بالی وڈ کے خوفناک مناظر کا ایک ڈراؤنی فلم نہیں تھا بلکہ یہ بلوچستان کی حقیقی کہانی تھی- اب سوال یہ جنم لیتا ہے کہ کیا 2021 میں ایسے ہولناک مناظر دیکھنے کو ملیں گے؟ کیا 2021 میں بھی آہوں اور سسکیوں کی آواز سنائی دیتی رہی گی؟ کیا 2021 میں بھی آنسو کا سیلاب نکلے گا؟ کیا 2021 بھی 2020 کی طرح خون سے بھیگ جائے گی؟ یا پھر کیا 2021 کیلئے کچھ آنسو بچاکر رکھیں؟

اپنا تبصرہ بھیجیں