مفادات اور مزاحمت

تحریر:زین گل
انسان کی فطرت ہے کہ وہ اپنے مفادات کی غلامی کرنے پر مجبور رہتا ہے وہ اپنے مفادات کو اپنا حق سمجھ کر ظلم وجبر کا سہارا لیتا ہے یہاں تک کہ تشدد اور ظلم اس طبقے کے لیے اس حد تک بڑاھا دیتا ہے جہاں سے اسے اپنے مفادات کے لیے خطرہ محسوس ہوتا ہے۔غیرانسانی جبراور غیراخلاقی رویہ اس کے ظلم کا انجام بن کر مزاحمت کی شکل اختیار کرتا ہے
ظالم اور ظلم دونوں ایک ہی پیہئے کے حصے ہیں میں ظالم کو ظالم کہوں یا سامراج کا نام دوں آئینہ ایک ہی شخص کا چہرا دکھاتا ہے اس لیے یہاں سامراجی قوت کو ظالم کا نام دیا ہے کیونکہ وہ ظلم پر مسلسل عمل پیرا ہے۔
عموماً وہ طبقہ جو اپنے مفادات کا پجاری ہے اور کسی بھی طرح اپنے مفادات، اپنی طاقت کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے وہ نظام اور حکمران کا تعین بھی ویساہی کرتا ہے جس میں اس کے مفادات کے لیے ماحول سازگار ہو۔
اکثر کہتے ہیں کہ تاریخ کھبی ظالم کے حق میں نہیں رہی اسکا  پلڑا بھاری ضرور رہا ہے مگر تاریخ نے انہیں ہمیشہ ظالم کہہ کر ظلم کرنے والا ثابت کیا ہے۔ ظالم کے پاس طاقت، ظلم، جبر، تشدد، تکبر، فخر، گھمنڈ ضرور ہوتا ہے مگر وہ سب وقتی طاقت کہلاتا ہے جو صرف وقت کے ہاتھ کا میل ہوتا ہے۔فتح اور کامیابی انکی ہوتی ہے جو ظالم کے سامنے نہیں جھکتے۔
یہ الفاظ سننے میں اچھے لگتے ہیں مگر مظلوم کو ظلم ختم کرنے کے لیے ہمیشہ قربانی اور خونی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ اپنے آپ ظلم ختم۔نہیں ہوتا۔ یاد رہے مظلوم وہ طبقہ ہے جس کی طاقت جدوجہد اور مزاحمت میں ہے۔
دنیا میں جو بھی انسان اپنے بنیادی حقوق اپنے انسانی اور قومی بقاء اور شناخت کے لیے جس حد تک اور جس طریقہ سے بھی یعنی قلم ، علم، قدم، آوز، بندوق اپناتا ہے وہ مزاحمت کہلاتا ہے وہ غلامی سے انکاری بن کر اپنے لیے آنے والوں کے لیے راہِ نجات تلاش کرتا ہے۔
مزاحمت زمانہ قدیم سے لاٹھی، پتھر، تلوار سے لے کر آج کے جدید دور میں قلم، کتاب، سوشل میڈیا کے دور میں داخل ہوئی ہے لیکن مزاحمت کا راستہ قدیم زمانہ سے اب تک کے جدید دور میں علم اور شعور نے دیا ہے آگے بھی شعور ہی مزاحمت کی پہچان ہوگی۔
مزاحمت نے ہر دور میں ایک الگ روپ اپنایا ہے کھبی کمیونزم کی شکل اختیار کی تو کھبی سوشلزم۔ لیکن یاد رہے اس بات کی یقین دہانی کوئی نہیں کرا سکتا کہ کمیونزم اور سوشلزم کے مفادات نہیں ہیں یا وہ ظالم نہیں ہو سکتے۔ یہاں چیچنز کو مظلوم نہیں کہا جا سکتا یا پھر چین کے مسلمانوں کو؟
ویسے ہی میں اسلام کو مزاحمت کہوں؟  جس نے انسان کو رنگ نسل زات پات ہر چیز میں برابر رکھا جس نے  غیر انسانی معاشرے کو ایک انسانی معاشرے میں تبدیل کرنے کا راستہ بتایا مگر چودا سو سال پورانے اسلام میں اور آج کے اسلام میں زمین آسمان کا فرق ہے جو اسلام محمدؐ نے اخلاقی رویوں اور حسن سلوک اور کردار سے پہلایا وہ آج نہیں ہے۔ آج دنیا میں مسلمان بہت ہیں مساجد نمازیوں سے بھرے ہوتے ہیں مگر اس کے باوجود پڑوسی بھوکے پیٹ سو جاتا ہے۔ عورت صرف جسمانی ضرورت بن چکی ہے مطلب مسلمان نے اسلام تو اپنایا محمد کا کردار نہیں اپنایا۔وہ حسن سلوک نہیں اپنایا وہ رحمدلی نہیں اپنائی۔
غرض ہر شے جو ابتدا میں مزاحمت ہوتی ہے یہ ضروری نہیں کہ وہ ہمیشہ اپنی اصل حالت میں موجود رہے۔ یعنی مفادات اس میں بدلاو پیدا کرتے ہیں۔
دنیا میں ایک ایسی جگہ پائی جاتی ہے جسے بلوچستان یعنی بلوچوں کی سرزمین کہتے ہیں۔ بلوچستان کی سرزمین اپنی قدیم تاریخی حوالات سے مختلف ادوار میں مزاحمت کی مثال رہی ہے وہ اپنے روز اول سے مزاحمت ہے لیکن اس نے اپنے سینے پر مہرگڑھ کو بھی جنم دیا ہے مہرگڑھ کی موجودگی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ بلوچستان نہ صرف انسانوں کی تہذیب کی سرزمیں رہی ہے بلکہ سائنس ، علم اور علم کی جستجو رکھنے والی قوم کی بھی سرزمین ہے۔  شاہ محمد مری کی کتاب "بلوچ مہرگڑھ سے ریاست کی تشکیل تک” میں بلوچستان کی سرزمین اس کی قدیمیت اور تاریخ کے علاوہ اس بات کو بھی ثابت کرتی ہے کہ بلوچ سرزمین نے مہرگڑھ کی صورت میں دنیا کو یہ بھی بتایا کہ ایک منظم اور متنظم معاشرے کی تشکیل کیسے ہوتی ہے۔
مہرگڑھ سے ملنے والے شوائد، رہہن سہن، کاشتکاری ، طریقہ زرخیزانگیزی ایک مضبوط اور منظم انتظامی معاشرے کی طرف اشارہ کرتے ہیں
بات منظم معاشرے کی ہو اور عورت کا ذکر نہ ہو یہ ممکن نہیں کیونکہ گھر سے معاشرے تک جب بھی کوئی معاشرہ ترقی یافتہ ہوتا ہے اس میں عورت کا اہم حصہ ہوتا ہے۔ اس کتاب کے مطابق مہر گڑھ کی عورت خودمختار اور طاقتور ہونے کے ساتھ زہینی صلاحیتوں کی بھی مالک تھی جس نے اپنی صلاحیتوں کو اپنے معاشرے کے لیے استعمال کیا۔ مہرگڑھ کی عورت نے کاشتکاری ایجاد کرکے انسانی زندگی کی شکار والی حالت بدل ڈالی۔ مہرگڑھ کی عورت اگرچہ زہینی صلاحیتوں کو بروئے کار عمل میں لانے کی طاقت رکھتی تھی تو اس بات سے میں انکاری کیسے ہوسکتی ہوں کہ وہ مزاحمت کے گُن سے واقف نہ ہو۔
بلوچ قوم اپنی زمین کی ہزاروں سالوں کی ارتقائی نشوونما کے بعد آج کے بلوچستان کا وارث ہے۔ مگر آج کا بلوچستان اپنی تاریخ کی سب سے بڑی مزاحمت میں مصروف ہے۔اس کے نوجوان گمنام اندھیری کال کوٹھڑیوں میں مزاحمت میں مصروف ہیں یا پھر اپنی ہی زمیں میں کہیں اجتماعی قبروں میں یا لاوارث پڑی ہیں پاکستان کی عدالتیں انہیں انصاف کے کٹھرے میں لانے کے اہل نہیں۔ بلوچ سرزمیں کی عورت اپنے گھر سے نکلنے، تعلیم کی جستجو سے لے کر اپنی معاشرتی برابری کی مزاحمت سے لے کر اپنی انسانی اور قومی بقاء کے لیے مزاحمت بن چکی ہے۔کبھی وہ گل بی بی کی شکل میں انگریزوں کے مفادات کے سامنے رکاوٹ بنی رہی تو آج ملکناز کی صورت میں مزاحمت کر کے اپنی بیٹی برمش کو آنے والے کل کے لیے مزاحمت کے لیے درس دے گئی۔ وہ کریمہ بن کر ریاست اور ریاستی مدد گار فرسودہ روایتوں کو پیچھے دکھیلتی ہوئی اپنی سرزمین کی عورت کے لیے مزاحمت کی مثال بنی۔
موت کھبی بھی مزاحمت کو ختم نہیں کر سکتی بلکہ اسے توانائی بخشتی ہے فکر اور سوچ کو زندہ رکھتی ہے۔
مفادات اور مزاحمت کی کشمکشں تب تک رہتی ہے جب تک ان میں سے کسی ایک کا خاتمہ نہیں ہو۔

اپنا تبصرہ بھیجیں