"لسبیلہ میں لوٹا کریسی کاموسم”

تحریر: ۔ غلام رسول رونجھو۔
ہمارے ملک پاکستان میں لوٹا کریسی کو جمہورت سے لازم و ملزوم قرار دیا جاتا ہے لیکن ساتھ ساتھ اصول پرست، نڈر اور نظریات پر کاربند سینکڑوں سیاستدان اور لاکھوں پارٹی کارکنان، ووٹرز بھی آپ کو ملینگے جو کسی قیمت پر اپنی سیاسی وفاداریاں نہیں بدلتے اور ملکی سیاست میں جمہوریت اور مارشلا میں ہر قسم کی سردی گرمی اور تھانہ یا جیل کی تکالیف یا عدالتی سزائیں بھگتتے رہتے ہیں لیکن ان کا ضمیر اپنے نظریات یا پارٹی اور اپنے رہنماں سے غداری یا بیوفاہی کی قطعا اجازت نہیں دیتاپھر چائے ان کی جان ہی کیوں نہ سولی پہ چڑھ جائے اس حوالے سے آپکو ملک کی عوامی پارٹی پاکستان پیپلز پارٹی کی سینکڑوں مثالیں ملیں گی جس کی تاریخ قربانیوں سے بھری پڑی ہے اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی قوم پرست پارٹیوں کے کارکنوں اور راہنماں کی مثالیں بھی قابل زکر ہیں،ان کے علاوہ قربانیوں اور نظریات کے حوالے سے آپ کو اس ملک میں اِکا دکا کیس نظر آئینگے، پارٹی نظریات کے بعد اس ملک میں عوام کا ایک بڑا حصہ شخصیت پرستی سے وابستہ ہے جس سے کسی کو انکار نہیں پھر وہی شخصیت جس پارٹی میں رہے،جہاں بھی جائے، جتنی پارٹیاں بدلے وہ وڈیرے یا ووٹرز انکے ساتھ ہی ہوتے ہیں پھر اس میں تیسرا طبقہ مفاد پرستانہ سوچ کا ہوتا ہے جس کا نہ کوئی نظریہ ہوتا ہے نہ کوئی آئیڈیل لیڈر، نہ ہی کوئی سیاسی پارٹی جس طبقہ میں وفاداری کا نام ونشان تک نہیں ہوتا اس طبقہ کو جہاں اور جس وقت اپنے مفاد کی سوجھی وہ بھاگ کر وہیں کھڑا ہوگیا اور اپنی چرخ زبان سے لیڈر پر جان فدا کرنے کے جتن جتاتے نہیں تھکتا لیکن اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں کیونکہ اگر آپ دنیا کے ماضی کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پرانے دور میں مختلف ممالک کے بادشاہوں، مہاراجوں کی یہی تاریخ رہی ہے اور نہ جانے بڑے لوگوں کی کیا مجبوری ہوتی ہے اور وہ تلخ تاریخ سے سبق سیکھنے کے بجائے یہی عمل دہراتے رہتے ہیں، لیڈر یا پارٹی اس شخص یا گروہ کے وہ سب حربے جانتے ہوئے بھی اس کو اپنی بہاہوں میں لے لیتے ہیں اور اس آستین کے سانپ کی اپنے ہاتھوں سے ہی دودھ سے پرورش کرتے ہیں اور یہ خیال کیئے بغیر کہ اِنہی لوگوں کے ہاتھوں اس کے سامنے کئی لوگ ڈس چکے ہیں اور آخر ایک دن خود بھی اسی کا شکار ہوجاتاہے ……… اب آتے لسبیلہ کی سیاست پر، لسبیلہ کی سیاست اس وقت پیپلز پارٹی، نیشنل پارٹی، بی این پی مینگل، جے یو آئی، جماعت اسلامی اور ان سے بڑھ کر لسبیلہ کے دوبڑے سیاسی خاندانوں جام اور بھوتانی کے گِرد گھوم رہی ہے، گزشتہ تقریبا ایک دہائی سے اگر لسبیلہ کی سیاست کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو کتنے مفاد پرست وڈیروں، سرداران، میر معتبر، سماج کے ٹھیکیداروں، لیبر اور ملازمین یونینوں کے سربراہان نے کتنی بار اپناسیاسی قبلہ تبدیل کیا ہے جو کہ لسبیلہ کا اکلوتا ریکارڈ ہے، جسے گینز بک کا حصہ بننا چاہیے پھر اس میں پی پی پی کے سابق مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر غلام اکبر لاسی مرحوم کی وزارت کے دور میں مستفید ہونے والوں کی طویل لسٹ کا زکر ہو یا جام یوسف مرحوم کے دور حکومت سے انگنت مفادات حاصل کرنے والوں کا جو بعد میں وفاداریاں بدل کر سردار بھوتانی صاحب کی نگران حکومت اور اسلم بھوتانی صاحب کی اسپیکر شپ میں اقتدار کیمزے لوٹتے رہے اور محض ان کی سیاست صرف دودھ پینے والے مجنوں کی مانند رہی اور اس وقت پھر لسبیلہ میں لوٹا کریسی اور مفاد پرستانہ سیاست اپنے عروج پر ہے اب ان میں سے ہی ایک لمبی لائن جام کمال صاحب کی وزارتِ اعلی کی کرسی دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر آیا ہے جن کی جام صاحب سے وفاداری کے جتن کے ساتھ شمولیت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے اب لسبیلہ کے سیاستدانوں نے ایسے عناصر کو پہچاننا ہوگا اور مفاد پرست اور مخلص لوگوں میں فرق کرنا ہوگا تاکہ وفاداروں اور حقداروں کے حقوق کا تحفظ ممکن بنایا جاسکے اور میں سمجھتا ہوں لسبیلہ کی ترقی کی رکاوٹ میں جہاں دیگر عوامل کار فرماں ہیں وہیں پر ایک رکاوٹ یہی مفاد پرست ٹولہ بھی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں