تمپ تیری تربت (قبر)

تحریر۔۔۔ تانیہ بلوچ
تحصیل تمپ بلوچستان کے ضلع کیچ کی ایک قدیم رقبے کے اعتبار سے خاصی بڑی تحصیل ہے۔ جس میں کئی گاؤں اور دیہات آباد ہیں۔ قیام پاکستان سے قبل اپنے محل وقوع کی وجہ سے اس خطے کا ہیڈ کوارٹر رہی ہے۔
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وقتاً فوقتاً مختلف طاقتیں حملہ آور اور قابض ہوئیں جس میں عرب، ایرانی، انگریز، پرتگالی اور منگول شامل ہیں۔ 1410ء میں ایران اور وسط ایشیا سے منگول اقتدار کا خاتمہ ہوا اور یہاں کے حقیقی باشندے (بلوچوں) نے اپنی جداگانہ حیثیت منوالی۔
شاید یہ بات عام لوگ نہ جانتے ہوں کہ تربت قلعہ کی تاریخ قلعہ موہن جودڑو سے بھی پرانی ہے۔ تربت اپنی سیاسی حیثیت میں بھی نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اس شہر کو بلوچستان کا سب سے پڑھا لکھا شہر کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ سیاسی میدان میں ڈاکٹر مالک بلوچ بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ اوران کے علاوہ دیگر کئی اہم سیاسی شخصیات کی جنم بھومی بھی ہے۔ بلوچستان میں بی ایس او (بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن) نے پورے مکران بالخصوص تربت میں تنظیمی اعتبار سے ابتدائی مراحل کامیابی سے عبور کئے۔ اس تنظیم کا اولین نعرہ تعلیم کی بیداری سے لے کر وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی، سماجی اور جاگیردارانہ اور سرداری نظام کے خلاف ایک اہم تنظیم کی صورت اختیار کرگیا۔ بلوچستان میں موجود کئی اہم سیاستدان، پروفیسرز، صحافی بھی اس تنظیم کا حصہ رہے ہیں۔
1970ء کی دہائی میں یہ تنظیم مضبوط حیثیت اختیار کرگئی، یہی وہ دہائی تھی جب بلوچستان کے سیاسی حالات تبدیل ہونے لگے۔ 1980ء کا دور بی ایس او کے لئے مشکل وقت رہا، بڑی تعداد میں گرفتاریاں سامنے آئیں اور یہ تنظیم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگی۔ 2000ء سے جب بلوچستان میں شورش بڑھنے لگی، تربت میں بھی اس کے گہرے اثرات نظر آئے اور بی ایس او کے نوجوان اس تحریک میں سامنے آنے لگے۔
نواب اکبر بگٹی کی شہادت اور ان کی پہلی برسی کے دوران 2007 ء میں حالات مزید خراب ہونے لگے۔ فدا چوک تربت کا وہ چوک ہے جہاں سیاسی و سماجی جلسے اور میٹنگز کا انعقاد کیا جاتا ہے اور اسی چوک پر احتجاجی مظاہرے کے دوران وہاں ایک مقامی شخص ہلاک ہوا۔ گویا اب تیر کمان سے نکل چکا تھا اور گرفتاریوں، گمشدگیوں میں مزید تیزی آنے لگی۔ کریمہ محراب جنہیں ہم سب کریمہ بلوچ کے نام سے جانتے ہیں۔ 2005ء میں تربت ہی سے جو کہ ان کی جائے پیدائش بھی ہے وہیں سے اپنی سیاسی سرگرمیوں کی شروعات احتجاج سے کرتی ہیں جو بلوچستان میں گمشدہ افراد کے لئے منعقد کیا جاتا ہے۔
2006ء میں بی ایس او کی رکن اور پھر 2015 میں چیئرپرسن منتخب ہونے والی کریمہ 2016ء میں سیاسی پناہ کی درخواست کو کینیڈا قبول کرلیتا ہے۔ 2020 دسمبر کریمہ بلوچ کی لاش گمشدگی کے بعد مردہ حالت میں کینیڈا کے ایک آئی لینڈ میں پائی جاتی ہے۔ کینیڈا کی حکومت تفتیش کے پہلے مرحلے میں ہی اس میں کسی قسم کے مجرمانہ پہلو نظر نہ آنے کی تصدیق کرتی ہے۔
مرحومہ کی خواہش کے عین مطابق کینیڈا میں مقیم ان کے شوہر مرحومہ کی تدفین کے لئے ان کے جسد خاکی کوان کے آبائی گاؤں روانہ کرتے ہیں۔
حکومت بلوچستان اپنے تحفظات مقدم رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کے عوامی اجتماع کی اجازت نہ دیتے ہوئے خاموشی سے تدفین کی اجازت دے دیتی ہے۔ سوشل میڈیا اور بلوچستان کے ہر علاقے میں احتجاج کی آواز گونجتی ہے۔ عوامی رابطے کی ویب سائٹس پر لوگ اسے ایک لاش کی تضحیک قرار دیتے ہوئے حکومت وقت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں فنانس منسٹر اجلاس سے خطاب کرتے ہیں اور حکومت کا موقف بیان کرتے ہیں۔ وزیر موصوف صوبائی وزیر اطلاعات و نشریات کے بعد صوبائی وزیر خزانہ بنادیئے جاتے ہیں۔موصوف صوبائی وزیر فرماتے ہیں کہ ہم تاک میں لگے ہوتے ہیں ایک لاش کو لے کر سیاست کی جاتی ہے نا جانے کس کو خوش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ڈکیتی کے واقعات پر تربت میں اتنا شور کیوں کیا جاتا ہے۔ حیات بلوچ کے قاتلوں کی گرفتاری پر بیانات کیوں نہیں دیئے جاتے۔ موصوف فرماتے ہیں کہ کسی کی لاش کو تحویل میں نہیں لیا گیا
وزیرموصوف اپنے خطاب میں یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں پہلے بھی مرحومہ کے گھر ان کے چچا کی فاتحہ خوانی میں جاچکا ہوں۔ وزیر خزانہ کے تحفظات اپنی جگہ مگر کیا ممکن ہے کہ وہ اب مرحومہ کی فاتحہ خوانی کے لئے اس علاقے کا دورہ کرسکیں۔
ریاست کو اپنا اعتماد بحال کرنے کے لئے جنگی بنیادوں پر اقدامات لینے ہوں گے ورنہ موسموں کی شدت کی وجہ سے فارسی زبان کے لفظ تربت(قبر) کے حالات مزید خراب ہونے کا سبب نہ بن جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں