کوئی دن اور

تحریر انور ساجدی

ہولناک تباہی کے ساتھ کرونا کے بے شمار مثبت پہلو بھی ہیں ایک طرف سائنس دان ڈاکٹر اور جدید طب کے ماہرین سرجوڑ کر بیٹھے ہیں کہ اس خطرناک وائرس اور دیگرجرثوموں کی طریاق کیسے بنائی جائے تو دوسری طرف کرہ ارض کے اس کونے سے اس کونے تک شاندار ادب تخلیق ہورہا ہے نثر تحقیقی مقالے اور اعلیٰ نظمیں دیکھنے کو مل رہی ہیں کراچی میں پہل استاد محترم محمود شام نے کی ہے۔
اس درد کی دوا ہے تنہائی
کرونا کو لیکر کئی ممالک یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر وہ ہلاکت خیز ہتھیاروں کی جگہ انسانوں کی صحت پر توجہ دیتے تو ایسی وبا نہ آتی اور اگر آتی تواتنی تباہی نہ پھیلاتی کہاجاتا ہے کہ اس وقت روس،امریکہ،فرانس اور دیگر ممالک کے پاس اتنے ایٹم ہائیڈورجن اور دیگر خطرناک بم ہیں جو دنیا کو کئی بار تباہ کرسکتے ہیں۔روس اور امریکہ کے پاس کرہ ارض کو تباہ کرنے کی صلاحیت ضرور ہے لیکن دو ملک ایسے ہیں انہوں نے روس اور امریکہ سے زیادہ خطرناک زیادہ جدید اور زیادہ مہلک ہتھیار تیار کرلئے ہیں یہ دو ممالک چین اور اسرائیل ہیں یہ قدرتی بات ہے کہ جب کوئی ملک ترقی کی معراج پر پہنچ جائے تو وہ ”کنزیومرز“ گڈز کے ساتھ دیگر تجربات بھی کرتا ہے حتیٰ کہ موجودہ ہتھیاروں کی نسبت زیادہ جدید ہتھیار بنانے کی مشق بھی کرتا ہے۔
جہاں تک روس اور امریکہ کے ہتھیاروں کاتعلق ہے وہ گزشتہ صدی کی سائنسی تحقیق کانتیجہ ہیں اور ناکارہ ہیں مہلک ترین اورجدید ترین ہتھیاروں کی تیکنک میں اس وقت چین اوراسرائیل آگے ہیں چین ایک محیر العقول ملک ہے اور اس میں بسنے والے ایک ارب تیس کروڑ لوگ عام انسانوں جیسے نہیں بلکہ غیر مرئی یا خلائی مخلوق جیسے ہیں چین نے دنیا کا انوکھا معاشی سیاسی اور سماجی نظام تشکیل دیا ہے اسکے لوگ روبوٹ کی طرح کام کرتے ہیں بلکہ لاکھوں روبوٹ بھی بناتے ہیں اس وقت سب سے زیادہ روبوٹ چین اوراسکے بعد جاپان میں بن رہے ہیں ماؤ کا انقلاب آیا تھا تو وہ ایک سوشلسٹ انقلاب تھا جو مارکسی نظریہ کو انحراف کرکے برپا کیا گیا تھا ماؤ کاخیال تھا کہ چین میں کروڑوں کسان ہیں اس لئے کسان ہی اس انقلاب کی بنیاد ہیں ماؤ اور چواین لائی نے جو اپنے عہد کے عظیم مدبر اور دانشور تھے اپنے ملک کو آزادی تو دلادی لیکن وہ خوشحالی نہیں لاسکے۔
چواین لائی کس طرح کی شخصیت تھے
انکی موت پر ذوالفقار علی بھٹو نے جو
تعزیتی مضمون لکھا وہ ایک ادبی
شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے انہوں نے
چواین لائی کی دانشمندی سیاسی بصیرت
معاملہ فہمی عالمی امور پر گرفت اور
علمی گہرائی کوشاندار الفاظ
میں خراج عقیدت پیش کیاتھا
1980ء کی دہائی میں چینی کمیونسٹ پارٹی کے اکابرین سرجوڑ کر بیٹھے کہ کس طرح ایک ارب کی آبادی کوخوراک اوردیگر بنیادی ضروریات کایقینی بندوبست کیاجائے اس زمانے میں ڈینگ زیاؤ ینگ کی دوستی ایک امریکی دانشور سے تھی اس نے مشورہ دیا کہ اپنا بند سماج کھولدو ساری دنیا کے سرمایہ کو آنے دو اس پر ڈینگ حیران ہوئے کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے سوشلسٹ نظام کا کیا بنے گا لیکن وہ قائل ہوگئے اس زمانے میں ہانگ کانگ برطانیہ کی کالونی تھا ڈینگ نے اس کے قریب شن جن شہر کی بنیاد رکھی اسی شہر میں ڈینگ کا مقبرہ ہے جس پر چینی بڑی تعداد میں جاکر حاضری دیتے ہیں۔ڈینگ کی کاوشوں وژن کے ساتھ صرف25سال کے عرصہ میں شن جن ہانگ کانگ سے بھی عظیم شہر بن گیا۔انہوں نے سب سے پہلے غیر ملکی سرمایہ کاری کیلئے اسی شہر کو کھول دیا۔آج یہاں سوعظیم صنعتیں قائم ہیں یہ چین کا سائبر حب ہے اور دنیا کی جدید ترین سمارٹ فون ”ہواوے“ کاہیڈکوارٹر ہے۔جب ایک عشرہ تک کھربوں ڈالر چین آئے دنیا کی تمام بڑی کمپنیوں نے اپنے کارخانے یہاں قائم کئے تو صرف20سال کے کم عرصہ میں 70کروڑ لوگ خط غربت سے اوپر آکر خوشحال ہوگئے ڈینگ نے غیرملکی سرمایہ کے بل بوتے پر ہونے والی ترقی کو سیاسی نظام کے اندر دخل اندازی کی اجازت نہیں دی بلکہ ہرجگہ ہرکارخانہ اور ہربڑے صنعتی یونٹ میں کمیونسٹ پارٹی کے لوگوں کی اجارہ داری قائم کردی اس مقصد کیلئے انہوں نے ایک غیراعلانیہ ٹائیگر فورس کھڑی کردی یہ اپنے وزیراعظم جعلی ٹائیگر فورس بنانے کی بات کرتے ہیں یہ اسی بات سے متاثر ہیں۔
کوئی دوسال ہوئے صدر ٹرمپ نے ہواوے فون ٹیکنالوجی پر پابندی عائد کرتے ہوئے یورپی ممالک کو خبرداردیا تھا کہ وہ اس سے دور رہیں کیونکہ یہ کمپنی جوفائیوجی ٹیکنالوجی بنارہی ہے یہ جاسوسی کاایسا آلہ ہے کہ پوری دنیا چین کے سامنے الف ننگی ہوجائے گی سارا ڈیٹا خود بخود اسے منتقل ہوجائے گا اگرچہ یہ بات صدر ٹرمپ نے امریکہ کی سب سے بڑی کمپنی ایپل کو درپیش خطرے کی وجہ سے کی تھی لیکن حال ہی میں امریکی سائنس دانوں نے چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں انکے مطابق چین کی فائیو جی ٹیکنالوجی انسانوں کیلئے کرونا اوردیگر وائرس سے زیادہ خطرناک ہے اسکے ذریعے جو الٹراشعاعیں نکلتی ہیں وہ انسان کی جینیاتی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہیں اور دنیا کے تمام انسان ہر وقت خطرے سے دوچار رہتے ہیں اور چین کی مرضی کہاں تباہی پھیلائے اس بات سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین اور مغربی سائنس دان دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے خطرناک ٹیکنالوجی تیار کررہے ہیں۔امریکہ اور چین کے درمیان آرٹیفشل انٹیلی جنس یا مصنوعی ذہانت بنانے کا جو مقابلہ ہورہا ہے وہ بہت خطرناک ہے کیونکہ مستقبل میں انسان کی بجائے یہ روبوٹ تمام کام کریں گے گزشتہ سال صدرٹرمپ نے خلائی فوج بنانے کا اعلان کیا تو چینی صدر شی نے چاند کی دوسری سطح پر خلائی گاڑی اتاردی۔
جب چین کے شہر ووہان کواس سال20جنوری کو کرونا وائرس نے اپنی لپیٹ میں لے لیاتو خیال تھا کہ لاکھوں لوگ ہلاک ہوجائیں گے ہزاروں تو ہوئے لیکن لاکھوں نہیں صدرٹرمپ نے اس وائرس کو چائنا وائرس کا نام دیا،امریکہ کے غیر روایتی صدر نے مارچ میں ہی ایک اخبار نویس کوڈانٹتے ہوئے فرمایا کہ امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں آپ لوگ افواہ اور افراتفری پھیلانا چاہتے ہیں لیکن دیکھتے ہی دیکھتے امریکہ کے سوا لاکھ وائرس کی زد میں آگئے صرف نیویارک شہر میں ہزاروں لوگ بیماری میں مبتلا ہیں اس پر صدر ٹرمپ نے یوٹرن لیکر دودن پہلے چینی صدر کوفون کیا اور انکی مدد مانگ لی کئی ایسے لیڈر ہیں کہ وہ ڈھٹائی کے ساتھ یوٹرن لیتے ہیں اور شرم بھی محسوس نہیں کرتے گوکہ چین ابھی تک کرونا سے محفوظ نہیں ہے لیکن اس نے دوماہ کی وبا کے دوران جو مالی نقصان اٹھایا تھا تیزی کے ساتھ اس کا ازالہ کررہا ہے دنیا کے کسی اور ملک میں یہ صلاحیت نہیں ہے صدر شی نے تمام صنعتی یونٹوں کوحکم دیا کہ وہ ایک کھرب ماسک 50کروڑ وینٹی لیٹرز اور ایک ارب ٹیسٹنگ کٹ تیار کریں اس وقت دنیامجبور ہے کہ وہ دھڑا دھڑ چینی مال خریدے اس نے ہلاکت خیز وبا کوبھی ترقی کے نئے مواقع میں بدل دیا ہے اسکے ساتھ ہی چین ویکسین کی تیاری میں مصروف ہے ہوسکتا ہے کہ امریکہ اور یورپ یہ ویکسین پہلے تیار کرلے یا اسرائیل اسے پہلے مارکیٹ کردے لیکن ان تمام ممالک میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اربوں کی تعداد میں ویکسین تیار کریں یہ کام صرف چین کرسکتا ہے دوسرے یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کے ویکسین کومسلمان مشکوک نظروں سے دیکھیں گے جیسے کہ پولیو کی دوا کو دیکھتے ہیں جبکہ چین کی دوا کو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ استعمال کیاجائے گا۔
کرونا کے جتنے بھی مثبت پہلو ہیں چین ان سے فائدہ اٹھائیگا وہ نیا مالیاتی نظام اور صحت کااسٹیٹ آف آرٹ سسٹم بھی تشکیل دے گا امریکہ اور یورپ پرپسماندہ دنیا کا جوانحصار تھا وہ ختم ہوجائے گا کیونکہ یورپ کا جو نظام تھا وہ دوسری جنگ عظیم کے بعد بنایا گیا تھا وہ سڑگل چکا ہے اور وہ جدید کے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہے اگر چین کے جدید شہروں سے کوئی لندن،پیرس، بروسیلز یاایمسٹرڈیم جائے تو وہ لیاری کوارٹرز معلوم ہونگے آنے والے وقت میں یورپ ترقی اورٹیکنالوجی میں پیچھے رہ جائے گا اگر چین تعاون کرے تو ملائیشیا،انڈونیشیا اور مشرق بعید کے دیگر ممالک نئی ولایت کی شکل اختیار کرلیں گے اور دنیا کے لوگ سیاحت کیلئے یورپ کا کارخ نہیں کریں گے امریکہ اپنے براعظم کابادشاہ تورہے گا لیکن بہت جلد برازیل اسے ٹکردے گا اس نے اپنی ٹیکنالوجی متعارف کروادی ہے چین بھی اسکی مدد کررہا ہے امریکہ کے پاس سازش کرنے کی صلاحیت چین سے زیادہ ہے لیکن کب تک وہ سازشوں اور جنگوں کے ذریعے اپنی برتری برقرارکھے گا۔
اس خطے میں چین کے سب سے اچھے تعلقات پاکستان کے ساتھ ہیں لیکن وہ اردگرد کے ممالک پر بھی دست شفقت رکھ رہا ہے جس میں برما اور سری لنکا خاص طور پر قابل ذکر ہیں چین ان نکمے ممالک کے وسائل کو اپنے تصرف میں لیکر اپنی خوشحالی میں اضافہ کرے گا اور بدلے میں ان کا انفرااسٹرکچر بناکر دے گا لیکن یہ انفرااسٹرکچر ان ممالک کی بجائے چین کے زیادہ کام آئیگا کیونکہ وہ انکے ذریعے اپنے تجارتی مقاصد پورے کرے گا۔
کرونا وائرس کے بعد ثابت ہواکہ روایتی جنگوں کا دورگزرچکا آئندہ جنگیں ٹیکنالوجی کی بنیاد پر لڑی جائیں گی جو روایتی جنگوں سے زیادہ خطرناک ہونگی۔
مرشد اعظم
غالب نے دوصدی پہلے کہا تھا
نادان ہو جو کہتے ہو کہ جیتے ہیں غالب
قسمت میں ہے مرنے کی تمناکوئی دن اور

اپنا تبصرہ بھیجیں