قاضی صاحب! "گرے پتّے” آغاز ہے

تحریر۔۔۔۔یلان بلوچ
ہمارا سیاسی کلچر ہو یاپھر ادبی و دینی یاپھر دیگر شعبہ جات وحلقے ہوں ان میں لکھنے کا رواج بہت کم ہے.
تاریخ کے گم گشتہ اوراق میں ہمارے کسی سیاسی یا ادبی یادینی رہبر و اکابر نے کتابی صورت میں یا پھر تحریری صورت میں شاذ ونادر ہی اپنے روزمرہ کی یاد داشتوں اور پر خار راستوں پر کچھ لکھاہو.

یہ الگ بات ہے کہ سیاسی یاپھر ادبی ودینی رہبر و رہنماؤں کی سانحہ ارتحال کے بعد انکے قریبی رفقاء یاپھر کسی شاگرد نے ان پر کچھ ناکچھ لکھاہے لیکن دیگر قوموں کی بنسبت ہمارے ہاں میں یہ رواج بہت کم ہی ملتاہے اگر میں کہوں کہ نہ ہونے کے برابر ہے تو بھی یہ غلط نہیں ہوگا.(اس سلسلے میں واجہ عبدالرحیم ظفر اور واجہ رمضان بلوچ کی کاوشیں قابل قدر ہیں ان سے مزید توقعات ہیں)

ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ یوسف عزیز مگسی سے لیکر گل خان نصیر اور عبدالعزیز کرد سے لیکر مولانا عبدالحق بلوچ تک سب کے سب اپنے روز وشب اور یاد داشتوں کو خود اپنی زبانی یا اپنے ہی تحریر کی صورت میں سامنے لا تے مگر کریں کیاکہ اب یہ شکوہ ان سے کسی صورت ممکن ہی نہیں لہذا یہ پیغام اور شکوہ لیکر ہم اپنے بزرگ قوم دوست سیاسی رہنماؤں جنمیں ہماری سیاسی تاریخ کے بقیۃ السلف جناب سردار عطاء اللہ مینگل صاحب اللہ انہیں صحت وتندرستی عطاکرے اگر ہوسکے ضرور وہ اپنی زندگی کے تلخ وحقائق پر مبنی شب وروز قرطاس قلم کروادیں تاکہ آنے والی نسلیں اس سے مستفید ہوسکیں لیکن نہیں معلوم کہ انکی صحت اسے یہ اجازت دیں گے کہ نہیں لیکن یہ ہماری آرزو اور تمنا ہے.

ان حالات میں کیچ سے تعلق رکھنے والے بزرگ سیاسی شخصیت قاضی نور احمد صاحب داد کے مستحق ہیں جنہوں نے خاموشی توڑکر اپنی یاد داشتوں اور حالات زندگی کے پرقلم اٹھایا ہے جو دوسرے سیاسی اکابرین اور کارکنان کیلئے قابل تقلید بھی ہے اور قابل عمل بھی ہے کہ وہ بھی اپنے گزرے ہوئے ہوئے ایام پر کچھ نا کچھ لکھیں اور خاموشی توڑ دیں تاکہ نئی نسل کو اپنے لیے راستہ ہموار کرنے میں رہنمائی مل سکے.

قاضی نور احمد میری کم علم کیمطابق کیچ سے تعلق رکھنے والے واحد سیاسی شخصیت ہونگے جنہوں نے دیگر سیاسی طالبعلموں اور اکابرین کو راستہ دکھایاہے کہ وہ اپنی یاد داشتیں اور جوانی سے لیکر بڑھاپے تک کے ایام پر قلم اٹھائیں.

گرے پتے قاضی نور احمد کی یاد داشتوں پر مبنی ایک آغاز ہے جسمیں بعض تاریخی واقعات اور بعض حقائق سے پردہ اٹھایاگیاہے اور یہ ایک طرح سے ایک تاریخی وسیاسی دستاویز بھی ہے.

قاضی صاحب کی کتاب پر بات کرنا مجھ جیسے طالبعلم کے بس کی بات نہیں کیونکہ سیاست کے پیچ وتاب اور تند وتیز سمندری چولوں پر وہی ناخدا تیراکی کرسکتے ہیں جنکی شب و روز سمندری لہروں کی نشیب وفروز پر سے گزرتی ہے.
لیکن بحیثیت ایک طالب علم اور ایک قاری کی حیثیت سے دوچار الفاظ ضرور لکھوں گا لیکن اس سے پہلے قاضی نور احمد کا آپ سے مختصر تعارف کرواتے ہیں.
قاضی نور احمد صاحب بلوچی زبان وادب کی شاعری کے روشن استار مبارک قاضی کے ہی آبائی علاقے پیدارک کیچ میں انیس سو انچاس میں پیدا ہوئے. تعلیم وتعلم کیسے مکمل کیا کہاں سے مکمل کیا اسکی ایک لبی داستان ہے جسے آپ انکی تحریرکردہ کتاب (گرے پتے میں تفصیل سے پڑھ سکتے ہیں).
ان کے مطابق "21فروری1971کو گورنر بلوچستان جنرل ریاض حسین صاحب کی دستخطوں سے انہیں نوکری کا پروانہ بحیثیت سوشل ویلفیئر آفیسر ملا جو انکے لیے ایک نئی زندگی سے کم نہ تھا”.اور2009کو بطور ڈپٹی ڈائریکٹر سوشل ویلفیر کیچ ریٹائرڈ ہوگیا.
نوکری کیساتھ ساتھ وہ سیاست کے پر خار راستوں پر بھی سفر کرتا رہا،سختیاں جھیلتا رہا،مختلف چہروں سے ملا،مختلف عہدوں پر براجمان شخصیات سے میل ملاپ کیا.
زمانہ طالب علمی میں ہی والد محترم کا سایہ سر سے اٹھ گیا. عہدجوانی نے کبھی سیاست کے میدانوں میں اتار تو کبھی یہ نوجوان سنیماؤں میں گھومتارہا،بٹھکتارہا. لیکن بالآخر وہ اپنے آپکو سدھارنے میں کامیاب رہا.

گرے پتے میں قاری کیلئے سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کتاب کے مصنف نے لکھنے کا حق ادا کردیاہے بہت کم لکھاری ہوتیہیں جو اپنی سربستہ رازوں کو دو ٹوک انداز میں بیان کرتے ہیں یہ قاضی صاحب ہیں جنہوں نے اپنی کمزوریوں کابھی ذکرکیاہے اور قربانیوں کابھی زکر کیاہے انہوں نے سیاست میں عملی طورپر حصہ لیاہے لیکن واحد شخص ہونگے جنہوں نے کسی سے سیاسی رشوت نہیں لیاہے بلکہ بابابزنجو انہیں تحصیلداری بنانے کی آفر کرتیہیں تو یہ انکار کرتیہیں جبکہ آج تحصیلداری کیلئے لوگ کروڈوں خرچ کرکے اس عہدہ پر براجمان ہونا چاہتے ہیں تاکہ خووب کمائی کرسکیں، دوسری جانب انہیں فشریز انسپکٹر کا عہدہ بھی ملتاہے لیکن وہ اپنے دوست مولابخش کے حق پر ڈاکہ ڈال کر اس منصب کو اپنے لیے حرام سمجھتے ہیں کہ کسی اور کی نوکری اور رزق پر چھراگھونپ کر خود منصب حاصل کرسکیں برحال یہ قربانیاں ہیں اور وفاداریاں ہیں جو ایک حقیقی سیاسی کارکن کیلئے سبق آموز واقعات ہیں.
جبکہ آج کے سیاسی کارکن میں قربانی کا جزبہ بہت کم ہے اسکی وجہ یہ نہیں کارکن قربانی کا جزبہ رکھتانہیں بلکہ سیاست میں سرمایہ داروں کی مداخلت ہے،سیاست میں اقرباء پروری کی پرورش ہے سیاست میں قربانی کی قدر نہیں کی جاتی.
گزشتہ دنوں آل پارٹیز کیچ نے ایک قومی کانفرنس کا انعقاد کیاتھا جسمیں مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنماء شریک تھے جو اس جمود میں ایک بہترین کاوش تھی جہاں مقررین نے خطاب کرتیہوئے بلوچستان کے حقیقی مسائل پر شاندار گفتگو کی اسی پروگرام کے ایک مقرر اور جماعت اسلامی کے صوبائی سیکریٹری جنرل مولانا ھدایت الرحمن نے اپنے خطاب میں کہاکہ”سیاسی جماعتوں میں کارکنان کی قربانیوں کی قدر نہیں کی جاتی اگر کوئی سرمایہ دار اور منشیات فروش بھی کسی سیاسی جماعت کا حصہ بن جائے تو وہ ایک دن میں ترقی کرتا ہوا انتخابات میں ٹکٹ ہولڈر بن جاتا ہے لیکن غریب کارکن جس کے پاس سرمایہ نہیں وہ نظر انداز ہورہاہے ".
شاید یہی ایک بنیادی وجہ ہے جس نے سیاسی کارکنان سے قربانی کاجزبہ چھن لیاہے اور آج کارکن بھی مفادات کوہی دیکھتاہے اور سیاست سے سیاست کی اصل روح غائب ہے.

گرے پتے میں ایک حقیقی سیاسی کارکن کی روداد اور سفر کا تذکرہ ہے کہ جس نے شہید حمید بلوچ کو پھانسی کے پھندے سے آزاد کرانے کی تہیہ کرلی ہے مگر پھر مقدر کو یہ فیصلہ منظور نہیں ہوتاہے اور منصوبہ ناکام ہوجاتاہے.

ایک اہم واقعہ جس میں لکھاری نے ہمارے دانشور اور رہنماء عبدالرحیم ظفر کا بھی تذکرہ کیاہے کہ وہ بی ایس او اینٹی سردار میں انہیں شمولیت کی دعوت دینے گرومندر پہنچتے ہیں لیکن یہ شمولیت کی دعوت بھی تشدد میں تبدیل ہوتی ہے اور یوں بی ایس او اینٹی سردار کے رہنماء ایک سیاسی کارکن کو اپنے ساتھ شامل ہونے سے دور کردیتے ہیں.
تاریخ کے اوراق اور حالات و واقعات کو پڑھنے کے بعد یہی سبق ملتاہے کہ بلوچ نوجوان کارکنان پر جب جزبات غالب ہوتے ہیں تو ہوش کھوبیٹھتے ہیں اور اپنے آپکو اپنی کوششوں اور کاوشوں کو ایک ہی معمولی سی وقت میں منوں مٹی دبا دیتے ہوئے اسکا خمیازہ اور نتائج بھیانک صورت میں اٹھاتے ہیں.
جبکہ طاقت اور سیاسی قوت کو بہتر مفادات کی تکمیل کے بجائے ہمیشہ غلط استعمال کرکے نقصان اٹھانا ہماری تاریخ کا المیہ ہے جس پر افسوس ہی کیاجاسکتاہے.

گرے پتے پڑھنے کے بعد قاری پر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک سیاسی کارکن سیاست کی پر خار وادی میں کن مصائب وآلام سے دو چار ہوتی ہے اور کن مسائل کاسامنا کرتی ہے قاضی صاحب سے یہ اپیل ہے کہ وہ اس سلسلے کو مزید تفصیل کیساتھ آگے بڑھائیں اور اپنی تجربات سے نوجوان سیاسی کارکنان اور نئی نسل کو بہتری کاراستہ دکھائیں.
امیدہیکہ قارائین کی فرمائش پر پورے اترتے ہوئے وہ گرے پتے کے بقیہ حصوں کی تکمیل جلد کریں گے.

اپنا تبصرہ بھیجیں