درہ بولان کی سرنگیں تعمیرات کا شاہکار

تحریر:صادقہ خان
صدیوں سے سفر اور تجارت کے لیے استعمال ہونے والا درۂ بولان اور اس سے ملحقہ ریلوے لائنز اگرچہ تاریخی اہمیت کی حامل رہی ہیں مگراس علاقے کی بد حالی اس امر کا ثبوت ہے کہ قیام ِ پاکستان کے بعد سے یہ علاقے عدم توجہ کا شکار ہیں۔
بلوچستان صدیوں سے ایران اور افغانستان سے آنے والوں تجارتی قافلوں کی گزر گاہ رہا ہے۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق پندرہویں صدی میں آریا اقوام افغانستان سے چمن اور پھر درۂ بولان کے راستے سندھ میں داخل ہوئیں اور متعدد مرتبہ سندھ پر حملوں کے لیے یہی راستہ اختیار کیا گیا۔

بلوچستان کی تاریخ مرتب کرنے والے مورخ اثیر شہوانی لکھتے ہیں کہ صدیوں تک گھوڑوں کی ٹاپوں اور اونٹوں کے قافلوں کے آوازیں سننے والے بلوچستان کے باسیوں نے جب اٹھارہویں صدی کے اواخر میں پہلی دفعہ ریل کے انجن کی آواز سنی تو وہ انجن کی حرکت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔

بہت سے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر اس علاقے میں ریلوے لائن بچھانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی اور اس حوالے سے پیش رفت کیونکر ممکن ہوئی۔؟ آئیے تاریخ کے جھروکوں میں ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں۔

درۂ بولان کے اطراف ریلوے لائن کا آغاز کب ہوا؟
درہ بولان تاریخی اہمیت کا حامل وہ راستہ ہے، جس سے گزر کر ہی کوئٹہ اور قندہار تک باآسانی پہنچا جاسکتا ہے۔ اس درے میں ریلوے لائن تعمیر کرنے کی تجویز سب سے پہلے 1857ء میں اس وقت کے ریلوے چیئر مین مسٹر ولیم پیٹرک اینڈریو نے دی۔ جو وفد اس بارے میں لارڈ پامرسٹسن سے ملنے گیا تھا، اینڈریو اس کے ترجمان تھے۔ 1878ء تک فوجی لحاظ سے پشین اور قندہار کو ریل کے ذریعے ملانے کی اہمیت بہت زیادہ تھی اور براستہ ہرنائی اور براستہ بولان پاس دونوں تجاویز زیرغور رہیں۔

1879ء میں اس علاقے میں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی اور سن 1880 میں اسے وسعت دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ چونکہ درہ بولان اونچے نیچے پر خم پہاڑی راستوں سے گزرتا ہے لہذا اطراف کے علاقے صرف ہلکی ٹریفک کے لیے ہی مناسب سمجھے گئے۔ مگر بعد ازاں اس علاقے میں شدید طوفانی بارشوں اور پہاڑی تودے گرنے کے باعث پرانی ریلویلائن تقریبا معدوم ہو گئی اور نئے سرے سے براستہ ہرنائی نئی ریلوے لائن بچھانے کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ یہ راستہ بھاری ٹریفک کے لیے بھی موزوں تھا۔ تقریبا 4 سال کے عرصے میں یہ نئی ریلوے لائن مکمل ہوئی اور 1887ء پہلی ٹرین بولان کے اس راستے سے گزری جسے آج تک سفر اور تجارت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

یہاں راستے بنانے کے لیے بلند اور سنگلاخ چٹانوں کو چیرا گیا، تقریبا نو مقامات پر یہ ریلوے لائن درۂ بولان کو عبور کرتی ہے۔ اس دوران کثرت سے آنے والی طویل سرنگیں ٹرین کے سفر کا لطف دوبالا کر دیتی ہیں۔ اور قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان میں ہر سرنگ تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔

1۔ پنیر سرنگ
یہ درۂ بولان کے اطراف طویل ریلوے لائن میں واقع 25 سرنگوں میں طویل ترین سرنگوں میں سے ایک ہے۔ ٹرین معمول کی رفتار کے ساتھ اس میں سے گزرتے ہوئے تقریبا تین منٹ لیتی ہے۔ یہ پنیر ریلوے سٹیشن سے ایک میل کے فاصلے پر ہے۔ اس کی لمبائی میل 1 12(2.45کلومیٹر) ہے۔ پنیر سے آگے مچھ تک کئی چھوٹی چھوٹی سرنگیں واقع ہیں، جن کی تعمیر دیکھنے کے لائق ہے۔ چار سرنگیں انتہائی مہارت اور خوبصورتی کے ساتھ دور بین کے شیشوں کی طرح ایسے بنائی گئی ہیں کہ ایک سرنگ کے باہر کھڑے ہو کر باقی تین سرنگوں کو ایک لائن میں دیکھا جاسکتا ہے۔

