کرونا وائرس چھٹیاں کیسے گزاریں ؟

تحریر ۔ابوبکردانش میروانی
بچوں، جوانوں کو کرونا وائرس کی عالمی صورتحال کے تناظر میں چھٹیاں دے دی گئی ہیں، تمام تعلیمی تدریسی عمل رک گیا ہے امتحانات ملتوی ہو گئے ہیں۔
احتیاط ہمیشہ علاج سے بہتر ہوتی ہے اسی اصول کے تحت احتیاط برتی گئی، سکول کالج اور یونیورسٹیاں بڑے اجتماعات کی جگہ ہیں جہاں ہر فرد ایک خاندان کا نمائندہ ہوتا ہے،ایک فرد کا وائرس زدہ ہونا اس پورے خاندان کو وائرس زدہ کر سکتا ہے اور سکول کالج اور یونیورسٹی جہاں سینکڑوں طلبا طالبات پڑھتے ہیں ایک ہی دن میں وائرس سینکڑوں خاندانوں تک لے جا سکتے ہیں اور ہزاروں افراد کو ایک ہی دن میں وائرس زدہ کر سکتے ہیں، لہذا ان سب سکول کالج یونیورسٹیوں کو بند کر دیا گیا ہے۔ اجتماعات کے دیگر مقامات اور امکانات کو بھی روک دیا گیا ہے۔
ہمارے ملک کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے یہ ہماری قوت ہے بدقسمتی سے ہم نے اسے اپنی کمزوری بنا لیا ہے، یہ ہمارا مستقبل ہیں ان کو ہر مشکل اور نامساعد حالات سے نبرد آزما ہونے کے قابل بنانا ہے لیکن زیادہ گرمی ہو یا زیادہ سردی آ جائے بارش کچھ دن مسلسل برسنے لگے ،ہم سب سے پہلا غلط کام اپنی اس قوت کو چھٹیاں دے کرباندھ دینے کا کرتے ہیں۔ حالانکہ سنگین موسمی حالات میں دنیا بھر میں تعلیمی تدریسی عمل جاری رہتا ہے۔
کسی بھی چیلنج سے نمٹنے کیلئے کسی بھی مشکل سے لڑنے کیلئے ،ہمارا یہ نوجوان طبقہ ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ آپ سوچیں اگر سکول کالج یونیورسٹیاں کھلے ہوئے ہوں ،وہاں یہ طلبا و طالبات اس کرونا وائرس سے اصل اور حقیقی آگاہی حاصل کریں اس سے نپٹنے کی احتیاطی تدابیر سیکھ کر وہیں اس کو عملی طور پر خود پر نافذ کریں اور اس ساری معلومات اور عملی تربیت کو اپنے اپنےگھروں تک لے کر جائیں تو اس وائرس سے نبرد آزما ہونا کتنا آسان اور ممکن ہو جائے گا۔ خوف ختم ہو گا ،افواہیں نہیں پھیلیں گی اور ہم اپنی زندگی کے معمولات بھی جاری رکھ سکیں گے۔ لیکن چونکہ یہ مشکل کام ہے اور ہم آسان کام کرنے کے عادی ہیں لہذا چھٹیاں کر دیتے ہیں تاکہ سارا معاملہ میڈیا اور سوشل میڈیا کی سنسنی خیزی کے حوالے ہو جائے۔
ڈینگی اس سے بھی خطرناک مرض ہے لیکن اسکے بارے میں موثر اور بھرپور مہم نے پوری قوم کو تربیت دے دی اور ہم نے اس آفت پر قابو پا لیا۔ آج بھی ویسا ہی کچھ عملی طور پر کرنے کی ضرورت ہے۔
موجودہ اقدامات یقیناً فائدہ مند ہیں اور دنیا میں کئی جگہوں پرکچھ اسی طرح کے اقدامات دیکھنے میں آئے ہیں، لیکن ان سے عملی طور پر سب کچھ رک کر رہ گیا ہے اور یہ تین ہفتوں کا وقت ضائع ہوتا نظر آرہا ہے بلکہ اس عرصہ کے بعد تعلیمی اور تدریسی سلسلے کو اسی جگہ سے آگے چکانا بھی ممکن نہیں ہو گا ہمیں کہیں پیچھے جانا پڑے گا۔
اس وقت کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ کرونا وائرس کے متعلق درست اور آسان حفاظتی احتیاطی اقدامات سیکھے اور سیکھائے جائیں، سنی سنائی دہشت زدہ کرنے والی خبریں نہ پھیلائی جائیں، یہ بیماری اس قدر نقصان دہ نہیں ہے جتنا اس کا خوف نقصان پہنچا سکتاہے۔
دوسری بات ان دنوں غیر ضروری طور پر کہیں آنے جانے، ملنے ملانے سے اجتناب کیا جائے تا کہ اگر کہیں وائرس موجود بھی ہے تو وہیں پندرہ روز میں ختم ہو جائے ہماری وجہ سے مزید نہ پھیلے۔
تیسری بات یہ کہ تمام طلبا وطالبات اپنے روزانہ کے معمول کو نہ بدلیں صبح اسی طرح اٹھیں ناشتہ کریں تیار ہوں حتی کہ یونیفارم بھی پہنیں اور مقررہ وقت پر اپنے بیگ کتابیں نوٹس لے کر اپنے گھر میں پڑھائی کیلئے موزوں جگہ اسٹڈی ایریا میں آ جائیں ٹائم ٹیبل کے مطابق اپنے گزشتہ اسباق کو دھرائیں اپنی کمی پوری کریں پریکٹس کریں، جن کے امتحانات ہو رہے تھے یا ہونے والے تھے وہ اپنے امتحانات کی تیاری ایک باقاعدہ ٹائم ٹیبل کے تحت کریں پیپر حل کرنے کی مشق مقررہ وقت کے لحاظ سے کریں۔ چھٹی کے وقت اسی طرح واپس یونیفارم بدلیں کھانا کھائیں اور پھر سارے دن کی اپنی مصروفیت کو انجام دیں۔
اس سارے وقت میں وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر پر عمل کریں تاکہ جب چھٹیوں کے بعد آپ اپنے اسکول کالج یا یونیورسٹی جائیں تو آپ تعلیمی نقصان سے بھی بچے ہوئے ہوں اور وہاں پر نافذ احتیاطی تدابیر کو بھی آسانی سے اختیار کرسکیں

اپنا تبصرہ بھیجیں