طبقاتی نظام اور استحصالی طبقات

تحریر۔۔۔۔حضور بخش قادر
ایک کمسن بچہ جس کی عمر تقریباً 9/10 سال کا تھا شدید سردی کی شام پیدل اپنے منزل کی طرف روان دوان تھآ اس کو اگلے چوک تک اپنے گاڑی میں بھٹایا راستے میں آس کمسن لڑکا جس کے تعلیم کھیل کھود کا وقت تھا اس نے بتایا کہ میں تعلیم حاصل کررہا تھا میں نے تعلیم کو خیر باد کردیا ہے اؤر اب بازار میں ایک ہوٹل میں اجرت پر کام کررہا ہوں میرا والد صاحب جب زندہ تھآ تؤ ہم خوشحال زندگی گزار رہے تھے میرے والد صاحب فوت ہو گیا ہے اؤر ہمارے گھر کی معاشی حالت خراب ھے میرے دو چھوٹی بہنیں ہیں والدہ محترمہ بیمار ھے میں صبح سے شام تک ہوٹل میں کام کرتا ہوں میرا کام آسان ہے ہوٹل کے برتنوں کی صفائی دھلائی کرتا ہوں مگر اجرت انتہائی کم ہے روز دو سو روپے دیا جاتاہے آن سے گھر کا خرچہ بمشکل چلارہے ہیں اور چھوٹی بہنوں کو تعلیم حاصل کر رہی ہیں اجرت اس دن کے لئے ہوتا ہے جب کام پر جاتے ہیں بیماری یا دیگر وجوہات کی بنیاد پر کام پر نہ جاسکے تو اجرت بھی بند کردی جاتی ہے آن ہوٹلوں میں یہ الفاظ واضح طور پر دکھائی دیتے ہیں ” یہاں اجرت پر کام دیا جاتاہے ” باتوں باتوں میں پوچھنے پر اس نوجوان نے آپنا نآم نور الدین بٹایا اور کہا کہ قریبی علاقے میں رہتا ہوں یہ قصہ نہیں حقیقت صرف نور الدین کا نہیں اس جیسے سینکڑوں پھول جیسے بچوں کا ھے جن کے چہروں پر مسکراہٹ کی بجائے مایوسی دکھ اور درد معاشرتی ناہمواری عیاں ہے وہ ہوٹلوں گیراج ورکشاپس اور دیگر جگہوں پر کام کرنے ہوئے نظر آئیں گے حالانکہ حکومتی سطح پر بچوں کے کام کو جبری مشقت تصور کیا جاتا ہے اور سلسلے میں ہر سال فائیو سٹار ہوٹلوں میں پروگرام سیمینار منعقد ہو تے ہیں ان پروگراموں اور اشتہارات پر کروڑوں روپے خرچ تو کئے جاتے ہیں مگر نور الدین جیسے سینکڑوں بچوں کی زندگی میں تبدیلی نہیں لا سکتے اور معاشی بد حالی اور مجبوری آن بچوں کو مشقت پر مجبور کر دیتی ہیں طبقاتی اور استحصالی سماج نا برابری اور عدم مساوات جمہوریت کے نام پر لاکھوں افراد کے حقوق کے عدم تحفظ عدم استحکام کا سبب بن رہےہیں غریبوں کی مثال لیں ان کو ٹو شاید دو وقت کی روٹی بمشکل ملٹی ہے ان کے پاس رہنے کے لیے مکان نہیں علاج کےلئے اچھے ہسپتال میسر نہیں بچوں کو تعلیم دینے کے لیے اچھے سکول دستیاب نہیں وغیرہ وغیرہ اس کے برعکس امراء کی سب آسائش اور آرائش برابر ہیں علاجِ کے لیے بیرونی ممالک یا پھر بڑے شہروں کا رخ کرتے ہیں اسی طرح امراء کے بچے بیرون ممالک تعلیم حاصل کرنے ہیں یا بڑے شہروں کے اعلئ تعلمی اداروں کے پرکشش ماحول میں پرورش پانے ہیں جبکہ غریب طبقے کے بچے مٹی سے اٹھے ہوئے بچھونے اور چھونپڑی نما مکان پر کس ماحول میں پرورش پانے ہیں یہ تو لوگوں کو خود ہی معلوم ہے غریب عوام کا استحصال ہر طریقے سے جاری ہے اسکالرشپ ہو یا وضیفہ حتی کہ زکواہ کے وضیفہ بھی غریبوں کی بجائے آن بااتر لوگوں کو دیئے جاتے ہیں جن کے والدین ڈھائی لاکھ سے دو لاکھ تنخواہیں وصول کررہے ہیں غریبوں کا استحصال ہر طریقے سے جاری ہے دو ڈھائی لاکھ والے کم آمدنی کے انکم سرٹیفیکیٹ بناکر غریب طبقے کا ادھر بھی استحصال کررہے ہیں جو لوگ علاجِ کے لیے بیرونی ممالک میں جائیں تو انہیں کیا معلوم کہ غریبوں کا کیا حال ہے اس نا برابری معاشرتی ناہمواری ظلم وجبر طبقاتی نظام نے غریب کو غریب تر اور امیر کو امیر تر کردیا ہے بجٹ اجلاسوں کے دوران غرباً کےلیے کروڑوں روپے کے فنڈز کے اعلانات تؤ ہوتے ہیں مگر یہ بھی استحصالی سماج کے مطابق بندر بانٹ کر نام غریبوں کا استعمال کئے جاتے ہیں اور کالے دھن کو سفید میں تبدیل کرکے غریب عوام کے حقوق کو پامال کیا جارہا ہے اس معاشرے کو مافیا نے یرغمال بنایا ہے اس کے زمہ دار وہی قوّتیں ہیں جو صاحب اقتدار ہیں جب الیکشن مہم ہوتا ہے تو توجہ کے لیے ہر فرد اور ہر شخص کی ان کے لئے قابل توجہ اور قابل قبول قابل احترام ہوتا ہے اؤر کامیابی عطا کرنے کے بعد صرفِ چند مخصوص افراد ٹک محدود سیاسی عدمِ مساوات سیاسی نا برابری اور سیاسی استحصال نہیں ٹو کیا ھے جھوٹ اور فریب دھوک بازی مکاری سے غریب عوام کو وقتی طور پر دھوکہ دی جاسکتی ہے مگر اپنے آخرت کے متعلق بھی سوچنا ہوگا کہ کتنے غریبوں کے حقوق کے تحفظ کی بجائے ان کے استحصال کیا گیا یہ زندگی تو عارضی ھے سب کو آخرت میں جانا ھے کیا توبہ کرنے سے غریبوں کے حقوق کا بوجھ ختم ہو جاتاہے یا غریبوں سے معافی مانگنے سے یہ بوجھ آسان ہوگا یہ معاشرہ جہاں حلال و حرام خوری کا کوئی تمیز نہ ہو اور حلال و حرام کا کوئی تصویر نہ ہو جہان کھانے کے آور دکھانے کے آور ہوں تو یہ معاشرہ اسی طرح انحطاط کا شکار ہو کر رہے گا غریبوں کے حقوق کے تحفظ کرنے والے خود رہزن ہو تو ایسا لگتا ہے کہ اس نظام کو دیمک لگ گیا ہے یا اس جسم کی مانند ہے کہ اگر کسی کے انگلی کو کینسر لگ جائے تو اس انگلی کو جسم سے کاٹ دیا جائے اگر پنچہ کو کینسر لگ جائے تو صرف پنجہ کو کاٹ دیا جائے تو جسم محفوظ اگر بازو کو کینسر لگ جائے تو بازو کو کاٹ کر باقی جسم کو شاید کینسر سے محفوظ کیا جاسکتا ہے اگر پورے جسم کو کینسر اپنے لپیٹ میں لے ٹو لاعلاج ہوجاتا ہے اور یہ پورا سماج کینسر زدہ ہوگیا ہے آج کل ہمارے سماج کا بھی یہی حال ھے نور الدین جیسے سینکڑوں پھول جیسے بچوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کی بجائے خشکی مایوسی ھے وہ دو وقت کی روٹی کے لیے صبح سے شام تک سردی گرمی موسمی حالات کو برداشت کرکے آنے والے کل کے لئے پر آمید ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ کمسن بچوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کیے جائیں اور آن کے جبری مشقت کے قانون پر عمل درآمد ہونے سے قبل آن کے گھریلو معاشی مجبوریوں کا بھی جائزہ لیا جائے اللہ پاک سب ضرورت مند مجبور حال لوگوں کے غیبی مدد فرمائیں آمین

اپنا تبصرہ بھیجیں