2۔ ونڈی کارنر سرنگ
ونڈی کارنر انگریزی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی گوشہ یا تنگ جگہ کے ہیں۔ چونکہ پنیر سے آگے درۂ بولان کا راستہ کافی تنگ ہو تا جاتا ہے لہذا سرنگ بنانے والے برطانوی انجینئرز نے اس کا نام ونڈی کارنر سرنگ رکھا۔ یہ دزان ریلوے سٹیشن کے ساتھ واقع ہے اور تقریبا 127میٹر لمبی ہے۔ اس کے بعد آنے والی سرنگ کیس کیڈ سرنگ کہلاتی ہے، جو 165میٹر طویل ہے۔ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مؤرخ اثیر عبدالقادر شاہوانی نے جرمن نشریاتی ادارے کو بتایا کہ کسی دور میں اس ریلوے لائن کے اطراف پہاڑی چشموں کا پانی بہتا رہتا تھا، جو ایک خوبصورت آبشار کا منظر پیش کرتا تھا۔ مگر گزشتہ دو عشروں سے بلوچستان میں بارشوں کی کمی اور خشک سالی کے باعث درۂ بولان بہت سی جگہ بلکل خشک ہو چکا ہے اور ان چشموں میں بھی پانی انتہائی قلیل مقدار میں موجود ہے جبکہ کچھ بالکل خشک ہو چکے ہیں۔


3۔ میری جین یا محبت کی یادگار سرنگ
اس سرنگ کا نام برطانوی خاتون میری جین کے نام پر رکھا گیا تھا۔ تاریخی حوالہ جات کے مطابق میری جین 18 ویں صدی کے اواخر میں بولان ریلوے لائن کے منصوبے پر کام کرنے والے برطانوی انجینئر اوگیلاگن کی شریک حیات تھیں جو اس دور میں شوہر کی محبت میں برطانیہ کی پر سکون زندگی چھوڑ کر بلوچستان جیسے غیر آباد اور پسماندہ علاقے میں آ بسیں۔ اور اکثر فیلڈ پر بھی شوہر کے ساتھ موجود ہوتی تھیں۔ پتھریلی چٹانوں میں سرنگ کی تعمیر کا راستہ بنانے کے لیے بلاسٹنگ کی جاتی تھی۔ ایک دن دھماکے کے دوران اڑتا ہوا ایک پتھر میری جین کو جا لگا جس سے ان کی موت واقع ہو گئی۔

مسٹر او گیلاگن اور ان کے ساتھ کام کرنے والے دیگر انجینئرز کو اس نا گہانی موت کا شدید صدمہ ہوا اور اس سرنگ کا نام میری جین کے نام پر رکھ دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سرنگ کے اوپر پہاڑ پر ہی میری جین کی قبر بھی ہے مگر حادثاتِ زمانہ نے اب اس کے آثار مٹا دیئے ہیں۔

4۔ خوجک یا کوژک سرنگ
کسی دور میں خوجک دنیا کی چوتھی بڑی سرنگ تھی لیکن نئی رینکنگ کے مطابق یہ آٹھویں نمبر پر ہے۔ اس کی تعمیر کا آغاز1891ء میں ہوا اور تقریبا تین سال کے عرصے میں سینکڑوں انجینئرز اور ہزاروں مزدوروں کی شب و روز محنت سے یہ شاہکار سرنگ تکمیل کو پہنچی، جس میں مشینوں کا استعمال بھی کیا گیا۔ ان مشینوں کو چلانے کے لیے تیل 40 میل دور سے اونٹوں کے ذریعے لایا جاتا تھا۔

اس کی لمبائی 3.92 کلومیٹر ہے۔ دیکھنے میں یہ بالکل سیدھی لگتی ہے مگر اس کے درمیان میں کوہان کی طرح اتار چڑھاؤ ہیں اور جونہی ٹرین اس مقام پر پہنچتی ہے، خودکار نظام کے تحت الارم انجن ڈرائیور کو آگاہ کرتا ہے کہ ٹرین اس مقام پر پہنچ چکی ہے۔

بشکریہ:ڈی ڈبلیو

اپنا تبصرہ بھیجیں