کرونا اور سنجیدگی کا معیار

زبیر بلوچ
ہم عام طور پر سنتے ہیں کہ جب کسی رشتہ میں سنجیدگی نہ ہو تو وہ جلد ٹوٹ جاتا ہے۔ اگر کسی ملک کے حکمران کسی ادارے کا سربراہ اور کسی تحریک کی لیڈرشپ میں سنجیدگی کا فقدان ہو تو وہ جلد ناکارہ اور تباہ ہو جاتے ہیں یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے شاید کوئی ذی شعور انسان انکار کر سکتا ہے، جبکہ یہ بھی ایک زندہ حقیقت ہے کہ ہماری سنجیدگی کے معیار کا تعین کبھی نہیں کیا گیا ہے۔ بدقسمتی سے سنجیدگی کا معیار ہمارے یہاں اب چار میٹھے اور خوبصورت باتیں رہ گیا ہے، ہمارے یہاں جو شخص چار خوبصورت فقرے سنائیں، سوشل میڈیا میں چار پوسٹ آپ لوڈ کریں جبکہ ایک دو اچھی تقریر کریں بس ہمارے لوگ پاگلوں کی طرح ان کی شیدائی بن جاتے ہیں اور اْس کو آسمان پر اٹھاتے ہیں جبکہ حقیقت میں اْس کا کردار اور عمل کیا ہے اور حقیقی پیمانے پر عمل کا معیار کیا ہے اس کو ہمارے لوگ کبھی نہیں دیکھتے بلکہ المیہ کی بات یہ ہے کہ اب ہمارے تعلیم یافتہ طبقے کی بھی حالت یہ رہ گئی ہے کہ وہ چار میٹھے الفاظ سے ڈھیر بن جاتے ہیں۔ لیکن یہ تو ہمارے سماج کا المیہ ہے، کیا آپ کو پتا ہے کہ آج دنیا میں غیر سنجیدگی کی حالت کیا رہ گئی ہے اس کی واضح مثال حالیہ کرونا کا پھیلاؤ ہے۔
اگر دنیا کی سپرپاور طاقت اور عالمی ادارے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے تو آج یہ حالت دیکھنے کو نہیں ملتی، کسی بھی صورت یہ نہیں ہوتی جو آج ہے۔
عالمی اعداد و شمار اور چان بین کے مطابق کرونا کا پہلا مشتبہ کیس 17 نومبر 2019 کو سامنے آیا تھا جبکہ عالمی اداروں کا کہنا ہے کہ پہلا کیس دسمبر میں سامنا آیا تھا چونکہ عالمی ادارے ریکارڈ بیس بیان جاری کرتے ہیں اس لیے ہم چینی ماہرین کے کہنے پر اپنا موقف رکھتے ہیں کہ چین میں کرونا کے واقعات نومبر 2019 میں سامنے آئے۔ 30 دسمبر کو 34 سالہ چینی ophthalmologist ڈاکٹر Li Wenlian نے وی چیٹ گروپ میں اپنے دیگر ڈاکٹروں کو ہدایت کی کہ وہ ماسک سمیت دیگر حفاظتی سامان پہنیں کیونکہ اْنہیں شبہ ہے کہ سارس جیسی وباء کا ایک مرتبہ پھر جنم ہوا ہے، سارس ایک موذی مرض تھی جو 2003 میں چین کے اندر آیا تھا جس سے چین میں ہزاروں ہلاکتیں ہوئی تھیں سارس کرونا سے زیادہ مہلک تھی جس سے متعددلوگ وائرس سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گئے، اْس سبق سے عبرت حاصل کرتے ہوئے حالات کا تقاضا اور سنجیدگی کا معیار یہ ہونا چاہیے تھا کہ چین ڈاکٹر li Wenliang کے عظیم کام پر اْنہیں خراج تحسین پیش کرتا جس نے بہت ہی جلد بیماری کا پتا لگایا تھا لیکن بجائے ڈاکٹر کی انتہائی احساس سمجھ و بوجھ کو داد دینے چینی پولیس حکام نے ڈاکٹر لی وینلیان کو پولیس تھانہ بولا کر مجبور کیا کہ وہ اپنا بیان واپس لیں، اور ڈاکٹر کو مجبور کیا گیا جس کے بعد ڈاکٹر نے اپنا بیان واپس لیا اس وقت تقریباً پورے وہان میں 200 سے زیادہ کیسز نہیں تھے اگر چینی حکام سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا اور پورے شہر میں لاک ڈاؤن کرتے ہوئے وائرس کو جلد ہی پھیلنے سے روکتا تو دنیا تو کجا چین میں بھی کرونا سے ایسی آفت نہیں آتی، لیکن چین کی غیر سنجیدگی نے کرونا کو پھیلنے کا موقع دیا اور کرونا پھیلتا ہی گیا، اور پورے 47 دن بعد چین کو ہوش آیا کہ یہ وباء چین میں پھیلتے ہوئے تباہی پھیلائے گی جس کے بعد وہان کو لاک ڈاؤن کیا گیا لیکن اس وقت پانی سر سے اوپر ہو چکا تھا ایک رپورٹ کے مطابق جس دن وہان میں لاک ڈاؤن کا فیصلہ ہوا تھا اسی دن ووہان شہر سے پچاس لاکھ کے لگ بھگ لوگ وہان سے نکل کر دوسرے شہروں اور ملکوں میں چلے گئے تھے اب کون جانتا ہے کہ اسی دن نجانے کتنے لوگوں نے اس وائرس کو اپنے ساتھ لیکر دیگر ملکوں میں چلے گئے تھے۔
چین اپنی جگہ آئیں ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے کردار پر بات نظر دوڑاتے ہیں، دنیا میں ہیلتھ پر سب سے زمہ دار ادارہ ڈبلیو ایچ او کو سمجھا جاتا ہے جبکہ یو این کے ممبرز پابند ہوتے ہیں کہ وہ ڈبلیو ایچ او کے ہدایت کی تکمیل کریں لیکن وباء کے پھیلنے میں جتنا غیر زمہ داری کا مظاہرہ چین نے کیا ہے اس سے بڑھ کر کہیں بڑی غیر زمہ داری اور غیر سنجیدگی کا مظاہرہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے دکھائی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جیسے اہم اور زمہ دار ادارہ کو چاہیے تھا کہ وہ وباء کے پہلے دنوں ہی اس کی احساسیت کو سمجھتے ہوئے اس خطرناک اور مہلک وباء پر تمام ممالک کو ہدایات جاری کرتا اور احتیاطی تدابیر اختیارکرنے کو کہتا لیکن ڈبلیو ایچ او کی جانب سے بھی یہی سطحی پن دیکھنے کو ملا جس کی وجہ سے وائرس پوری طرح پھیل گیا۔ ڈبلیو ایچ او کی جانب سے 11 مارچ یعنی چین میں جاری کرفیو اور لاک ڈاؤن کے 45 دن بعد وباء کو Pandemic قرار دیا گیا اور تمام ممالک کو ہدایات جاری کی گئیں لیکن اس وقت بات ہدایات سے بڑھ چکی تھی۔ کیونکہ اس وقت یہ وباء یورپ کے بیشتر ممالک میں پھیل چکی تھی اور کئی ممالک میں وباء سے ہلاکتوں کا سلسلہ جاری تھا۔
یہی غیر سنجیدگی اور غیر لچک پن کا مظاہرہ ہمیں اٹلی امریکا فرانس اور ایران میں دیکھنے کو ملا جس سے آج ان کی کیا حالت ہے اس سب کا ہمیں بخوبی اندازہ ہے، اٹلی جہاں کچھ کیسز کے باوجود عوام نے اس کو سنجیدہ نہیں لیا جس کے بعد یہ ایسا پھیل گیا کہ اب اٹلی میں مرنے والوں کی گنتی کرنا ممکن نہیں ہو رہا، ہزاروں لوگ مر رہے ہیں۔ اٹلی حکام کی جانب سے اپنی پوری طاقت آزمائی گئی ہے لیکن سب کچھ داؤ پر لگانے کے باوجود وباء کو کنٹرول میں مکمل طور پر ناکام دیکھائی دیتے ہیں یہی سلسلہ ہمیں امریکا میں بھی دیکھنے کو مل رہا ہے۔ جہاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ وباء کو چینی وائرس کہہ کر اس کا مزاق اڑایا کرتا تھا لیکن آج حالت یہ ہو گئی ہے کہ امریکا طبیسہولیات کیلئے آہ و فریاد کر رہا ہے لیکن کوئی ملک اسے سپورٹ نہیں کر پا رہا کیونکہ موجودہ حالات میں ایک ایسی صورتحال قائم ہو گئی ہے کہ ہر کسی کا اپنی پڑا ہے اور کوئی بھی اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہا ہے۔
دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی وباء حکومتی نالائقی، کم فہمی اور ناسمجھی جبکہ غیبی قوتوں کے ہاتھوں مجبوری کی وجہ سے پھیل گیا، جب کرونا وباء ایران میں پھیل گیا اور ایران میں بڑے پیمانے پر لوگ اس کے شکار ہو رہے تھے تو حکومت کو سنجیدگی اور بالغ النظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے باڈر کو مکمل طور پر سیل کر دینا چاہیے تھا اور کسی بھی شخص کو مکمل سکریننگ جبکہ 1 ماہ قرنطینہ میں وقت گزارنے کے بعد ہی اپنے اپنے علاقوں میں جانے کی اجازت دے دینی چاہیے تھی لیکن تفتان باڈر کو سیل کرنے، ایران میں موجود پاکستانی زائرین کی مکمل سکریننگ کرنے، انہیں دیگر علاقوں میں بھیجنے کے بجائے اْن کی اور ملک کی سیفٹی کو مدنظر رکھتے ہوئے زمہ داری اور سنجیدگی سے اس مسئلے کو ڈیل کرتے لیکن بجائے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے باڈر کو سیل کرنے زائرین کو قرنطینہ میں رکھنے کے غیبی طاقتوں کے ہاتھوں لاچار ہوکر زائرین کو باڈر سے سیدھا کوئٹہ منتقل کیا گیا جس کے بعد وقفے وقفے سے انہیں پورے پاکستان میں پھیلایا گیا۔ عام تعلیم یافتہ لوگ چیختے گئے کہ زائرین کو شہروں اور علاقوں میں منتقل نہ کیا جائے جن کو کرونا ہو نے کے چانس ہیں لیکن بات پر وہی پر آ رکتی ہے کہ جب تک اس ملک سمیت دنیا کو سنجیدہ لیڈرشپ مہیا نہیں ہوگی لوگ اسی طرح چھوٹی چھوٹی بیماروں سے تباہی کا سامنا کرتے رہیں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں