کرونا وائرس، رہنماؤں کی دور اندیشی اور بصیرت کا امتحان

شہزاد بلوچ
ہم کہہ سکتے ہیں کہ لیڈرشپ اور حکمرانی صرف جمہوریت کا نعرہ لگانے سے نہیں کی جاتی بلکہ لیڈر شپ کی ذمہ داری کانٹوں کا سیج ہوتی ہے جہاں ایک رہنما کو روز مشکلات سے گزر کر،خطرات کا مقابلہ کرتے ہوئے عوام کی خدمت کرنا پڑتی ہے۔کیا ہمارے رہنماء اپنے عوام کی موجودہ صورتحال کا ادراک رکھتے ہیں؟ کیا ہمارے رہنماء مشکل کی اس گھڑی میں عوام کے شانہ بشانہ ہونگے؟کیا کرونا وائرس کی وبا کو کنٹرول کرنے کے لئے تلخ فیصلے لئے جائیں گے اور ان فیصلوں پہ عملدرآمد کیا جائے گا؟اگر ان فیصلوں پر عملدرآمد بھی کیا گیا تو کیا وبا کے دنوں میں عوام کو سہولیات مہیا کی جائیں گی؟؟
موجودہ صورتحال کو دیکھ کر لگتا ہے کہ حکومت پاکستان کے پاس نہ تو اتنے وسائل ہے اور نہ ہی کوئی باقاعدہ حکمت عملی جو عوام کو اس مشکل سے نکال سکے۔
حال ہی میں دنیا بھر میں پھیلنے والی اس وبا نے نہایت ہی خطرناک حد تک متاثر کیا ہے اور اگر یہ یوں ہی پھیلتی رہی تو اسپین میں 1918 میں آنے والی وبا کو پیچھے چھوڑ جائیگی جس میں دس کروڑ افراد لقمہ اجل بنے۔کرونا وائرس اتنا خطرناک وائرس تو نہیں کہ وہ ماضی میں آنے والی وباؤں سے ہلاکتوں کا نیا ریکارڈ قائم کرلیں لیکن یہ سوال ضرور جنم لیتا ہے کہ اس وائرس کے بعد دنیا میں کیا تبدیلی رونماء ہوگی اور یہ تبدیلی دنیا کے پسماندہ ملکوں کے لئے کتنی خطرناک ہوگی؟
آج کرونا وائرس نے دنیا کے رہنماؤں کی بصیرت اور قوت فیصلہ اور دور اندیشی کو چیلنج کرکے رکھ دیا ہے، آج کرونا وائرس کی شدت میں اضافہ اور عوام کے تحفظ اور ضروریات زندگی کی فراہمی اور دیگر مسائل نے دنیا سمیت پاکستان کی لیڈرشپ کو ایک کڑے امتحان میں ڈال دیا ہے اور اس امتحان سے نکلنے والی قوم ہی دنیا میں زندہ رہنے کی حقدار ہوگی۔
کروناکی وبا دنیا بھر کی طرح پاکستان میں اپنے پنجھے گاڑھتی نظر آرہی ہے جس سے پاکستان میں حکومتی و میڈیائی اعداد و شمار کے مطابق سترہ سو افراد متاثر ہوئے ہیں جن میں چوبیس کے قریب افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ جیسے جیسے کرونا کی وبا پھیلتی جائے گی ہلاکتوں میں مزید اضافے کا امکان ہے۔
کرونا وائرس کی وبا سے بچنے کے لئے چاروں صوبائی حکومتوں نے دفعہ ایک سو چوالیس کا نفاذ کرکے لاک ڈاؤن کا فیصلہ کیا ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے پورے ملک کی صنعت،تجارت اور دیگر شعبوں میں بھی لاک ڈاؤن ہے، مزدور،کسان،ماہی گیر،دہاڑی دار لوگ گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں۔اگر حکومت پاکستان اور صوبائی حکومت نے لاک ڈاؤن کے دوران عوام خاص کر دہاڑی دار لوگوں کو سہولتیں نہ دی تو فاقہ کشی کے وائرس سے تقریباً آدھی آبادی متاثر ہوسکتی ہے۔ فاقہ کشی اور کرونا وائرس کے ساتھ ساتھ ذخیرہ اندوزی،خانہ جنگی،بھوک و افلاس اور خود کشی جیسے مہلک سماجی مرض کو کنٹرول کرنے کی ذمہ داری حکومت وقت کی ہوگی اور اس ذمہ داری سے عہدہ بر ہونے کے لئے نہ صرف تلخ فیصلے لینے ہونگے بلکہ ہنگامی بنیادوں پر عوامی تحفظ کے لئے اقدامات بھی اٹھانے ہونگے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے کئی گھرانے بھوک و افلاس کا سامنا کررہے ہیں، کئی لوگ کراچی کی سڑکوں پہ امدادی راشن حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں، ذخیرہ اندوزوں کی عید ہے اور وہ اپنے مال کو مہنگے داموں بیچ کر اس وبا کے دنوں میں بھی منافع کمار ہے ہیں، اسپتالوں میں وینٹی لیٹر کی قلت ہے اور کہیں دیگر مسائل کا عوام کو سامنا کرنا پڑے گا۔
حال ہی میں عالمی ادارے کی جانب سے پاکستان کی امداد کے لئے اعلان کیا گیا ہے کیا یہ امداد انصاف کے تقاضوں کو مدنظر رکھ کر عوام کے تحفظ کے لئے خرچ کی جائیگی؟؟
اس طرح کے کئی اور سوالات کو حل کرنے کے لئے لیڈرشپ کو دور اندیشی اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اقدامات اٹھانے کی ترغیب دیتے ہیں،آج اگر رہنماؤں نے حالات کا صیح ادراک نہ کیا تو خدشہ ہے کہ عوام کرونا اور بھوک وائرس کا شکار ہو کر خانہ جنگی اور خلاف قانون عمل پہ مجبور ہو جائینگے جسے کنڑول کرنے کے لئے خون آشام مراحل سے گزرنا پڑ سکتا ہے جس کا ملک قطعی طور پر متحمل نہیں ہوسکتا۔
یہ رونقیں عوام کی بدولت ہیں اگر ان رونقوں کو دائمی بحال کرنا ہے تو لیڈرشپ کو دور اندیشی اور بصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے عوامی مفاد میں فیصلے لینے ہونگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں