نرسنگ اسکول خضدار کے مسائل اور حکام کا رویہ

تحریر: سازین اکبر
یوں تو بلوچستان میں گورننس کبھی بھی مثالی نہیں رہی ہے۔ شروع سے لیکر اب تک کوئی حکومت بلوچستان کے سرکاری اداروں میں وہ بہتری نہیں لاسکی ہے جو کہ ایک حکومت کو لانی چاہیئے۔ تعلیم، صحت، روزگار، سیکیورٹی اور بنیادی ضرورتوں کے دوسرے وسائل ہمیشہ سے بلوچستان کے عوام کی دسترس سے باہر رہے ہیں۔ چند ایک پروجیکٹ جو ایک حکومت شروع کرتی ہے اس کو اگلی حکومت یا تو سرے سے ختم کردیتی ہے یا اس پر توجہ نہیں دیتی، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ صوبائی حکومتوں کی پالیسیوں میں کبھی بھی تسلسل موجود نہیں رہا ہے۔ بلوچستان کا یہ مسئلہ کسی مخصوص علاقے میں نہیں بلکہ صوبے کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں یہ مسئلے یکساں طور پر موجود ہیں۔ بلوچستان کے تینوں سب سے بڑے شہروں یعنی کوئٹہ، تربت اور خضدار کے نظام کا جائزہ لیکر ہر شخص بخوبی یہ دیکھ پاتا ہے کہ ماضی اور حال کی حکومتیں عوام کو سہولیات کی فراہمی میں کس قدر ناکام ہوچکے ہیں۔
خضدار جو کہ بلوچستان کی آبادی کے حوالے سے تیسرا بڑا اور جغرافیائی حوالے سے دوسرا بڑا ضلع ہے۔ خضدار بلوچستان کا سنٹر اور کاروباری حب ہے لیکن یہاں کے عوام بھی بنیادی ضروریات سے بالکل محروم ہیں۔ بجلی جیسی ضروری شئے بھی لوگوں کو میسر نہیں۔ کئی کئی گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ سے لوگوں کی کاروبار کو روزانہ لاکھوں کا نقصان ہوجاتا ہے۔ بجلی ہی نہیں، خضدار کی سڑکوں اور سرکاری تعلیمی نظام کا بھی یہی حال ہے۔ چند سال پہلے سرکاری سطح پر تعلیم جاری رکھنے کے لئے بلوچستان کے مختلف اضلاع کے لئے گورنمنٹ نے اسکالرشپ دیکر طلباء اور طالبات کے لئے نرسنگ اسکولوں میں نرسنگ کلاسز کا اجراء کیا۔ خضدار اور قرب و جوار کے علاقوں کے نوجوانوں کو سکالر شپ دے کر نرسنگ سکھانے کا اہتمام کر دیا گیا۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے طلباء اور طالبات جو بغیر اسکالر شپ اور گورنمنٹ کی سرپرستی کے اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکتے تھے، اس منصوبے کا فائدہ اٹھا کر دور دراز علاقوں سے خضدار آگئے اور نرسنگ اسکول میں داخلہ لیا۔ چونکہ یہ ایک اسکالر شپ پروگرام تھا اس لئے بیشترطلباء نے اس امید پر یہاں داخلہ لیاکہ سرکاری سطح پر ماہانہ ان کی مددہوگی۔لیکن جب سے یہ سلسلہ شروع ہوا ہے سوائے شروع کے چند مہینوں کے تقریباََ گزشتہ دو سالوں سے طلباء کی کلاسسز تو ہورہی ہیں لیکن ان کی اسکالرشپ کے پیسے نہیں مل رہے ہیں جس کی وجہ سے دور دراز سے آئے ہوئے طلبا اور طالبات کو شدید مشکلات کا سامناکرناپڑ رہا ہے۔کئی طلباء اور طالبات نے اسکالر شپ کی مدد میں ملنے والے پیسوں کی عدم فراہمی کی بناء پر اپنی تعلیم کو ادھورا چھوڑ دیا ہے لیکن متعلقہ حکام اس حوالے اب تک کوئی کردار ادا کرنے میں ناکام ہیں۔ طلباء نے اپنی اسکالر شپ کے پیسوں کے لئے کئی مرتبہ احتجاجی مظاہرے بھی کیئے۔ کئی ایک مرتبہ کوئٹہ کراچی روڈ کو بھی طلباء نے اس سلسلے میں بلاک کیا لیکن کہیں سے بھی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔ حکام کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ سکالر شپ پر پڑھنے والے طلباء اور طالبات اپنے خرچے پر سرکاری بسوں میں پٹرول ڈال کر خضدار سے کوئٹہ اپنے امتحانات کے لئے چلے گئے۔ جو طلبا اور طالبات امتحانات سے پہلے اس لئے احتجاج کررہے تھے کہ ان کی اسکالر شپس انہیں دیا جائے تاکہ وہ کوئٹہ میں اپنے امتحانات کے دوران مشکلات کا شکار نہ ہوں، لیکن کوئٹہ میں بھی سارا خرچہ ان طالبات کو اپنی جیب سے ادا کرنا پڑا جو کہ تمام زمہ داران کے لئے ایک شرم کا مقام ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ متعلقہ سرکاری افسران ان بچوں کے سڑکوں پرنکلنے سے پہلے ان کے مطالبات تسلیم کرتے لیکن بجائے جائز مطالبات ماننے کے وہ ٹال مٹول سے کام لے رہے ہیں۔ نرسنگ اسکول کے بچوں نے ڈپٹی کمشنر خضدار سے کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ دو ڈپٹی کمشنرز کا یہاں سے تبادلہ ہوچکا ہے لیکن اب بھی یہ مسئلہ جوں کا توں ہے۔نا انصافی کی انتہا ہے کہ اسکالرشپ پرپڑھنے والے بچے اور بچیاں کوئٹہ میں اپنے امتحانات کے لئے جانے کا خرچہ بھی اپنی جیب سے اُٹھا رہے ہیں۔ خضدار نرسنگ اسکول کے طلباء اور طالبات کو کوئٹہ جانے کے لئے نرسنگ اسکول سے یہ حکمنامہ صادر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے کرائے کا بندوبست خود کریں۔نہ صرف ان بچوں کے جائز مطالبات کو تسلیم نہیں کیاجا رہا بلکہ اسکالرشپ کے پیسوں کے لئے احتجاج کرنے والے طلباء پر اب انتقامی کاروائیاں کی جارہی ہیں۔ خضدار نرسنگ اسکول میں زیر تعلیم تمام بچوں سے یہ حلفیہ بیان لیا گیا ہے کہ وہ آئندہ کسی احتجاج میں شریک نہیں ہوں گے اور اگر کسی نے اسکالر شپس کے لئے آواز اٹھائی تو اسے نرسنگ اسکول سے ہی خارج کیا جائے گا۔
یہ زمہ داری صوبائی حکومت اور متعلقہ حکام کی ہے کہ وہ ان ضرورت مند طلباء پر ہونے والے اس ظلم کا نوٹس لیں اور ان کی اسکالرشپ بحال کریں تاکہ یہ بچے آزادی کے ساتھ اپنی پڑھائی جاری رکھ سکیں۔ اگر متعلقہ ادارے مزید چشم پوشی اختیار کریں گے تو کچھ بعید نہیں کہ نرسنگ اسکول خضدار کے بچے اپنی تعلیم ادھوری چھوڑ دیں جس کا نقصان لامحالہ طور پر بلوچستان کے عوام کو ہی ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں