بے چارہ عبدالقادر اور ہلکی پھلکی موسیقی

تحریر: انور سا جدی
عمران خان یاتو سادہ آدمی ہیں یا ان کی یادداشت کمزور ہے ایک دن پہلے فرمایا کہ بلوچستان میں سینیٹ کی ایک نشست کی بولی 70کروڑ تک پہنچ گئی ہے اگلے دن عبدالقادر نامی شخص کو پی ٹی آئی کاٹکٹ جاری کردیا جو پارٹی کارکن ہی نہیں تھا گویا وزیراعظم نے بتایا کہ 70کروڑ میں سیٹ خریدنے والا کون ہے؟ اگرپی ٹی آئی بلوچستان کے رہنماء زور نہ مارتے تو عبدالقادر صاحب ضرور ایوان بالا کی زینت بن جاتے لیکن افسوس کہ ان کی کوششیں رائیگاں گئیں اگر انکے 70کروڑ روپے ڈوب گئے تو یہ الگ نقصان کیونکہ پیسے جب طاقتور لوگوں کودیئے جائیں تو ان کی واپسی مشکل ہوتی ہے سنا ہے کہ عبدالقادر کو ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری میدان لے آئے پارلیمانی بورڈ سے ٹکٹ بھی دلوادیا لیکن وہ اپنے دوست اور ٹکٹ دونوں کی حفاظت نہیں کرسکے اگرچہ عبدالقادر کوئٹہ میں پیداہوئے تھے لیکن برسوں سے انہوں نے کوئٹہ دیکھا نہیں تھا ان میں کوئی ایسی خاصیت نہیں تھی کہ انہیں بلوچستان کی نمائندگی کیلئے ایوان بالا بھیجا جاسکے اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی کی سابق سینیٹر ستارہ ایاز کاتعلق بھی کوئٹہ سے نہیں لیکن باپ پارٹی نے انہیں ٹکٹ جاری کردیا ہے۔ستارہ اتنی پاورفل خاتون ہیں کہ گزشتہ ٹکٹ اے این پی سے لیا اور تازہ ٹکٹ بلوچستان سے حاصل کیا سوال یہ ہے کہ انہیں بلوچستان کا جغرافیہ تک معلوم نہیں وہ صوبے کی کیانمائندگی کریں گی۔
سینیٹ کے حالیہ دنگل کا سب سے دلچسپ پہلو سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا اسلام آبادکی نشست پرالیکشن لڑنا ہے اگرچہ ان کی جیت کا امکان ففٹی ففٹی ہے لیکن زرداری نے خشک انتخابات کو دلچسپ بنادیا اگرگیلانی نصف ارکان کی حمایت حاصل کرلیں تو وہ جیت بھی سکتے ہیں ان کے انتخاب کاایک اور پہلو بھی ہے جس کے ذریعے زرداری کپتان کو خوف زدہ کررہے ہیں یعنی اگرگیلانی جیت گئے تو وہ سینیٹ کے چیئرمین بھی بن سکتے ہیں حالانکہ کپتان نے یہی سوچا ہے کہ وہ سینیٹ میں اکثریت حاصل کرکے اپناچیئرمین لائیں گے لیکن بیچ میں زرداری نے گیلانی کو میدان میں اتارا وہ کامیاب ہوں نہ ہوں پولنگ تک کپتان ضرور پیچ وتاب کھائیں گے غصے میں رہیں گے جن کی وجہ سے کئی غلط فیصلے بھی کریں گے۔ازراہ اصول یعنی عددی طور پر پی ٹی آئی کواپوزیشن پرسبقت حاصل ہے اس لئے سینیٹ میں اس کی میجارٹی آنی چاہئے لیکن سینیٹ کاالیکشن بڑا گورکھ دھندہ ہے اس کے دوسرے اور تیسرے ووٹ کی بھی بڑی اہمیت ہے سابق سینیٹریوسف بلوچ سیکنڈووٹوں کی وجہ سے جیتے تھے اگرسرائیکی بیلٹ کے ایم این اے اپنا سیکنڈ ووٹ گیلانی کو دیدیں تو بڑا زبردست مقابلہ ہوگا کیونکہ حفیظ شیخ کا اپنا کوئی اثرورسوخ نہیں ہے وہ صرف پی ٹی آئی کی طاقت کے بل بوتے پرانحصار کریں گے جبکہ یوسف رضا گیلانی کے وسیع تعلقات ہیں اگر ان کارشتہ دار جنہوں نے عمران خان کووزیراعظم بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا کھلے عام نہ سہی درپردہ پوسف رضا کی حمایت کردیں تو کئی ووٹ انہیں مل سکتے ہیں۔جہانگیر خان ترین گیلانی کے قریبی رشتہ دار ہیں اگر وہ ان کی حمایت کردیں تو عمران خان سے پرانا بدلہ بھی چکاسکتے ہیں کیونکہ عمران خان نے انکے احسانوں کا بدلہ بے عزتی،کاروباری نقصان اور سیاسی خاتمہ کے طور پر دیا لہٰذا ان کے لئے موقع ہے کہ وہ گیلانی کوکامیاب بناکر بدلہ چکا دیں صحافی رؤف کلاسراء نے دعویٰ کیا ہے کہ سرائیکی بیلٹ کے20اراکین عمران خان سے نالاں ہیں اگران کے مطالبات پورے نہ کئے گئے تو وہ پارٹی کیخلاف ووٹ دے سکتے ہیں اگر یہ دعویٰ درست ہے تو حکومت کیلئے بڑی مشکلات پیدا ہونگی کیونکہ عمران خان کی قومی اسمبلی میں اکثریت صرف10ووٹوں پر مشتمل ہے جبکہ یہ اکثریت صرف ق لیگ اور ایم کیو ایم کے ووٹوں کی مرہون منت ہے10ارکان ٹوٹ جانے سے یوسف رضا ضرور کامیاب ہونگے لیکن بات کامیابی یاناکامی کی نہیں ہے بات یہ ہے کہ استاد زرداری نے ان انتخابات کو بہت دلکش بنادیا ہے وہ سارا کھیل کپتان کو تنگ کرنے کیلئے کھیل رہے ہیں کیونکہ امکانی طور پر تحریک انصاف کو معمولی اکثریت حاصل ہوجائے گی زرداری اصل کھیل سندھ میں کھیلیں گے جہاں ان کے حصے کی نشستیں 6بنتی ہیں لیکن وہ یقینی طور پر ایک دو زیادہ نشستیں حاصل کریں گے اگر ن لیگ کے ارکان پنجاب میں نہ بکے تو ن لیگ کی چارنشستیں پکی ہیں مولانا اور اخترمینگل بھی ایک دونشستیں حاصل کرلیں گے۔اس طرح اپوزیشن اور حکومتی پارٹی کی نشستوں میں زیادہ فرق نہیں ہوگا اگر تحریک انصاف میجارٹی پارٹی بن گئی تو دوسرے نمبر پر پیپلزپارٹی اور تیسرے نمبر پر مسلم لیگ ن آئیگی اس طرح عمران خان کوئی بھی مرضی کابل آسانی کے ساتھ سینیٹ میں منظور نہیں کرواسکیں گے۔
یہ جوڑ توڑ خریدوفروخت ہارس ٹریڈنگ یہ ہلکی پھلکی موسیقی ہے اور اس سے سیاستدان لطف حاصل کررہے ہیں کیونکہ انہیں غم روزگار تو ہے نہیں روپیہ پیسہ مفت میں آرہا ہے ان کاکام ملاقاتیں کرنا جوڑتوڑ کرنامرغن اور پرتکلف دعوتیں اڑانا ہے جتنا پریشان کارکن ہوتے ہیں لیڈر نہیں ہوتے-
اگردیکھاجائے تو تحریک انصاف واحد بڑی جماعت ہے جس نے ٹکٹ میرٹ پر جاری نہیں کئے اسی طرح ن لیگ نے بھی اقرباپروری سے کام لیاہے صرف پرویز رشید اور مشاہد اللہ خان کو میرٹ پر ٹکٹ جاری کیا گیا ہے پیپلزپارٹی نے پیرانہ سالی کے باوجود تاج حیدر کودوبارہ ٹکٹ دیدیا ہے جبکہ اس نے مالی اعتبار سے غریب رہنما فرحت اللہ بابر کو بھی ٹکٹ سے نوازا ہے۔جس دن کاغذات داخل ہورہے تھے تو انکے پاس فیس کی رقم نہیں تھی پارٹی کارکنوں نے چندہ جمع کرکے انکے کاغذات داخل کئے فرحت اللہ بہت ہی پڑھے لکھے اور سنجیدہ انسان ہیں وہ بے باکی سے اظہارخیال کرتے ہیں اور بنیادی حقوق کے مسائل اٹھاتے ہیں اس لئے کئی مقامات پر وہ پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھے جاتے اسی طرح پرویز رشید دیگرن لیگیوں سے منفرد شخص ہیں انہوں نے اپنی نصف زندگی پیپلزپارٹی میں گزاری ہے ضیاء الحق کے دور میں انہیں قید اور کوڑوں کی سزا ملی تھی جبکہ مشرف کے دور میں بھی انہیں غیرانسانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا چنانچہ وہ ن لیگ کے ٹکٹ کے صحیح حقدار تھے۔
ایک دلچسپ خبر یہ ہے کہ عمران خان پہلی مرتبہ سینیٹ کاالیکشن اپنی طاقت اور ادراک کے مطابق لڑرہے ہیں کیونکہ ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ وہ اپنے سیاسی معاملات خود دیکھیں اور ہم پر زیادہ آسرا نہ ماریں کیونکہ یہ جنرل الیکشن نہیں ہیں ہم آپ کیلئے زیادہ کوشش نہیں کرسکتے واضح رہے کہ 1985ء،1988ء اور مشرف دور میں سینیٹ کے انتخابات میں خاص حلقوں نے اہم کردارادا کیاتھا۔
ویسے دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوجائے گی جب یوسف رضا گیلانی سیٹ بھی جیت جائیں اور چیئرمین سینیٹ بھی بن جائیں اگرایسا ہوا تو مرکز میں تحریک انصاف اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت قائم ہوجائے گی کیونکہ چیئرمین سینیٹ کو کئی مواقع پر قائم مقام صدر بھی بننا پڑتا ہے میراگماں کہتا ہے کہ یوسف رضا کو اہم حلقوں کی ہمدردیاں بھی حاصل ہیں کیونکہ وہ سیاسی صورتحال کودلچسپ بنانا چاہتے ہیں اگراپوزیشن نے نمایاں کامیابی حاصل کرلی تو لانگ مارچ کیسے ہوگا اور استعفیٰ کون دے گا؟ان منصوبوں کوپسپا بنانے کیلئے ایک تیسرے پلان پر عملدرآمد جاری ہے۔
جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو وہاں پر حسب معمول گڑبڑ ہے باپ پارٹی کے اندراختلافات ہیں امیدواروں پر جھگڑا ہے اس لئے کنگلے امیدواروں کے ہارنے کا امکان ہے۔
اپنے وزیراعظم کو ترکی اور طیب اردگان سے اتنی دلچسپی ہے کہ ان کے حکم پر پی ایس ایل کاافتتاحی پروگرام استنبول میں ہورہا ہے تاکہ ڈرامہ ارطغرل غازی کے کردار اس میں شرکت کرسکیں جب سے سعودی عرب اور یو اے ای ناراض ہوئے ہیں کپتان نے ترکی سے دوستی بڑھالی ہے شائد ان کے دل میں یہ بات ہوکہ اگر طیب اردگان عثمانی خلیفہ بن گئے تو وہ بھی اپنے ملک کے نائب خلیفہ بن سکتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کل وہ ہرروز کہتے ہیں کہ ملک چلانے کیلئے پانچ سال تھوڑے ہیں جی توان کا چاہتا ہے کہ وہ تاحیات حکمران بن جائیں لیکن وہ بے بس ہیں کیونکہ وہ آئین کو بدل نہیں سکتے زرداری اور مولانا پہاڑ کی مانند حائل ہیں ان رکاوٹوں کودورکئے بغیر کپتان کی خواہشات کاپوراہوناممکن نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں