کوئی زنجیرنہ ہلائی جائے
تحریر: انور ساجدی
داد دیناچاہئے دونوں ہاتھوں سے سلام کرنا چاہئے اتنی باصلاحیت اور باکمال ہستی موجودہ دور میں کہاں ہوگی پہلے ممبر نہ ہونے کے باوجود پی ٹی آئی اسے ٹکٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے جب پی ٹی آئی نے ٹکٹ واپس لیا تو جام صاحب مہربان ہوگئے اور موصوف کو اپنا امیدوار بنالیا اتنے جادوئی کمالات عبدالقادر کے سوا اور کسی میں نہیں ہونگے ایسا لگتا ہے کہ وہ ٹیم سلیکٹرز کے پسندیدہ کھلاڑی ہیں کیونکہ سلیکٹرز چاہیں تو کسی بھی کھلاڑی حتیٰ کہ بارہویں کھلاڑی کو بھی میچ میں کھلا سکتے ہیں حتیٰ کہ کپتان بھی بناسکتے ہیں جب صادق سنجرانی کو جتوایا گیا اور پھر چیئرمین کا امیدوار بنایا گیا تو وہ اتنے معروف نہیں تھے سیاست میں ان کا کوئی کردارنہیں تھا سلیکٹرز نے چاہا تو آگ اور پانی اکٹھے ہوگئے کپتان اور زرداری ایک ہوگئے جو ایک دوسرے کا نام سننا نہیں چاہتے تھے کیا معلوم کہ کامیابی کے بعد جناب عبدالقادر کو سنجرانی کی طرح سینیٹ کاچیئرمین منتخب کیاجائے بے شک وہ بلوچستان کے نہ ہوں ڈومیسائل تو ان کا بلوچستان سے ہے ان کا تعلق بھی افتخار چوہدری کی طرح خطہ مردم خیزسے ہے لیکن وہ ہمیشہ بلوچستان کے کوٹے پرآگے بڑھتے ہے۔
لوگ حیران ہیں کہ عبدالقادر جن کا پورا نام بھی کسی کو معلوم نہیں کیا جادوئی بٹن رکھتے ہیں جس کے دبانے سے سامنے والے ایک اور دنیا میں پہنچ جاتے ہیں تمام چیزیں الگ دکھائی دیتی ہیں اور لوگ اسکے سحرمیں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
جناب عبدالقادر نے پہلے پارٹی میں شمولیت کے بغیر ٹکٹ حاصل کرکے کپتان کو مشکل میں ڈال دیا اور اب ایک انارسوبیمار کے مصداق باپ پارٹی کے امیدواروں کیلئے مشکل پیدا کردی ہے پتہ نہیں ان کی امیدواری سے کون کون ناکام ہوگا کیونکہ باپ پارٹی کے اکثر امیدوار متوسط طبقہ کے لوگ ہیں ان کے پاس کوئی جاودئی صندوق نہیں ہے لہٰذا کچھ چیزیں تو تہہ وبالا ہونگی کوئی امیدوار تو ناکام ہوگا تحریک انصاف بلوچستان کو عبدالقادر صاحب نے تو پہلے ٹوٹ پھوٹ کا شکار کردیا ہے جبکہ نئی صورتحال سے باپ پارٹی بھی ضرور متاثر ہوگی جام صاحب انکے کیلئے6ووٹوں کاانتظام کیسے کریں گے اور اپنے کس امیدوار کو حالات کے رحم وکرم پر چھوڑدیں گے؟3مارچ کو سب واضح ہوجائے گا۔
اب کی بار سینیٹ انتخابات ہمیشہ سے زیادہ متنازعہ ہورہے ہیں یوسف رضا گیلانی کا معاملہ اچھا خاصا ہنگامہ خیز ہے۔الیکشن سے کاغذات کی منظوری کے بعد پی ٹی آئی اعلیٰ عدلیہ میں اس فیصلہ کوچیلنج کرے گی گیلانی کی بخشش اس لئے ہوگئی کہ فیصل واؤڈا کے کاغذات ہر قیمت پرمنظور ہوجانے تھے اگریوسف رضا کے کاغذات مسترد ہوتے تو واؤڈا کے کیسے منظور ہوجاتے۔کیونکہ واؤڈا پراسرار طور پر سلیکٹرز کے لاڈلے ہیں امریکی شہری ہونے کے باوجود انہیں 2018ء میں کامیاب قراردیا گیا کراچی کے حلقہ بلدیہ جہاں سے وہ کھڑے تھے انکے کیلئے اجنبی تھا جبکہ وہاں کے لوگ بھی اس شخص کو نہیں جانتے تھے لیکن پولنگ کے بعد انکے باکس ووٹوں سے بھرے نکلے اور انہوں نے شہبازشریف کو شکست دی کیس کمزور ہونے کے باوجود انہیں پانی کی وزارت دی گئی جس کے تحت کھربوں روپے کی لاگت سے مہمند اور بھاشاڈیم شروع کئے گئے۔
واؤڈا کو یہ کریڈٹ بھی جاتا ہے کہ انہوں نے ٹی وی شو کے دوران کالابوٹ ٹیبل پر رکھ دیا اور دعویٰ کیا کہ سارے سیاست دان اسی بوٹ کے تابع ہیں انہوں نے آرمی ایکٹ میں ترمیم سے قبل یہ بھی پیشنگوئی کردی تھی کہ تمام سیاستدان دم ہلاتے ہوئے آئیں گے اور ترمیم کے حق میں ووٹ دیں گے یہ پیشنگوئی بھی صد فیصد درست ثابت ہوئی انکی عجیب وغریب اور انتہائی محرالعقول شخصیت ہے کوئی کام دھندہ نہیں کرتے لیکن اربوں کھربوں کے مالک ہیں صرف لندن شہر میں انکے چھ فلیٹ ہیں
امریکہ میں جائیداد الگ ہوگی جہاں کے وہ شہری ہیں یہ جو پاکستانی امریکی شہریت چھوڑنے کا اعلان کرتے رہتے ہیں یہ سفید جھوٹ ہے کیونکہ یہ لوگ ایک چھٹی لکھ کر شہریت سے دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں امریکی امیگریشن حکام ایسے تمام خطوط کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیتے ہیں شہریت ترک کرنے کا باقاعدہ قانونی طریقہ کار ہے اسکے بغیر شہریت کبھی ختم نہیں ہوسکتی اس طرح کا ڈرامہ سابق وزیراعظم شوکت عزیز نے بھی کیا تھا وہ اپنے دور میں بے شمار مال ومتاع اکٹھے کرکے واپس امریکہ چلے گئے اور ویزہ حاصل کئے بغیر گئے یعنی ان کی شہریت برقرار تھی واپس جاکر انہوں نے مین ہٹن کے علاقے میں ایک شاندار پینٹ ہاؤس خریدا جس کی مالیت ایک ارب پاکستانی تھی نہ صرف یہ بلکہ لندن میں بھی انہوں نے اس سے مہنگی جائیداد خریدی جبکہ وزیراعظم بننے سے پہلے وہ مختلف بینکوں کی تنخواہ پرگزارہ کرتے تھے۔فیصل واؤڈا چونکہ بہت ہی لاڈلے ہیں اج تک نیب ایف آئی اے اور ایف بی آر نے ان سے نہیں پوچھا کہ انہوں نے اتنی دولت کہاں سے کمائی اور یہ کہ انکے گھر پر ایک ارب روپے مالیت کی قیمتی گاڑیاں اور ہیوی بائیک کیسے کھڑی ہیں سلیکٹرز کی تمام ترحمایت کے باوجود واؤڈا کی ناکامی کے خطرات موجود ہیں مخالفین زورلگاکر انکے ووٹوں کو خراب کرنے کی بھرپور کوشش کریں گے اگرسامری جادوگرنے چھڑی گمائی تو تحریک انصاف کے کئی ارکان ادھر سے ادھر ہوسکتے ہیں ویسے بھی حکومت اتنی خوفزہ ہے کہ اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے سپریم کورٹ میں بیان دیا کہ سینیٹ کے ووٹوں کی خریداری دوبئی میں ہورہی ہے پاکستان میں اربوں روپے ہنڈی کے ذریعے دوبئی جارہے ہیں جہاں بکنے والے بھیڑبکریوں کو ادائیگی کی جارہی ہے اٹارنی جنرل کا واضح اشارہ آصف علی زرداری کی طرف تھا انہوں نے سپریم کورٹ سے فریاد کی کہ جس پارٹی کی جتنی سیٹیں بنتی ہیں اسے اتنی نشسیں ملنی چاہئیں سپریم کورٹ کے جج صاحبان نے بھی اس رائے سے اتفاق کیا لیکن اگر آزاد امیدوار بیچ میں آگئے تو پارٹیاں کیا کریں گی۔سینیٹ الیکشن کے مراحل اور طریقہ کار مشکل سے ہر دفعہ کئی ایم پی اے اور ایم این اے غلط ووٹ دیتے ہیں اس لئے اپ سیٹ ہوجاتا ہے اس مرتبہ بھی اپ سیٹ ہوگا پیپلزپارٹی کی سندھ میں 6نشستیں بنتی ہیں لیکن وہ یقینی طور پر سات حاصل کرے گی 8بھی ہوسکتی ہیں اسی طرح پشتونخوا سے فرحت اللہ بابر کی پوزیشن مضبوط ہے اگروہاں تحریک انصاف نے خریداری نہیں کی تو وہ کامیاب ہوجائیں گے یعنی پیپلزپارٹی کی9نشستیں پکی ہیں اگرزرداری کی حکمت عملی کامیاب رہی یا دوبئی پلان کامیاب ہوا تو گیلانی کا حفیظ شیخ سے سخت مقابلہ ہوگا جس کا نتیجہ کسی بھی فریق کے حق میں نکل سکتا ہے تحریک انصاف خوفزدہ ہے کہ زرداری نے دوبئی پلان حکومت کا تختہ الٹنے کیلئے بنایا ہے جس کے لئے سینیٹ انتخابات وسیلہ ہونگے یہ ایک جوا ہے جو کسی کے بھی حق میں نکل سکتا ہے لیکن حکومت پرجو خوف طاری ہے اس سے لوگ مزہ لے رہے ہیں۔ہر روز کئی وزراء مشیر حتیٰ کہ وزیراعظم خود یہی رونا روتے ہیں کہ زرداری ہمارے ووٹ خرید رہا ہے زرداری ہمیں برباد کررہا ہے کوئی پوچھتا نہیں کہ اپنے بھیڑ بکریوں کو سنبھال کر رکھو تا کہ کوئی انہیں خرید نہ سکے۔
بلوچستان کے گمشدہ افراد کے لواحقین سے پاکستان کے پایہ تخت یا فیڈریشن کے کیپٹل میں جو سلوک ہوا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کا سلوک سوتیلی ماں سے بھی بدتر ہے لگتا ہے کہ حکومت نے مظاہرے میں شریک نوجوانوں کو اٹھاکر حضرت فوادچوہدری کے مشورے پر عمل کیا ہے حالانکہ وفاقی کیپٹل پنجاب کاشہر نہیں بلکہ ملک کے تمام لوگوں کا شہر ہے لیکن انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہے کہ ملک کے باقی لوگوں کو وہ فضیلت حاصل نہیں جو فوادچوہدری اور اس کے لوگوں کو ہے۔
کہاجاتا ہے کہ لواحقین کو لینے کے دینے پڑ گئے انہیں انصاف تو نہ مل سکا البتہ یہ پیغام ضرور دیا گیا کہ جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری رہے گا حکومت اس لئے بھی غصہ میں آگئی تھی کہ اپوزیشن لیڈر مریم نواز وہاں کیوں گئی تھی اور متاثرین سے ہمدردی کامظاہرہ کیوں کیا تھا حکومتی طرز عمل واضح اشارہ ہے کہ وہ بلوچستان کے مسئلہ کے پرامن حل کے حق میں نہیں بلکہ یہ سبق بھی دیا کہ آئندہ انصاف کیلئے عدالتوں وزراء اور دیگر اداروں کی زنجیر نہ ہلائی جائے جو سلوک کیا جائے گاوہ کالونی کے باشندوں کی حیثیت سے قبول کیاجائے کوئی آواز نہ نکالی جائے سوال یہ ہے کہ یہ مظلوم اور بے آسرا لوگ جن میں خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے کیا کریں گے؟ریاست کوسوچنا چاہئے۔