چٹ بھی اپنی پٹ بھی اپنی

تحریر: ر احت ملک
ذرائع ابلاغ پر آج بروز جمعہ 26فروری پنجاب میں بلا مقابلہ ہونے والے سینیٹ انتخابات پر مباحثے کے چند شرکاء نے جو سیاسی حکمت کے رموز سے آشنا نہیں بلکہ "سیاسی مداخلت ” کی
” بھٹی "کے ڈھلے ہونے ہیں اس عمل کو سیاسی سودے باز قرار دیا ہے ان کی دلیل تھی کہ کل تک پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم
(نون لیگ)کسی قسم کے باہمی تعاون کے امکان کو رد کر رہی تھیں مگر آج دونوں متحارب جماعتیں ایک دوسرے کے انتخابی مقابلے سے دستبردارہو گئی ہیں۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موصوف پی ڈی ایم کی سیاسی مزاحمتی تحریک کے بڑے جفادری ناقد رہے تھے وہ اسے ملکی سیاسی استحکام کے لئے مضر سمجھتے تھے لیکن آج جبکہ دونوں جماعتوں نے ایک انتہائی معقول مساویانہ فارمولے پر اتفاق کرتے ہوئے سینیٹ کے انتخاب کو متازعہ ہونے بچایا ہے تو سودے بازی کا واویلا مچ گیا ہے۔حضرت گزشتہ کئی دنوں سے شو آف ہینڈ کے” عمرانی” موقف کی حمایت کرتے ہوئے فرماتے رہے تھے کہ اس طرز انتخاب سے کرپٹ پریکٹس کا خاتمہ ہوگا چنانچہ مسلم لیگ اور پی ڈی ایم شو آف ہینڈ سے اسی لیے گریز کر رہے ہیں کیونکہ وہ کرپٹ پریکٹس کے ماہر ور مال بچاؤکھال بچاؤ آل بچاؤ کے اصول پر سیاست کرتے ہیں کیا مساوی عددی پوزیشن کے اصول پر نشستیں تقسیم کر کے خفیہ رائے شماری سے بچنا شو آف ہینڈ کی ہی ایک مخصوص نوعیت نہیں؟؟ سودے بازی کا الزام تب جائز ہوتا اگر مسلم لیگ یا پی ٹی آئی اپنے حصے سے زیادہ یا کم پر اکتفا کرتیں۔دونوں جماعتوں کو پانچ پانچ سینیٹرز مل گئے ہیں گیارہویں نشست قاف لیگ لے گئی ہے یہ اس کی سہولت کاری کا انعام بھی ہوسکتا ہے رائے شماری کے ذریعے بھی اسے ایک نشست ملتی۔سوال رائے شماری کا موقع نہ دیئے جانے پر ووٹ کو عزت نہ دینے کے مترادف سمجھنے کا بھی نہیں یہ بات بھی واضح ہوگئی ہے کہ فیصلہ وزیراعظم، محترمہ مریم نواز اور جناب آصف زرداری کے علاوہ تینوں جماعتوں کے ارکان صوبائی اسمبلی کی حمایت سے ہی ہوا ہے تو بلواسطہ طور پر ارکان کی رائے سامنے آچکی ہے ووٹ کی پرچی پر بھی ان ارکان نے ایسی ہی رائے دینی تھی جبکہ کسی اونچ نیچ یا انتخابی نتیجے میں کمی بیشی سے ایک نیا پنڈاور بکس کھل جاتا۔
سیاست کو جامد طرز عمل یا رجمنٹل تھاٹ جیسا خیال کرنے کا لازمی نتیجہ سیاسی معاملات کے اساسی کردار کو نظر انداز کرنے کی شکل میں نکلتا چاھے سیاسی ہٹ دھرمی کی ذریعے یا ابلاغی تجربات کے ذریعے۔ جاننا چاہیے کی سیاست تمدنی مکالمے کا ہنر ہے اور مکالمے کی جوت سے آگے بڑھتا ہے
سیاست بنیادی طور پر ایسا علم وفن ہے جو معاشرے میں موجود مختلف متحارب سیاسی،سماجی،معاشی لسانی،ثقافتی،مذہبی تضادات کو پر امن مفاہمانہ انداز ِ فکر و عمل سے حل کی جانب پیشرفت ممکن بناتا ہے۔اگر سیاست سے یہ وصف چھن جائے تو معاشرے کے متحارب گروہ باہم دست و گریبان ہوجاتے ہیں۔ ایسی مخدوش صورتحال کو سماجی خلفشار و پرگندگی قرار دیا گیا ہے سیاست سفارت کاری کی طرح پرامن ذرائع سے لڑی جانے والی جنگ کی مانند ہے جس میں گولی کی بجاے بولی کارگر ہوتی سفارت کاری میں کامیابی کا معیار متحارب ممالک کے مابین امن کے وقفے کی طوالت سے ناپا جاتا ہے اسی طرح سیاست فرماں روائی کے برعکس معاشرے میں پائے جانے والے مختلف الخیال تصورات و متضاد مفادات کے درمیان پرامن رضا کارانہ ہم آھنگی قائم کرتی ہے یہ سماج میں امکانی خلفشار وتصادم کے بروقت تدارک کا عمل ہے معاشرے میں سماجی توازن افہام و تفہیم یا پرامن بقائے باہمی جتنی دیر قائم رہے اس مدت کو سیاسی استحکام سے تعبیر کیا جاتا ہے مگر یہ نقاط سیاسی کی وادی نہیں عملاً اترے بغیر شاد ہی ذہین رسائی کی منزل پا سکیں یہ سمجھنا دشوار نہیں ہوگا کہ غیر سیاسی بھٹی میں ڈھلے ڈھلائے ہویے افراد ذرائع ابلاغ پر بزور براجمان تو کئے جاسکتے ہیں مگر ان سے سیاسی معقولیت پر مبنی اظہار خیال یا گفتگو کی توقع رکھنا دیوانگی سے کم نہیں۔ حالیہ ابلاغی تجربہ اسکی تائید کرتا ہے۔
بلوچستان میں سینیٹ انتخابات کے لئے اب تک جو کچھ ہوا ہے گزشتہ کالم میں اس کا تذکرہ کر چکا ہوں سطور بالا کی روشنی میں اس کا مکرر تذکرہ یوں ضروری ہوگیا ہے کہ یہاں بھی حکمران جماعت کے امیدوار کو آزاد یا اتحادی رکن کی کامیابی کے لئے دستبردار کرایا گیا ہے۔پی ٹی آئی کے نامزد امیدوار جناب ظہور آغا نے کاغذات نامزدگی واپس لیتے ہوئے بر ملا فرمایا ہے کہ” یہ اقدام پی ٹی آئی کے قائد کے فیصلے کی روشنی میں اٹھایا گیا "۔ اگر پنجاب میں دستبرداری سودے بازی ہے تو بلوچستان میں ہویے ایسے ہی اقدام کو کیا نام دینا چاہیے؟
بہر طور بلوچستان کا مذکورہ واقعہ اپنے پہو کچھ مہین سوال رکھتا ہے جسے خالصتا سیاسی اتحادی کے ساتھ باہمی تعاون کہنا ممکن ہو توبھی ہ مشکل ضرور ہے اس اقدام کے بعد پی ٹی آئی بلوچستان کے حالیہ سینیٹ انتخاب سے باہر نکل گئی ہے گو اس کے ارکان اسمبلی خفیہ رائے شماری کے ذریعے بقول راوی جناب عبدالقادر کے حق میں ووٹ کاسٹ کرینگے جن سے قبل ازیں پارٹی ٹکٹ دے کر واپس لے لیا گیا تھا۔ ناقدین اسے سودا منسوخ کرنے کا نام دیتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ سودا منسوخ نہیں ہوا بلکہ ملتوی ہوا تھا اب اسے عملی شکل دے کر قابل قبول و قابل عمل بنا لیا گیا ہے۔خیال کیا جارہا ہے کہ نئی صورتحال میں جناب عبدالقادر کو پی ٹی آئی سے تین ووٹ مل سکتے ہیں پارٹی کے باقی چار ووٹ آزاد امیدوار جناب مر سردار خان رند لے جائینگے جو پی ٹی آئی بلوچستان کے پارلیمانی لیڈر کے صاحبزادے ہیں۔ یوں پی ٹی آئی اور باپ باہمی تعاون سے مذکورہ دونوں امیدواروں کو کامیاب کراسکتے ہیں۔ لیکن اس کامیابی کو پی ٹی آئی کے لیے فتحمندی سمجھنا ممکن نہیں۔ باپ کے ارکان اپنے نامزد امیدوار جناب عبدالقادر کو ملنے والے تین ووٹوں کے بدلے میں سردار خان رند کو ووٹ دے کر انکی کامیابی کو ممکن بنائیں گے۔ گویا مارکیٹ میں سینیٹ کی نشست کا جو نرخ کھلا تھا وہ کامرانی سے ہمکنار ہوگا۔
سینیٹ انتخاب کا سب سے بڑا معرکہ قومی اسمبلی کے حلقہ نیابت میں ہونے جارہا ہے جہاں پی ڈی ایم کے مشترکہ امیدوار جناب یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں جناب حفیظ شیخ سرکاری امیدوار ہیں بعض حلقے انہیں ازراہ تعفن پی ٹی آئی ایم ایف کے مشترکہ امیدوار کا نام بھی دیتے ہیں یہ انتخاب بہت وسیع اثرات مرتب کریے گا۔
اگر جناب گیلانی فتحیاب ہوئے تو یہ حکومت کی صرف انتخابی شکست نہیں بلکہ قومی اسمبلی میں اکثریت کھودینے کی مضبوط دلیل مع ثبوت امر واقعہ ہوگا اور منطقی طور پر حکومت کے خاتمے پر منتج ہو سکتا ہے۔ کیونکہ شکست سے قومی اسمبلی میں حکومت کی ختم ہو جائے گی تو اکثریت کے اعتماد سے محرومی کے بعد وزیراعظم قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے قانونی استحقاق کو بروئے کار لانے سے بھی محروم ہو جائیں گے۔یوں جناب گیلانی کی فتح کے ساتھ جناب آصف زرداری کا ان ہاؤس تبدیلی کا تصور عملی بالادستی حاصل کرے گا تو انہیں پی ڈی ایم میں پہلے سے زیادہ قدر و اہمیت حاصل ہو جائے گی۔دوسری صورت میں پی ڈی ایم کی سیاسی مزاحمتی تحریک کو سیاسی توانائی ملے گی جسکی کی داعی نون لیگ و دیگر جماعتیں ہیں تو لانگ مارچ اور استعفوں کے آپشن بروئے کار لانے کی ضرورت افادیت واہمیت دوچند ہوجائے گی۔پہلی صورت پارلیمان کے اندر سیاسی جدوجہد کے لئے باعث تقویت ہوگی تو دوسری عوامی سیاسی مزاحمت کے لئے۔
اس لئے میں سمجھتا ہوں اس معرکہ کا 3مارچ کو جو بھی نتیجہ نکلا اس میں پی ڈی ایم تحریک ہی کامیاب ہوگی یعنی چٹ بھی اس کی اور پٹ بھی اس کی۔دریں حالات یہ اقرار کرنا یابیان کرنا شاید ابھی قبل از وقت ہے کہ اسٹیبلشمنٹ بظاہر سیاسی معرکہ آرائی سے الگ ہوچکی یا فیصلہ اپنا چکی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کوئی وجہ نہیں کہ الجیشن کمیشن میں پانچ سال سے زیر التواء فارن فنڈنگ کا فیصلہ مارچ میں نہ سنایا جاے۔ بعید از قیاس نہیں کہ 3مارچ کے نتائج دیکھنے کے بعد اسٹیبلشمنٹ اپنے سیاسی کردار کا حتمی فیصلہ کرے جس کے لئے متعدد سوالوں کے جوابات فیصلہ کن کردار ادا کرینگے۔
1۔کیا اسٹیبلشمنٹ نے موجودہ آئینی سانچے کو من وعن قبول کرنے پر آمادگی اپنا لی ہے؟اور وہ صوبائی خود مختاری میں کمی یا نیم صدارتی نظام کے قیام سے دستبردار ہوگئی ہے؟یا وہ اب بھی آئینی ترامیم کی بجائے محض چند من پسند قوانین میں تبدیلی پر اکتفا کرے گی؟ جو پارلیمان میں سادہ اکثریت سے ممکن ہوسکتی ہیں جس کے لیے پارلیمنٹ میں نئی عددی صورت میں چند مزید مطلوبہ ووٹوں کا بندوبست کرنا سہل ہوگا۔
2۔ کیا انحطاط پذیر جی ڈی پی کی موجودہ صورتحال میں اسٹیبلشمنٹ موجودہ حکومت کی استعداد کار سے توقعات ختم کرچکی ہے؟ وہ اپنے ہائی برڈ نظام کی ناکامی تسلیم اور اسے منہدم کرنے پر تیار ہے؟ نیز یہ کہ حالیہ معاشی گراوٹ کی موجودگی میں اسے دفاعی معاملات (خالصتاً)چلانے و اپنے منصبی فرائض کی بجا آوری میں مشکلات کا ادراک ہوا ہے یا نہیں؟
3۔حالیہ سیاسی مزاحمتی تحریک نے سماج میں نمایاں طور پر ابھرنے والے تنقیدی عوامی ہیجان و رجحانات کی روشنی میں آئین وجمہوری پارلیمانی نظام میں بے جامداخلت کے خلاف رد عمل کی شدت نے اسے اپنامائنڈ سیٹ بدلنے پر آمادہ کیا ہے؟اور یہ کہ
4۔پی ڈی ایم کی جماعتوں کو سیاسی فیصلہ سازی کے مراکز سے دور کر کے ان کی ناراضی کے رد عمل کی صورت میں ملکی وفاقی جغرافیائی سالمیت پر (خدانخواستہ)پڑنے والے ممکنہ خدشات کے تدارک کی کوئی متبادل سیاسی سکیم یا منصوبہ بنایا ہے جس کی کامیابی پر حتمی و مکمل ذمہ دارانہ یقین کیا جا سکتا ہے؟

اپنا تبصرہ بھیجیں