آن لائن کلاسز بند کرنے کا مطالبہ

واشنگٹن؛پاکستان میں بعض طلبا تنظیمیں آن لائن کلاسز کے بائیکاٹ کا اعلان کررہی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ حکومت کرونا وائرس بحران کی وجہ سے طلبا کو سمسٹر بریک دے کیونکہ تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ کی سہولت ملک کی ایک تہائی آبادی تک محدود ہے اور بیشتر عوام تک انٹرنیٹ کی ناقص رفتار پہنچتی ہیں۔ دوردراز دیہات کے طلبا فیس دینے کے باوجود تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔ترقی پسند طلبا کی تنظیم پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹیو نے اپنے ٹوئیٹر ہینڈل سے آن لائن کلاسز کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔عالمی میڈیا سے بات کرتے ہوئے تنظیم کی مرکزی کمیٹی کے رکن سلمان سکندر نے کہا کہ آن لائن کلاسز کا نظام ایک خاص طبقے کے لیے فائدہ مند ہے۔ ملک میں صرف 36 فیصد افراد کے پاس تھری جی اور فور جی انٹرنیٹ ہے۔ ان میں بھی کئی علاقوں میں سگنل بہت کم آتے ہیں۔ جو لوگ دوردراز کے علاقوں میں آباد ہیں، ان کے لیے آن لائن کلاسز لینا ممکن نہیں۔پنجاب یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالب علم رہنما محسن ابدالی کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کی سہولتوں کے فقدان کے علاوہ اکثر اساتذہ اور طلبا آن لائن کلاسز کے لیے تربیت یافتہ نہیں ہیں اس لیے تعلیم کے حصول میں دشواری ہورہی ہے۔انھوں نے کہا کہ بہت سے علوم جیسے زراعت، کیمسٹری، فزکس وغیرہ میں نظریات کو سمجھانے کے لیے تجربات کی ضرورت ہوتی ہے۔ آن لائن کلاسز میں یہ سہولت نہیں ہوتی۔ بہت سے اداروں میں طلبا نے لاکھوں روپے فیس دی ہے۔ ویڈیو لنک پر غیر تربیت یافتہ اساتذہ سے ناقص معیار کے لیکچر دلوانا طلبا کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔انھوں نے بتایا کہ کرونا وائرس کی وبا سے طلبا پریشان ہیں لیکن تعلیمی ادارے انھیں فیسوں کی ادائیگی پر مجبور کررہے ہیں۔انھوں نے مطالبہ کیا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن فوری طور پر سمسٹر بریک دے اور آن لائن کلاسز کو ختم کرے۔ جہاں سمسٹر رکے تھے، اس مسئلے سے نکلنے کے بعد وہیں سے انھیں شروع کیا جائے۔وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر لکھا کہ بہت سے طلبا کی طرف سے آن لائن کلاسز کے غیر معیاری ہونے کی شکایات موصول ہورہی ہیں۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے اس صورتحال کا نوٹس لے لیا ہے اور معیار کو بہتر کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔جہاں انٹرنیٹ دستیاب ہے، وہاں اس کی ناقص رفتار کی وجہ سے آن لائن کلاسز لینے میں طلبا کو دشواری ہورہی ہے۔ دوسری جانب ایسے علاقے بھی ہیں جہاں سرے سے تھری جی اور فور جی موجود ہی نہیں۔ قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے طلبا ٹوئیٹر پر اپنی مشکلات کا ذکر کررہے ہیں۔شمالی وزیرستان کے نوجوان ہارون الرشید نے بتایا کہ وہ ہزارہ یونیورسٹی کے طالب علم ہیں۔ ان کے علاقے میں انٹرنیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے لیے آن لائن کلاسز لینا ممکن نہیں۔ انھوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ یا تو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جائے یا سمسٹر بریک دیا جائے۔قومی اسمبلی کے رکن محسن داوڑ نے قبائلی عوام کا یہ مطالبہ دوہرایا کہ انھیں فون اور انٹرنیٹ کی سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی کو پی ٹی سی ایل کے انٹرنیٹ کا بھی درکار ہو تو فوج سے این او سی لینا پڑتا ہے جو بمشکل ہی ملتا ہے۔وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان نے قومی اسمبلی میں سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ سابقہ فاٹا میں حالات معمول پر آرہے ہیں۔ فاٹا اصلاحات ہوگئی ہیں اور قبائلی علاقوں کو صوبہ خیبر پختونخوا کے ساتھ ملایا جارہا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں