32 سالوں میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا؟

تحریر ۔حضور بخش قادر
بجلی دو پانی دو ورنہ کرسی چھوڑدو یہ وہ نعرہ ھے جو اکثر احتجاج کے دوران لگانے جاتے تھے 1988 کے الیکشن میں جس جوش و جذبے سے عوام نے حصہ لیا ان کا خیال تھا کہ اب ہماری زندگی آور تقدیر بدل جائے گی 1988 کے الیکشن اچھی طرح یاد ہے اس وقت میرا عمر18 سال سے کم تھا اور میں ووٹ کاسٹ نہیں کرسکتا تھا مگر پولننگ اسٹیشن پر موجود تھا اس دوران ایک کالے رںگ کے چھوٹے بچارو گاڑی میں چار افراد سوار تھے ان کے پاس نہ کوئی باڈی گارڈ تھے اؤر نہ اسلحہ تھے ان میں سے ایک شخص سے میرا جان پہچان تھا کیونکہ اس کا پنجگور بازار میں ایک دکان تھآ وہ ہمارے گھر قریبی پولنگ اسٹیشن آیا جو ہائی سکول میں قائم تھا اس وقت مڈل سکول تھا اس شخص نے آکر ہم سے کہا کہ اس کالے رنگ کے گاڑی کے اندر شخص قومی اسمبلی کا امیدوار ہے یہ ووت کے بدلے نوٹ دے گا میرے ساتھ چند اور جوشیلے نوجوانوں کھڑے تھے جو ووٹرز کو گائیڈ کر نے کے ساتھ ساتھ انتخابی فہرستوں سے نآم ڈھونڈ کر ووٹرز کے حوالے کرتے تھے اوران کو سمجھا تے تھے جو شخص ووٹ کو نوٹ سے بدلنے کا کہہ رہے تھے اس کو پولنگ اسٹیشن سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا مطلب یہ ہے کہ اس دور میں نظریہ وفکر کے تحت لوگ سیاسی جماعتوں میں تھے موجود دور میں سیاسی جماعتوں نے ورکرز کو مفاد پرست موقع پرست خود غرض بنادیا گیا ہے مگر صرف ورکرز کا قصور نہیں بلکہ لیڈر ز بھی مفاد پرست موقع پرست کنبہ پرستی کی سیاست کو فروغ دے رہےہیں اقتدار سے پہلے اور اقتدار کے بعد ان میں بہت فرق دکھائی دیتا ہے جہاں تک لوگوں کو روزگار فراہم کرنے والی بات ہے یہ عوام کے حقوق کا حصہ ہیں یہ کیسی کی ذاتی ملکیت نہیں کہ فلان کو نوکری دی ھے فلان کو ملازمت دی ھے وغیرہ وغیرہ بہرحال انتہائی معزرت کے ساتھ دل آزاری ہر پیشگی معزرت سب سے گستاخیِ معاف ۔۔۔۔اقتدار سے قبل جو پانی دو بجلی دو ورنہ کرسی چھوڑدو کے نعرے لگا رہے تھے یا کہ نعرے لگائے والوں کی قیادت کرریے تھے کیا اقتدار کے بعد غریب عوام کو بجلی اور پانی کے لئے کوئی مناسب سرکاری طور پر اقدامات اور عمل درآمد کیا گیا بجلی کے بقایاجات و مسائل کو سنجیدگی سے لیا گیا اس کا بہتر جواب عوام الناس خود بہتر دے سکتے ہیں ۔ جن کو تمام سہولیات میسر ہو انہیں عام افراد کے مسائل سے اگر کوئی دلچسپی ہوتا تو 32 سالوں کے طویل سفر 1988//2021 تک عوام کو روز مرہ ضروریات زندگی میسر ہو تے آج بھی عام عوام سہولیات سے محروم ہیں اور کچھ معاملات میں تو ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے رہ گئے پنجگور میں کسی زمانے دو دو فلائیٹ ہوا کرتے تھے جس سے لوگوں کو سفری سہولیات میسر تھے اور لوگ اپنے مریضوں کو بروقت کراچی منتقل کر سکتے تھے اس دور میں صبح 8 بجے پنجگور کے لوگوں کو تازہ اخبارات ملتے ویسے اس زمانے میں نہ سوشل میڈیا تھآ آور نہ ہی الیکڑونک میڈیا لوگوں کے معلومات کا موثر ذریعہ اخبارات تھے خصوصاً روز نامہ انتخاب ٹو لوگوں کے لیے ایک نشے سے کم نہ تھا اس وقت جہاں جہاں واٹر سپلائی کا نظام موجود تھا لوگوں کو دو دو ٹائم پانی کی سہولت میسر تھا بجلی دو پانی دو محض ایک نعرہ تھا تعلیمی معاملات میں بہتر تھے آس دؤر میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے موجود نہیں تھے صرف سرکاری ادارہ تھے مگر سرکاری تعلیمی اداروں سے ڈاکٹر انجینئر پروفیسر وکلاء صحافی دانشور سیاستدان پیدا ہوئے ہیں آج طبقاتی نظام تعلیم نے قوم کو تقسیم کیا ھے امیروں کے بچوں کے لیے الگ تعلیمی ادارے اور غریبوں کے لئے الگ تعلیمی ادارے ہیں پنجگور کی خوبصورتی اور ترقی کے سب خواہاں ہیں خوبصورتی اور ترقی خوشحالی سب کو پسند ھے مگر جو لوگ ترقی کے لیے منصوبہ بندی کرتے ہیں ان میں منصوبہ بندی کا فقدان نہ ہوتا تو آج پنجگور ترقی یافتہ علاقوں میں شامل ہوتا بہر حال اگر ہم مزید حقیقت بیان کریں تو نہ جانے لفافہ صحافت بلیک میلر زرد صحافت کے القاب سے نوازے جائیں گے مگر حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا جو لوگ گزشتہ 32 سالوں سے بلواسطہ یا بلا واسطہ اقتدار میں ہیں وہ سب کے سب پنجگور کی پسماندگی کے زمہ دار ہیں آئیں اب بھی وقت ہے پنجگور کی خوبصورتی اور ترقی خوشحالی کے لیے مل کر کام کریں رخشاں ندی کے شمالی جانب کلگ سے زیرو پوائنٹ وشبود تک روڈ کے منصوبے پر کام کیا جائے 32 سالوں کے دوران علاقے میں کالجز یونیورسٹی کیمپس ہسپتال چند روڈ بن گئے اور رہے ہیں اچھی بات ہے مگر عام عوام بجلی پانی روڈ ہسپتالوں میں ادویات سہولیات سے آج بھی محروم ہیں 32 سالوں کے دوران منصوبہ بندی کے فقدان اور مشیروں کے غلط مشوروں کی وجہ سے ہم وہ ترقی خوشحالی حاصل نہ کرسکے جو کرنا تھا عوام پیچارے اچھی باتوں پر تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہیں کرسکتے اور 32 سالوں کے دوران ہم نے کیا کھویا کیا پایا یہ آنے والا وقت بتائے گا اور تاریخ ایک دن اپنے آپ کو ضرور دھرائے گی کیا کیا مکان تھے شاہ نشین کے جب آئی موج حارثہ تنکے سے بہہ گئے

اپنا تبصرہ بھیجیں