بلوچ جدوجہد: کریمہ بہ تناظر بیبو

سمند محمدشہی
سولہویں صدی میں تیس سالہ رند و لاشار خانہ جنگی کے نتیجے میں بلوچ مرکزیت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی تھی۔ بلوچوں کے ان دو گروہوں نے تیس سال تک ایک دوسرے کے بہادر تہ تیغ کیے اور خود کو اتنا کمزور کر دیا کہ دونوں کے سربراہان سمیت ایک بڑے حصے کو اپنی بقیہ قوت سمیٹ کر ایک دوسرے کو بد دعائیں دیتے ہوئے ترک وطن کرکے ہند کے مختلف علاقوں کا رخ کرنا پڑا۔ جن بہادروں کو ترک وطن گوارا نہ ہوا انہوں نے مختلف علاقوں میں اپنے تمن آباد کر لیے تاہم مرکزیت قائم نہ رہ سکی جس کے نتیجے میں سیوی و کچھی کا انتظام پہلے ارغونوں کو اور آگے جاکر باروزئیوں کو منتقل ہوا جو بعدازاں مغل پٹہ داری میں تبدیل ہوگیا۔

اس دوران دوسری طرف قلات میں بلوچ قبائل اپنی خانیت کی بنیاد رکھ چکے تھے جسے آنے والے وقت میں بلوچ مرکزیت کی سب سے بڑی علامت اور نصیر خان نوری کے دور میں عظیم تر بلوچ ریاست کی شکل اختیار کرنا تھا۔ میر احمد بلوچ ملقب بہ امیر احمد کبیر جن کے نام سے قلات کے احمدزئی خوانین کا سلسلہ منسوب ہے 1666ئ میں خان منتخب ہوئے۔ انکی جنگی مہمات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے بلوچ وفاق کی توسیع کے لیے دیگر علاقوں تک رسائی اور قبائل کی شمولیت پر خصوصی توجہ دی جس سے انکے جانشینوں کے لیے بھی سمت واضح ہوئی اور قلات کی خانیت حقیقی معنوں میں بلوچ مرکزیت کی شکل اختیار کرگئی۔

میر احمد خان کی مہمات میں ایک دلچسپ سلسلہ انکی باروزئیوں کے ساتھ اٹھارہ لڑائیاں (1669-87ئ ) ہیں کیونکہ یہ بہادری، عزم، جنگ اور مفاہمت کے زریعے اپنے مفادات کے تحفظ اور اسوقت کے بلوچ کردار کو سمجھنے کی ایسی کڑیاں ہیں جنکو اس زمانے کے سیاق میں سمجھ کر آج بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔

جنید خان باروزئی ملقب بہ نواب بختیار خان دہلی کے مغل حکمرانوں کی طرف سے سیوی اور کچھی کے پٹہ دار تھے۔ جنید خان ایک شکایت پر شاہ بیگ مندوانی کے تمن پر حملہ آور ہوئے اور اسکے بیٹے سمیت چند دیگر بلوچوں کو تہ تیغ کیا جبکہ انکی املاک ضبط کرلیں۔ شاہ بیگ اپنی فریاد لے کر خان بلوچ کے پاس داد رسی کو پہنچا جس پر امیر احمد کبیر نے نواب بختیار خان کو پیغام بھیجا کہ شاہ بیگ کے معاملے میں مقتولین کا خون بہا ادا کرکے انکی املاک بحال کی جائیں تاکہ انکی حقرسی ہوسکے۔ تاہم جنید خان کے انکار پر بلوچ مجلس نے فیصلہ کیا کہ شاہ بیگ کے تمن پر حملے کا بدلہ لینے اور اسکی حقرسی کرانے کے لیے باروزئی حاکم سے جنگ کی جائے۔

یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ سیوی اور کچھی میں آباد بلوچ قبائل کے علاوہ قدیم وقتوں سے سراوان اور جھالاوان کے قبائل بھی موسم سرما میں اپنے مال مویشیوں سمیت سردیاں گزارنے اور مال مویشی چرانے کچھی کی طرف کوچ کرتے تھے اور یہ رجحان آج بھی موجود ہے تاہم اس زمانے کی خانہ بدوشانہ قبائلی معاشرت میں یہ معاش اور بقا دونوں حوالوں سے انتہائی اہم ہوگا جبکہ یہ علاقہ مغل پٹہ داری انتظام میں آنے سے ان آزاد منش کوہستانی قبائل کو بھی کئی غیر معمولی رویوں کا سامنا کرنا پڑتا ہوگا جن سے نمٹنے کے لیے متبادل منصوبے زیر غور ہونگے۔ لہذا یہاں گمان کیا جاسکتا ہے کہ بلوچ خانیت اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے خود کسی موقع کی تلاش میں ہوگی جو اسے شاہ بیگ کی معاملے میں جنید خان کی دست درازی سے اول الزکر کی دادرسی کے لیے ایک ‘کاز’ کی صورت میں میسر آیا۔ یوں باروزئیوں کے خلاف قلات سے مہمات کا آغاز ہوا۔

