کرونا محض بیماری نہیں معاشی تباہی ہے
تحریر:زبیر بلوچ
تقریباً ابھی تک دنیا کی ٓبادی کا بڑا حصہ مکمل طور پر لاک ڈاؤن ہے، دسمبر 2019 میں چین سے پیدا ہونے والا کرونا وائرس اب200 سے زائد ممالک تک پہنچ چکا ہے بلکہ تباہی مچایا ہے، اٹلی میں ہلاکتوں کی تعداد 10 ہزار سے زاہد امریکا میں کرونا سے متاثرین کی تعداد ایک لاکھ چالیس ہزار سے زائد پہنچ چکی ہے جبکہ چین میں بھی بہت سے نئی کیسز کی تصدیق ہو چکی ہے۔ دنیا بھر میں کرونا سے موجودہ ہلاکتیں 34 ہزار سے اوپر ہے اور یہ روزانہ کی بنیاد پر انتہائی بڑے پیمانے پر بڑھ رہا ہے، شاید جب آپ یہ آرٹیکل پڑھ رہے ہونگے کرونا سے مرنے والوں کی تعداد 50 ہزار سے زائد ہو فرانس اور اٹلی جیسے ملکوں میں 24 گھنٹوں کے اندر ہزار ہزار ہلاکتیں ہو رہی ہیں، وائرس کے پھیلنے کے خوف سے تقریباً زیادہ تر ممالک نے لاک ڈاؤن کیا ہوا ہے۔
جس کی وجہ سے پوری دنیا میں انسانی زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹا لینا جارجیویا کے مطابق کورونا کی وجہ سے عالمی معیشت کو دباہی کا سامنا ہے، دنیا بھر میں لاک ڈاؤن، صنعتوں، کارخانوں کا پہیہ جام ہونے جبکہ فضائی کمپنیوں، تجارت اور سیاحت کی بندش کے باعث کساد بازاری کا عمل شروع ہو گیا ہے جو پیچھلے عشرے کے معاشی بحران سے زیادہ خطرناک نظر آرہا ہے اور خدشہ ہے کہ کئی ملک اس کے ہاتھوں دیوالیہ ہو جائیں گے۔ امریکا چونکہ عالمی اقتصادی طاقت ہے جس کی مالی بحران سے عالمی بحران جنم لے سکتا ہے اگر ہم امریکا کی بات کریں تو ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ کرونا بحران سے امریکہ کی تیس فیصد نوکری رکھنے والے لوگ اپنی نوکریاں کھو سکتے ہیں جبکہ امریکا کی اکانومی 50 فیصد گرنے کے امکانات ہیں۔ بزنس بند ہو رہے ہیں تو غالب امکان ہے کہ کوئی بھی اپنی نوکری کھو سکتی ہے۔ آج سے تقریباً 10 سال پہلے دنیا میں 1929 کے بعد سب سے بڑی ریسیشن یعنی فنانشل بحران سامنے آیا تھا جس سے اسٹاک مارکیٹ 56% فیصد تک نیچے گر گئی تھی جس کی وجہ سے لاکھوں افراد اپنے نوکری اور گھر سے ہاتھ دو بیٹھے تھے۔ یہ بحران امریکا سے شروع ہوکر بعد میں پوری دنیا میں پھیلتا گیا اس بحران سے امریکا کو اقتصادی طور پر 22 ٹریلین نقصانات کا سامنا کرنا پڑھا تھا۔ جس میں 750 بلین بینکوں کو دینا پڑا تھا۔ چونکہ بحران امریکا سے شروع ہوا تھا اور امریکا دنیا میں ایکونومی کو لیڈ کر رہا تھا اس لیے یہ بحران آہستہ آہستہ پھیلتا گیا جس کی وجہ سے پوری دنیا کی معشیت اس سے متاثر ہوئی اسی مالی بحران کا ہی نتیجہ تھا کہ امریکی عوام نےڈیموکریٹک اور بارک اوباما کو الیکشن میں وؤٹ دیکر کامیاب کرایا تھا تاکہ وہ امریکہ کو مالی بحران سے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں۔ لیکن کرونا نے مہینوں میں دنیا کی سب سے بڑی معاشی بحران کی طرف جا رہی ہے۔ آج دنیا بھر میں کمپنی اور شاپنگ ہالز کھیل کے تمام اجتماع، تھیٹرز، ہوٹلز اور دوکانیں بند ہیں جس سے تقریباً تمام دنیا ایکدم سے مکمل طور پر جام ہو گئی ہے جس سے دنیا میں جلد معشیت کی سونامی آئے گی۔ آئی ایل او کے مطابق دنیا بھر سے 35 ملین نوکریاں چلی جا سکتی ہیں یعنی دنیا کی نوکری رکھنے والی 35 فیصد آبادی بیروزگار ہو جائے گی۔
امریکا اپنی بھرپور کوشش کرتا نظر آ رہا ہے کہ وہ ایک بڑے بحران سے بچ جائیں جس کیلئے امریکی حکام کی جانب سے امریکی کمپنیوں کو مالی سپورٹ کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ امداد و مدد امریکی معشیت کو تباہ ہونے سے بچانے میں کامیاب نظر نہیں آتا 57 ملین امریکن اس وقت حکام کی مدد کے طلبگار ہیں۔ جبکہ امریکا میں حالت یہ ہے کہ ڈاکٹرز میڈیکل سامان کیلئے چیخ رہے ہیں جبکہ ریاست انہیں سہولیات فراہم کرنے میں پوری طرح قاصر دیکھائی دیتا ہے جس سے ظاہر ہو رہا ہے کہ یہ وائرس امریکا کی اکانومی کو کتنا زک پہنچا سکتا ہے۔حالت تو یہ ہے کہ یورپی یونین جو دنیا کی ایک انتہائی مضبوط اکانومی کے ساتھ ساتھ اتحاد و یگانگت اور مضبوط و مربوط رشتوں کی ایک مثال ہے جب یورپی یونین کے ممبر ملک اٹلی میں یہ کرونا پھیل گیا تو یورپی یونین بھی خاصی مدد دینے میں مکمل طور پر ناکامیاب دیکھائی دیے جس کی شکایت میڈیا میں اٹلی حکومتی حکام نے بار بار کیا اور مددکی اپیلیں کیں تو کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کرونا وائرس ایک بڑے پیمانے پر پھیل رہا ہے اور دنیا کی معیشت کو تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔دنیا میں وائرس آتے رہے ہیں جن سے وقتی طور پر ملکوں کی اکانومیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا بڑھا ہے جس کی ایک مثال 2003 میں چین میں ہی جنم لینے والا سارس ہے جس کی وجہ سے چین میں کئی فیکٹریاں بڑی مدت تک بند رہے لیکن وہ ایک چھوٹے پیمانے پر پھیلا تھا جبکہ اُس کو چین کی طرف سے کنٹرول بھی کیا گیا تھا لیکن حالیہ عالمی وباء چین سے باہر مکمل طور پر پھیل چکا ہے جبکہ دو سو سے زائد ممالک میں ابھی تک کرونا کے کیسز ریکارڈ ہو چکے ہیں۔
ان حالات میں جب پوری دنیا میں اچھی اچھی اکانومی نقصان کا سامنا کرنے سے خطرہ رہے ہیں جبکہ جرمنی کے وزیر نے مشتبہ طور پر ملک کی گرتی ہوئی معشیت کو دیکھ کر خود کشی کر لی تھی مملکتِ پاکستان کے حکمران ایک دوسرے کے ٹانگ کھینچنے میں مصروف ہیں جبکہ ملک کے محبِ وطن اس حالت میں بھی صحافیوں کوگالیاں بھکنے سے فارغ نہیں ہوئے ہیں۔ اس وقت جب ملک کے حکمرانوں کو اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام ملکی اسٹیک اولڈرز کو یکجاہ کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ اس خطرناک مرض سے عام لوگوں کی زندگیوں کو محفوظ کر سکتے ان حالات میں بھی حکمران طبقہ اپنی بچگانہ سیاست سے نہیں نکل رہے جو ان کی سنجیدگی اور قابلیت کے معیار کو واضح کر دیتا ہے