کرونا اور بلوچستان

شہزاد بلوچ
دنیا موجودہ دور میں ایک آفت کا سامنا کررہی ہےاور اس آفت کا نام کرونا وائرس ہے۔کرونا وائرس جسے اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے ایک وبا قرار دے رہے ہیں۔کرونا وائرس جس نے دنیا کی سیاست اور معشیت پر نہایت ہی برے اثرات مرتب کئے ہیں اور دنیا کو سوچنے پہ مجبور کردیا ہے کہ کرونا کے بعد کی نئی دنیا کیسی ہوگی؟؟
آج سیاست سے وابستہ تجزیہ نگار مختلف پیشن گوئیاں کررہے ہیں کہ کرونا وائرس دنیا کی سیاست کے رخ کو تبدیل کردے گا،کئی تجزیہ نگار تو یہ تک کہہ چکے ہیں کہ دنیا سے گلوبلائزیشن کا خاتمہ اور دنیا کی حکمرانی کا تاج امریکہ کے سر سے ہٹ کر چین کے سر سجے گا۔کئی تجزیہ نگار اس وائرس کو نیو ورلڈ آرڈر سے تشبیہ دے رہے ہیں اور اس وائرس کو نیو بائیولوجیکل وار کی ابتدا قرار دے رہے ہیں۔
دنیا سیاست میں الزامات کی بوچھاڑ کا نیا سلسلہ شروع ہوا ہے جس کا اختتام ایک نئی دنیا کے وجود سے ہوگا، یہ نئی دنیا کیسی ہوگی؟ اس نئی دنیا میں تیسری دنیا کے ممالک کی حالت زار کیا ہوگی اسکے بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
کرونا وائرس جس نے دنیا کی دو عالمی طاقتوں چین اور امریکہ سمیت روس، فرانس،اسپین، ایران، برطانیہ،انڈیا سمیت دنیا کے ایک سو نواسی ممالک کو متاثر کیا ہے۔ اس وبا سے اندازہ سات لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں ہلاکتوں کی تعداد تینتیس ہزار سے زائد ہے، سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوئی جبکہ اسپین اور امریکہ بھی اس سے شدید متاثر ہیں۔
کرونا وائرس تمھنے کی بجائے مزید پھیلتاجارہا ہےاور اپنا سفر چین سے شروع کرکے دنیا کے کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے، چائنا جیسا ابھرتا ہوا سپرپاور اور امریکہ اور یورپی ممالک کا شدید متاثر ہونا اس بات کی علامت ہے کہ کرونا وائرس تیسری دنیا کے ملکوں کے لئے ایک قیامت کے منظر سے کم نہیں ہوگا، جگہ جگہ لاشیں ہی لاشیں نظر آئیں گی اور انہیں اٹھانے کے لئے انسان و انسان کی ذات نظر نہیں آئیگی۔
اگر پاکستان کی بات کریں تو پاکستان معاشی، سماجی، سیاسی،تعلیمی غرض ہر شعبے میں دنیا کے دیگر ملکوں سے پسماندہ ہے جہاں غربت کی شرح زیادہ اور صحت کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بحثیت ایک ملک پاکستان اس وبا کا مقابلہ کس طرح کریں گا؟حال ہی میں وفاقی حکومت اور چاروں صوبوں نے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کردیا ہے لیکن کیا پاکستان کے عوام جو غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہے کیا وہ لاک ڈاؤن پہ عمل کرنے کے پابند ہونگے؟ کیا تحریک انصاف کی حکومت لاک ڈاؤن کے دوران غریب عوام کو انکی ضروریات زندگی کی سہولیات مہیا کرنے کے قابل ہے۔
پاکستان میں عام مزدوروں کی تعداد جو کمپنیوں، فیکٹریوں، کھیتوں، یا ماہی گیری کے شعبے سے وابستہ ہیں وہ کرونا وائرس سے زیادہ بھوک سے متاثر ہو کہ اس دار فانی سے کوچ کر جائے گے۔
ان تمام معاملات کے علاوہ اگر ہم بلوچستان کی صورتحال پہ بات کریں تو کرونا اور غربت کا وائرس بھوک کی شکل میں پورے بلوچستان کے غریب عوام کے لئے ایک قبرستان میں تبدیل ہوجائے گا جس کے لئے وفاق سمیت صوبے کے مقتدرہ کو سر جوڑ کے سوچنا پڑے گا۔
کیا بلوچستان کے غریب اور پسماندہ عوام کرونا وائرس کی وجہ سے تابوتیں ڈھونڈتے رہیں گے یا اس وبا سے نکل کر اپنی معمولات زندگی کی طرف واپس رواں دواں ہونگے اس کا فیصلہ وقت نہیں بلکہ حکومت پاکستان اور بلوچستان حکومت پر فائز مقتدرہ اعلی کو کرنا ہے۔بحثیت سیاسیات کے طالب علم کے بلوچستان کے سیاسی، معاشی،تعلیمی اور صحت کے شعبوں کی صورتحال کی بات کریں تو اندھیروںکا راج ہے، ہر شعبے میں تباہی و بربادی کا ایک منظر نظر آتا ہے اور دوسری طرف بلوچستان کے عام عوام، غربت، بھوک، تنگدستی،صحت کے شعبوں سے محروم، کوئٹہ و کراچی شاہراہ سے خوفزدہ، تعلیمی سہولیات سے محروم، ماورائے عدالت گرفتاری جیسے حالات کا سامنا کررہے ہیں ایسے حالت میں کرونا وبا موت سے بھی بد تر منظر پیش کرے گی۔
حکومت بلوچستان کو چاہئیے کہ وہ بلوچستان میں غریب عام کی حالت زار کو دیکھ کر ہنگامی بنیادوں پہ فیصلہ کریں تاکہ عوام کو تحفظ دیا جاسکے اور کرونا وائرس کی وجہ سے جو لاک ڈاؤن کا فیصلہ لیا گیا ہے اس حوالے غریب عوام کے لئے سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں