سینیٹ انتخابات اور بلوچستان کا ستارہ۔

تحریر: راحت ملک
سینیٹ کے انتخابی معرکے کی شروعات کاغذات نامزدگی جمع کرائے جانے سے ہو چکی ہے 15فروری کاغذات نامزدگی جمع کرانے کاآخری دن تھا الیکشن کمیشن کے پہلے اعلانیہ شیڈول کے مطابق 14 فروری تک کاغذات جمع کرایے جاسکتے تھے پیپلز پارٹی کے چئیرمین جناب بلاول بھٹو نے باضابطہ طور پر الیکشن کمیشن دخواست کی تھی کہ شیڈول میں ردوبدل کرکے تمام مراحل میں مناسب طور پر وقت کی توسیع کی جائے اس درخواست کو رد کرنے کے اگلے ہی روز الیکشن کمیشن نے کاغذات نامزدگی جمع کرنے میں ایک دن کا اضافہ کر دیا مجھے یاد پڑتا ہے کہ پچاس کی دھائی میں کراچی لسبیلہ کے ایک حلقہ سے قومی اسمبلی کا ضمنی انتخاب ہوا تھا جس میں بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو نے حصہ لیا تھا اس انتخاب کے شیڈول میں ایک معمولی ردوبدل کیا گیا تھا جسے عدالت میں حذب اختلاف نے سندھ کورٹ میں چیلنج کیا تھا مقدے کی پیروی جناب سہروردی نے کی تھی ان کے استدلال پر عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ انتخابی شیڈول جاری ہونے کے بعد اس میں کسی قسم کے ردوبدل سے جاری شدہ شیڈول غیر موثر ہو جاتا ہے اور تبدیلی کیلئے از سر نو پورے شیڈول کا اعلان ناگزیر ہے قانون دان طبقہ اس حوالے سے زیادہ مستند روشنی ڈال سکتا ہے اور اگر میرا حافظہ غلط نہیں تو یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ متذکرہ صدر عدالتی فیصلہ بطور قانونی نظیر اب بھی قابل توجہ ہے یا نہیں؟
کاغذات نامزدگی جمع کرانے اور پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران چند اہم اپ سیٹ سامنے آئے ہیں جبکہ تاحال کسی کو علم نہیں کہ آنے والے انتخابات میں رائے دہی کا طریقہ کار کیا ہو گا؟؟ معزز عدالت عظمیٰ نے حکومت کے پیش کردہ صدارتی ریفرنس پر تاحال حتمی رائے ظاہر نہیں کی آئین کے آرٹیکل 226 اور عدالت میں پیش کئے گئے صدارتی ریفرنس کو ملحوظ رکھا جائے تو یہ قیاس آرائی غالبا ًدرست ہو گی کہ آئین کی واضح شق کی موجودگی میں عدلیہ اس کے منافی حکم صادر نہیں کر سکتی جبکہ ریفرنس میں حکومت نے عدالت سے مشورہ طلب کیا ہے ہدایت نہیں۔ مشورے اور عدالتی حکم میں بہت فرق ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سجتا۔ تاہم اگر عدالت کا مشورہ شو آف ہینڈ کے ذریعے انتخاب کرانے کے حق میں آیا تو کیا الیکشن کمیشن واحد قابل تغیر متناسب نمائندگی کے حامل خفیہ رائے دہی رائج طریقہ کار کے مقابل فوری طورپر نیا انتخابی قانون یا ضوابط مرتب کر سکے گا؟ ادریں حالات مجوزہ انتخابات میں التوا کا خدشہ پیدا نہیں ہو جائے گا؟ اور عجلت میں بنائے گئے انتخابی ضابطے میں کوتاہی رہ جانے کے احتمال سے سارے انتخابی عمل اور اس کے نتائج پر سوالات نہیں اٹھ جائینگے؟
سیاسی پارٹیوں کی جانب سے ٹکٹوں کی تقسیم میں پی ٹی آئی کو بلوچستان سمیت کے پی اور سندھ میں مخالفت کا سامنا کرنا پڑا رہا ہے، پارٹی چیئرمین کی فیصلہ سازی کی صلاحیت و استعداد ایک بار پھر سوالیہ نشان بن گئی ہے حالیہ فیصلوں کو اگر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفکیشن میں ہونے والی نااہلی، سینیٹ انتخابات کے متعلق صدارتی ریفرنس دائر کیے جانے کے بعد آئینی ترمیمی بل پیش کرنے کے ساتھ ہی صدارتی آرڈیننس کے اجراء اور اس نوعیت کے دیگر معاملات کے تناظر میں پرکھا جائے تو یہ نتیجہ بہ آسانی اخذ ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت میں بروقت اور درست فیصلہ سازی کی استعداد کا شدید فقدان ہے –
جناب عبدالقادر کو ٹکٹ کے اجراء کے بعد بلوچستان پارٹی کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار یہ ثابت کرتا ہے کہ فیصلے میں بلوچستان کی پارٹی قیادت کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا رائے عامہ کے ابلاغی ذرائع پر تنقید اور پارٹی اختلاف رائے پر ٹکٹ واپس لینے کا اقدام انتہائی عاجلانہ تھا جس کی تشہیر کا اندازہ بھی قطعی نامناسب تھا جناب عبدالقادر بلاشبہ بالائی سطح سے وارد ہوئے تھے لیکن جب وہ ذرائع ابلاغ پر پارٹی ٹکٹ ملنے کا دفاع کر رہے تھے تو اسی دوران بریکنگ نیوز سامنے آگئی۔ انہیں دیا گیا ٹکٹ منسوخ کر دیا گیا تھا فیصلہ بلدلنے کا بہتر طریقہ یہ ہوتا کہ پی ٹی آئی قیادت جناب قادر سے کہتی کہ وہ بلوچستان پارٹی کے اختلافی رویئے کے بعد خود سینیٹ کی ٹکٹ شکریہ کے ساتھ واپس کرنے کا اعلان کر دیں یوں جناب قادر اور پی ٹی آئی قیادت کی اخلاقی و سیاسی ساکھ مجروح نہ ہوتی لیکن اب جو ہونا تھا ہو چکا – جناب عبدالقادر کو دیی گئی پارٹی ٹکت جناب ظہور آغا کو ملی لیکن یہ بھی عجلت کا فیصلہ تھا پتہ چلا کہ جناب ظہور آغا کی پارٹی رکنیت دھرنے کے دوران معطل کی جاچکی ہے یہ بات بھی گردش میں ہے پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر جناب سردار یار محمد رند اپنے ایک فرزند کو سینئر بنانا چاھتے ہیں شاید جناب ظہور آغا سے ہوتا ہوا پارٹی ٹکٹ ان کی منشا کے مطابق منزل ٍ مقصود پر پہنچ جائے۔ سندھ اور کے پی کے میں بھی واضح اختلاف رائے سامنے آچکا ہے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم سے پی ٹی آئی کا اندونی سیاسی و تنظیمی خلا نمایاں ہوا ہے مصنوعی طور پر یکجا کیے گے افراد اور انکے مفادات کا تضاد ایسے ہی اثرات مرتب کرتا ہے پارٹی یکجہتی کے برعکس بھان متی کے کنے کی واضح مثال بن کر سامنے آئی ہے
حکمران بلوچستان عوامی پارٹی المعروف باپ نے صوابی (کے پی کے) سے تعلق رکھنے والی سابق سوشل ویلفیئر منسٹر محترمہ ستارہ ایاز کو بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا ہے ماضی میں دیگر جماعتیں اپنے ارکان کو آبائی صوبے کی بجائے دوسرے صوبے سے سینیٹر بناتی رہی ہیں یہ روایت وفاقی اکائیوں کی پارلیمان میں نمائندگی کے اصول و ایوان ٍ بالا میں مساوی نمائندگی کے قاعدے کے سراسر منافی ہے محترمہ ستارہ ایاز 2013ء میں کے پی میں وزیر رہ چکی ہیں ان پر نیب کے مقدمات بنے تھے اے این پی نے انہیں سینیٹر بھی بنوایا تھا بعد ازاں پارٹی سے نکالا گیا اب وہ باپ کی رکن ہیں شمولیت کب ہوئی؟ معلوم نہیں تاہم یہ طے ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد کے پی کے میں آزاد منتخب ہونے والے چار ارکان نے باپ میں شمولیت اختیار کی تھی ممکن ہے انہی چار ارکان کی خواہش پر محترمہ ستارہ کو بلوچستان سے سینیٹر نامزد کیا گیا ہو جس کے بدلے میں کے پی میں باپ کے چار ارکان باپ کی مرکزی قیادت یا پھر پس پردہ فیصلہ سازوں کے ایماء پر اپنے صوبے میں اپنا ووٹ کاسٹ کریں گے!!!
باخبر ذرائع اس فیصلے پر باپ بلوچستان میں متحرک خواتین میں تشویش و اختلاف کی نشاندہی کر رہے ہیں جو قابل فہم بات ہے۔ جس کے اثرات بہر طور سامنے آئیں گے
پی پی نے پی ڈی ایم کے ساتھ مل کر سابق وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کی مخصوص نشست سے مشترکہ امیدوار بنایا ہے اسلام آباد سے سینیٹ کے انتخاب کا حلقہ نیابت قومی اسمبلی ہے جہاں سردست پی ٹی آئی کو محدود سہی لیکن عددی برتری حاصل ہے کیا جناب گیلانی کو بارہویں کھلاڑی کی حیثیت میں انتخابی معرکے میں اتارا گیا ہے؟ بظاہر ایسا لگتا ہے لیکن ذرا عمیق نگاہی سے جائزہ لیں تو یہ فیصلہ سیاسی بساط پر اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو شہہ مات دینے کے مترادف نظر آئے گا پی ٹی آئی کی صفوں میں اھرتے داخلی اختلافات اور حکومتی پالیسیوں سے مایوسی اب ڈھکی چھپی بات نہیں جناب آصف زرداری نے حساب کتاب کئے بغیر عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تجویز پیش نہیں کی ہوگی ایسا ہوتا تو پی ڈی ایم سربراہی اجلاس منعقدہ چار فروری اس پر حتمی فیصلہ ہوتا تو اسے مسترد کر دیا جاتا۔ اجلاس میں یقینا ایسے اعداد و شمار یا شواہد سامنے لائے گئے ہونگے جن پر پی ڈی ایم نے اس تجویز کو مزید پرکھنے کے بعد حتمی فیصلہ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہو اعداد و شمار اور پس پردہ ملنے والی سیاسی حمایت کو جانچنے کا طریقہ سینیٹ کے انتخابی معرکے میں اسلام آباد کی مختص دو نشستیں تھیں میرا خیال ہے کہ اگر دستیاب اعداد و شمار کمزور یا ناقابل بھروسہ ہوتے تو جناب گیلانی کی جگہ کسی دوسرے رہنماء کو میدان میں اتارا جاتا سابق وزیراعظم کو آزمائشی مقابلے میں اتارنا بذات خود بتا رہا ہے کہ معاملہ سادھ نہیں اور اس نشست پر کانٹے دار مقابلہ ہوگا جس کانتیجہ مستقبل قریب کی سیاسی بساط پر فیصلہ کن اثرات مرتب کرے گا –
جناب یوسف رضا گیلانی سرائیکی وسیب کی بہت بااثرر وحانی و سیاسی شخصیت ہیں وسیب سے اپنے لئے مخالف کیمپ سے مطلوبہ چند ووٹ حاصل کرنا ان کیلئے ناممکن نہیں پھر سندھ کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے گرینڈ الائنس سے بھی ان کو مدد ملنے کا امکان ہے جی ڈی اے کے سربراہ جناب پیر پگارا اور گیلانی خاندان کی رشتہ داری اور روحانی سلسلہ میں جڑت جناب گیلانی کی کامیابی میں معاون ہو سکتی ہے بعید نہیں کہ پی پی کے علاوہ شہری حلقوں سے منتخب ارکان کے لیے بھی سلسلہ مریدی سے وابستگی کی بنیاد پر گیلانی صاحب کی جانب سے ووٹ کی خواہش پر انکار ممکن نہ ہو کہ معاملہ دنیاوی فائدے کے ساتھ بطور عقیدہ آخرت میں اجر سے بھی وابستہ ہے اگر جناب گیلانی فتح یاب ہوئے تو نتیجہ حکومت کی قومی اسمبلی میں شکست پر منتج ہو گا پھر واقعات کا نیا سلسلہ اپریل میں پی ڈی ایم کیلئے مفید المعنی ہو جائیگا جناب گیلانی کے کاغذات نامزدگی پر مسلم لیگ کی جانب سے تجویز و تائید پی ڈی ایم اتحاد میں استحکام کا گہرا علامتی اظہار ہے یہ یکجہتی فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے –
بی این پی اختر مینگل نے سینیٹ کیلئے ٹکٹ جاری کئے جن احباب کو ٹکٹ ملے ہیں سھبی اس کے مستحق ہیں البتہ جن کو ٹکٹ نہیں ملے ان میں جناب ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی اور پارٹی کے سینئر رہنماء قبائلی قدوقامت اور سیاسی فعالیت کے حامل محترم نوابزادہ میر حاجی لشکری رئیسنای بہت اہم ہیں ڈاکٹر صاحب چونکہ ایک ٹرم بطور سینیٹر گزار چکے ہیں سو ان کو ٹکٹ نہ ملنا قابل فہم ہے جبکہ نوابزادہ میر حاجی لشکری رئیسانی کو نظر انداز کیا جانا بہت معنی خیز ہے اور اس کے اثرات بھی دوررس ہو سکتے ہیں نوابزادہ میر حاجی لشکری رئیسانی نے 2018 میں پارٹی ٹکٹ پر کوئٹہ سے قومی اسمبلی کا انتخاب لڑا تھا جناب قاسم سوری کے ذریعے جو زیادہ معروف و موثر شخصیت نہیں میر حاجی لشکری رئیسانی کو ہرایا گیا تھا ان کی انتخابی عذر داری پر الیکشن ٹریبونل نے جناب قاسم سوری کی کامیابی منسوخ کر دی تھی لیکن انہوں نے اعلیٰ عدلیہ میں اس فیصلہ پر حکم امتناعی حاصل کیا اور اسی حکم کے ذریعے اب تک قومی اسمبلی میں ڈپٹی اسپیکر کے عہدے پر متمکن ہیں نجانے عدالت کب حتمی فیصلہ کرے لیکن اس پس منظر میں سیاسی حلقوں میں یقین کیا جا رہا تھا کہ جناب حاجی میر لشکری رئیسانی کو بی این پی سینیٹ میں لے آئے گی لیکن!!!!
سپریم کورٹ میں ارکان پارلیمنٹ کو ترقیاتی فنڈز جاری کیے جانے پر زیر سماعت مقدمے میں وزیراعظم کے بیان کو اھم قرار دیا اور مقدمہ نمٹا دیا لیکن اس فیصلے سے دیگر قانونی سوالات سامنے آیا ہیں۔ جناب چیف جسٹس نے پانچ رکنی بنچ کے شریک جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جاندار قرار دیا اور بنچ سے علیحدہ کر دیا میری رایے ہے کہ پانچ رکنی بنچ سے انتظامی اختیار کے ذریعے برادر جج کی علیحدگی کے نتیجے میں چونکہ بنچ ٹوٹ گیا تھا لہذا زیر سماعت مقدمے کا فصیلہ نئے بنچ تک ملتوی ہونا چاھیے تھا۔ جسٹس فائز عیسیٰ کی علیحدگی اور کیس نمٹانا متضاد اقدام ہے۔ جس کے خلاف آج 15 فروری کو بار کونسل نے احتجاجا ہڑتال کی عدالتی کاروائیوں میں حصہ دار نہیں بنے۔ معروف قانون دان بار ایسوسی ایشن جے سابق صدر جناب علی احمد کرد نے بات چیت کرتے ہوئے متذکرہ اقدام کو ناروا قرار دیا ان کا استدلال تھا کہ بنچ میں موجود تمام جج بلحاظ عہدہ مساوی حیثیت رکھتے ہیں چیف جسٹس انتظامی سربراہ ہیں بنچ میں وہ دئگر جج صاحبان کے مساوی رتبہ رکھتے ہیں انہوں نے ہی مقدمے کی نوعیت کے مطابق پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا تھا بعد ازاں ایک رکن کو الگ کرنے کے بعد بنچ برقرار نہیں رہا تھا جناب چیف جسٹس کو پانچویں رکن کی تقرری تک کیس ملتوی کر دینا چاہیے تھا. ادھورے بنچ کے فیصلے کی قانونی ساکھ مجروح ہے۔
لگتا یوں ہے کہ عدلیہ ایک نئے بحران کی جانب بڑھ رہی ہے کیا 2007 کے عدالتی بحران کا اعادہ ہونے جارہا ہے؟۔

اپنا تبصرہ بھیجیں