ان 18 لڑائیوں میں سے جن کا احوال معلوم ہے ان تمام میں ماسوائے آخری معرکہ کے ہر دفعہ بلوچ ہی سیوی و کچھی پر حملہ آور ہوئے اور ماسوائے آخری دو لڑائیوں کے بلوچوں کو ہر دفعہ شکست ہوئی مگر اس مہم کا نتیجہ بلوچوں کے حق میں فیصلہ کن فتح کی صورت میں نکلا جس کے ذریعے انہوں نے اس مرحلے پر اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل کر لیے۔ اس تھکا دینے والی مہم کی کامیابی کے پیچھے کئی سال کی کوششیں، سینکڑوں شہادتیں، غیرمتزلزل عزم، موقع شناسی، سیاسی بلوغت، جنگ میں شجاعت، مفاہمت میں کشادہ دلی اور مقصد کے حصول کے لیے دور اندیشی کار فرما تھی۔

جب میر احمد چودہ(14) لڑائیوں کے باوجود باروزئیوں سے بلوچ مجلس کی شرائط نہ منوا سکا تو انکی بہن بی بی بیبو نے خود میدان میں اترنے کا فیصلہ کیا۔ 1684ئ میں انہوں نے لشکر جمع کیا اور خود بلوچ لشکر کی قیادت کرتے ہوئے سیوی پر حملہ آور ہوئیں۔ مرزا خان ملقب بہ نواب بخت بلند خان (جنید خان کے فرزند) کو جب بی بی بیبو کی پیشقدمی کی اطلاع ملی تو انکے لشکر نے ڈھاڈر سے اوپر بیری کے مقام پر بلوچ لشکر کا راستہ روکا جہاں پر دونوں لشکر نبرد آزما ہوئے۔ بی بی بیبو بلوچ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ ایک دلیر ‘شیرزال’ اور رموز حرب سے واقف خاتون تھیں لہذا انہوں نے خود اپنے لشکر کی قیادت کرتے ہوئے مخالف فوج کا مقابلہ کیا یہاں تک کہ لڑتے لڑتے میدان جنگ میں شہید ہوئیں۔ ایک بار پھر بلوچوں کو شکست ہوئی اور وہ بے نیل و مرام واپس ہوئے مگر اس بار بی بی بیبو کی شہادت کا انتہائی گہرا زخم لے کر۔

بی بی بیبو کا کردار اتنا غیرمعمولی اور متاثرکن تھا کہ انکے مخالف باروزئیوں کے دربار سے وابستہ لوگ بھی انکی اعلی صفات کا اعتراف کرتے ہوئے انکو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ باروزئی دربار سے وابستہ ملا فاضل شیخ نے اپنی شاعری میں بیبو کی ذہانت، بہادری، غیرت اور جذبہ کی تعریف کی ہے۔ ایک تو شاید اس زمانے میں مخالفت بھی کچھ ظرف اور سچائی سے کی جاتی ہوگی اور دوسرا یہ کہ اس دور میں ‘ہائبرڈ جنگ’ کی مصیبتیں بھی نہیں تھیں جن میں اپنے یا پرائے ہر مخالف کے خلاف انتہا درجہ جھوٹا و زہریلا پروپیگنڈا کرنا پڑتا۔

میر احمد کا عزم تو پچھلی چودہ لڑائیوں س ویسے بھی عیاں تھا مگر بی بی بیبو کی شہادت سے اسے شدید زخم پہنچا اور طیش اور جذبہ انتقام میں وہ فوری طور پر اپنا لشکر ساتھ لے کر دوبارہ سیوی پر حملہ آور ہوگئے۔ سیوی کے دیہاتوں کو تاراج کرنے کے بعد سرہنگ کے مقام پر بلوچ اور باروزئی لشکر کا مقابلہ ہوا۔ جلدبازی اور طیش کا نتیجہ یہ نکلا کہ اگرچہ باروزئیوں کا بھی بڑا نقصان ہوا مگر ایک مرتبہ پھر بلوچوں کو شکست ہوئی اور بلوچ لشکر کو اس بار پہلے سے بھی زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔ اس لڑائی میں خود میر احمد اور انکے وزیر اخوند محمد صالح زخمی ہوئے جبکہ میر ابراہیم نوشیروانی سمیت کئی جانباز شہید ہوگئے۔ میر احمد باقی ماندہ لشکر کے ہمراہ اپنے زخم چاٹتا ہوا یہ سبق لے کر واپس ہوا کہ آپ کتنے ہی دلیر، شجاع اور جنگ آزمودہ کیوں نہ ہوں جنگ محض جذبات سے نہیں جیتی جاسکتی بلکہ اس کے لیے حوصلوں کے ساتھ تیاری، موقع شناسی اور معروضی حالات کو اپنے حق میں موڑنا بھی ضروری ہوتا ہے۔

اب بلوچ اتحادیہ نے اپنے تجربے کو تیاری کی صورت میں ڈھالنا شروع کیا۔ لشکر کو منظم کیا، خبر رسانی کے جال کو وسیع کیا گیا اور ایسے موقع اور محل کا تعین کیا گیا جو نہ صرف یہ کہ اپنے حق میں کارگر ہو بلکہ اس سے ردعمل بھی اپنی مرضی کا حاصل کیا جاسکے۔ جنگی تیاری مکمل کرکے مناسب موقع کا انتظار کیا جانے لگا۔ اطلاع آئی کہ مرزا خان سیوی میں اپنے کسی معاون کو اپنا قائم مقام مقرر کر کے خود شکارپور جاچکا ہے۔ بلوچوں نے مکمل تیاری کے ساتھ پیشقدمی کی اور باروزئیوں کی مقبوضات کو تاراج کیا۔ باروزئیوں کا نمائندہ اپنا لشکر لے کر مقابلے کو آیا تاہم میر احمد کی جنگی چال کا شکار ہوکر مشکل صورتحال سے دوچار ہوا۔ بلوچ لشکر نے دو اطراف سے حملہ آور ہوکر باروزئی لشکر کو گھیرے میں لے لیا جس سے انکو شدید نقصان اٹھانا پڑا اور باروزئی لشکر کا کافی حصہ میدان جنگ میں کام آیا جبکہ بقیہ منتشر ہوگیا۔ میر احمد خان اپنے لشکر کے ہمراہ پہلی مرتبہ فتح یاب ہوکر واپس قلات لوٹا اور اگلے مرحلے کی تیاری میں جٹ گیا۔

مرزا خان کو جب میر احمد کے حملے اور اپنے لشکر کی شکست کا آحوال ملا تو وہ سیخ پائ ہوکر واپس سیوی پہنچا دوبارہ لشکر جمع کر کے اس مرتبہ خود قلات پر حملہ آور ہونے کے لیے نکل پڑا۔ باروزئی لشکر چونکہ پہلے سولہ مرتبہ بلوچوں کے حملوں کو کامیابی سے پسپا کر چکا تھا تو غالباً اس بار کی ہزیمت مرزا خان سے برداشت نہیں ہوئی اور وہ فوراً بدلہ لینے کے لیے لشکر لے کر قلات کی طرف روانہ ہوا۔ یہی اسکی غلطی ثابت ہوئی اور قرین قیاس ہے کہ اسکی پیش بینی بلوچ کر چکے تھے۔ مرزا خان کا لشکر درہ بولان سے براستہ جوہان قلات پر حملہ آور ہونے کا ارادہ رکھتا تھا۔ پہلے تو انکے لشکر کو پہاڑی سلسلوں میں خوب اندر آنے دیا گیا بعد ازاں بلوچوں کے چھاپہ مار دستوں نے پہاڑوں میں ان پر پہ در پہ حملے شروع کر دیے۔ مرزا خان کے لشکر کا ایک بڑا حصہ میدانی علاقوں کے افراد پر مشتمل تھا جو نہ پہاڑوں میں لڑنا جانتے تھے اور نہ ہی وہاں کے موسم کی شدت کی تاب لا پارہے تھے۔ دوسری جانب بلوچوں کے چھاپہ مار دستوں نے صورتحال کو مزید مشکل بنا دیا تھا نتیجتاً پہاڑوں کی بلندی میں لشکر کا حوصلہ ٹوٹنے لگا اور لوگ منشر ہونے لگے۔ لشکر کی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انکی رسد اور کچھی کی طرف نقل و حرکت منقطع کر دی گئی جس کے باعث مرزا خان پہاڑی علاقے میں ایسی مشکل صورتحال سے دوچار ہوئے کہ نہ وہ قلات پر حملے کی سکت رکھتے تھے اور نہ ہی واپسی کی کوئی صورت موجود تھی۔ لہذا انہوں نے خان بلوچ کی طرف صلح کا پیغام بھیجا اور گفت و شنید کے بعد میر احمد کے سامنے پیش ہوئے جو صلح نامہ پر منتج ہوا جس کے تحت مرزا خان نے نے شاہ بیگ کی حقرسی، سیوی و کچھی میں بلوچوں کے حقوق اور مفادات کے تحفظ سمیت تمام مطالبات مان لیے اور دوستی کا معاہدہ کر کے بحفاظت واپس سیوی رخصت ہوا۔

یہ بلوچ اتحادیہ کی کچھی کے محاذ پر کامیابی کا ایک مرحلہ تھا جس میں انہوں نے اپنی حیثیت منوانے کے ساتھ اس مرحلے پر موزوں اپنے حقوق اور مفادات کا تحفظ بھی حاصل کرلیا۔ آگے وقت گزرتا گیا اور بلوچ خانیت کی قوت و تنظیم بہتر ہوتی گئی۔ باروزئی پٹہ داری کے زوال اور کچھی کا انتظام کلہوڑوں کے پاس جانے سے یہ محاذ ایک بار پھر کھل گیا۔ 1731ئ میں میر احمد ہی کے صاحبزادے اور اس دور کے خان میر عبداللہ قہار کچھی ہی کے محاز پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے اور پھر آگے جاکر انکے صاحبزادے میر محبت خان کے دور میں عبداللہ قہار کے خون بہا کے طور پر 1740ئ میں کچھی باقائدہ بلوچ خانیت کا حصہ بن گیا۔

یہ سلسلہ یونہی چلتا رہا یہاں تک کہ نصیر خان نوری کے دور میں خانیت اپنے بام عروج پر پہنچی اور تقریباً تمام بلوچ وطن قلات کی بلوچی حکومت کے بیرک تلے یکجا ہوگیا۔ پھر یہ شیرازہ بکھرتا گیا اور تقریباً نصف صدی بعد ہمارا واسطہ انگریزوں سے پڑا جو اتنے طاقتور اور منظم ہوچکے تھے کہ پورا ہندوستان قبضہ کر لیا تھا۔ بلوچوں نے حسب سابق مزاحمت تو کی مگر سمندر پار سے آئے اس نئے دشمن کے انداز ہی نرالے تھے۔ ہم تو اسے نہ سمجھ پائے لیکن وہ ہمیں خوب سمجھ گیا اور ہماری نفسیات سے کھیل کر اور کمزوریاں بھانپ کر وہ سب کر گیا جو اس سے پہلے شاید کوئی نہ کرسکا تھا۔ یہاں تک کہ لکیریں کھینچ کر ہمارا وطن ہی تقسیم کر ڈالا اور وہاں سےہوتے ہوتے ہم نئی مصیبتوں کا شکار ہوگئے۔

اب تک تو شاید بلوچ اپنی حاکمیت اور حق حکمرانی کے لیے مزاحمت کرتے آرہے تھے مگر اب کی بار حالات ایسا رخ اختیار کرگئے کہ اپنے ہی وطن میں اپنی قومی شناخت اور بقا خطرے میں محسوس ہوتی ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پانچ مرتبہ فوج کشی ہوچکی ہے مگر مسائل الجھتے چلے جارہے ہیں۔ نہ ریاستی مقتدرہ بلوچوں کو سمجھ پارہی ہے اور نہ بلوچ اسے سمجھ یا سمجھا پا رہے ہیں۔ ایک ایسے زمانے میں جہاں قومی مقاصد کے حصول کے لیے عوام میں سیاسی شعور اور اسکی بنیاد پر تنظیم کاری انتہائی ضروری ہے بلوچ سیاست اور عوامی ترجیحات میں ہم آہنگی بہت کم نظر آتی ہے۔ ہر طرف تقسیم در تقسیم کا رجحان اور وجہ نظریہ یا حکمت عملی کا فرق کم اور قیادت کی خواہش زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ دوریاں ایسی کہ بلوچستان کا استحصال اور یہاں فوج کشی کرنے والی جماعتوں کے ساتھ تو فخریہ نزدیکیاں بڑھاتے ہیں مگر آپس میں قومی مسائل پر مشترکہ موقف کے باوجود متفقہ لائحہ عمل نہیں دے سکتے۔ ایک نئی نسل تیار ہوتی ہے اور اس سے پہلے کہ تعمیر و تنظیم کا بار گراں اٹھائے، کاٹ دی جاتی ہے۔

بلوچ تحریک کی موجودہ لہر میں ایک نئی اور حوصلہ افزائ جہت خواتین کی سیاسی عمل میں شمولیت بھی ہے۔ اپنے پیاروں کے درد اور انکے انسانی حقوق کے دفاع کی خاطر میدان میں آنے سے وہ بتدریج سیاسی عمل کا حصہ بن رہی ہیں۔ اس پس منظر میں کریمہ بلوچ کا کردار اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ وہ ایسی اولین بلوچ خواتین رہنماوں میں شامل ہیں جنہوں نے نہ صرف بھر پور سیاسی کردار ادا کیا بلکہ بی ایس او کی چیئرپرسن بھی رہیں۔ جب بی ایس او کی مرکزی قیادت جبری گمشدگیوں کی زد میں آئی تو بی بی بیبو کی طرح بانک کریمہ نے بھی خود اپنی تنظیم کی قیادت سنبھالی یہاں تک کہ ان پر اپنی سرزمین تنگ کر دی گئی اور انہیں ملک چھوڑ کر بیرون ملک پناہ لے کر اپنی جدوجہد جاری رکھنی پڑی۔ تاہم جبر کے سائے نے وہاں پر بھی انکا پیچھا نہ چھوڑا اور وہ دنیا کے محفوظ ترین ممالک میں سے ایک کینیڈا میں بھی محفوظ نہ رہیں جہاں وہ لاپتہ ہوگئیں اور اگلے روز انکی لاش ملی۔

ماضی کی بلوچ تشکیل میں بی بی بیبو کا کردار منفرد رہا کہ انہوں نے سخت حالات میں اپنے قومی لشکر کی قیادت کی اور میدان جنگ میں دشمنوں کا مقابلہ کرتی ہوئی شہید ہوئیں جس سے اس پوری مہم کو ایک نئی شکل ملی۔ اسی طرح آج کے دور کے لوازمات کے مطابق کریمہ بلوچ نے بھی سخت ترین حالات میں ایک بلوچ طلبہ تنظیم کی قیادت کرتے ہوئے اپنے قومی مسئلے کے حل کے لیے سیاسی جدوجہد کی اور بعد میں بھی اس جدوجہد کو جاری رکھا یہاں تک کہ شہید ہو گئیں۔

تاریخ بھی عجب رنگ سے خود کو دہراتی ہے۔ یہی اتفاق دیکھ لیں کہ 1684ئ میں جب بی بی بیبو میدان جنگ میں شہید ہوئی تھیں وہ دن بھی 21 دسمبر کا تھا اور 2020ئ میں جس دن بلوچ رہنمائ کریمہ بلوچ کی لاش ٹورنٹو میں ملی وہ دن بھی 21 دسمبر کا تھا۔ 336 سال بعد تاریخ نے ایک بار پھر خود کو اسی دن دہرایا ہے مگر نئے دور، نئے حالات، نئے سوالات اور نئے تقاضوں کے ساتھ۔ کاش ہم اپنی تاریخ سے ہی کوئی سبق لے پائیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم معروضی حالات، وقت کے تقاضوں اور اپنی قوت، تنظیم، مفادات و ضروریات کے مطابق اپنے اہداف طے کر کے اپنی قومی بقائ یقینی بنائیں، شناخت کا تحفظ کریں اور اپنا حق حکمرانی پھر سے حاصل کریں۔ وگرنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ چکی کا دوسرا پاٹ ہم خود بن جائیں اور دشمنوں کی سازشوں کے علاوہ خود اپنے ہی رویوں سے ملیا میٹ ہو جائیں۔

اپنی موجودہ سیاسی ہیئت، قوت اور رویوں کے ساتھ شاید ہم کچھ زیادہ حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہ ہوں۔ ہمیں اپنی جدوجہد کی ترجیحات اپنے حالات و ضروریات کے مطابق طے کرنی ہونگی نہ کہ کسی کی خواہشات کی بنیاد پر۔ غصہ اور جذبات اپنی جگہ تاہم اس بات کا حقیقت پسندی سے جائزہ لینا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمارے حق میں بہتر اور ممکن صورت اور اس کے حصول کے لیے درکار میدان، ذرائع و تکنیکیں کیا ہوسکتی ہیں جنکی بنیاد پر ہمارے عمل کی ترتیب طے ہو جو یقیناً کسی کے مکروہ افعال کا اس کو ہم سے متوقع ردعمل نہیں ہونا چاہیے جسکا وہ طلبگار ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں