گھر کا چور۔۔

تحریر: رشید بلوچ
بلوچستان نیشنل پارٹی کے ایک دیرینہ غیر بلوچ سیاسی کارکن ساجد ترین سینٹ کی جنرل نشست کیلئے پر امید تھے لیکن ناگہانی طور پر ان کی آس بھر نہ آسکی،ساجد ترین سینٹ کے ٹیکنوکریٹ اور جنرل دونوں نشستوں کیلئے نامزد تھے جمعیت سے فارمولہ طے ہونے کے بعد انہیں ٹیکنوکریٹ کی نشست سے غیر اعلانیہ دست برادر ہونا پڑا، جنرل نشست کیلئے بی این پی کی جانب سے وہ پہلی ترجیح تھے لیکن بی این پی کے اندر بیٹھے چند کوتاہ اندیش لوگوں کی وجہ سے پی ڈی ایم کو تیسری جنرل نشست کھونا پڑی اور ساجد ترین ہار گئے،نشست ہار جانے کے بعد ساجد ترین کافی دل برداشتہ ہوگئے ہیں انہوں نے اپنے حلقہ احباب میں ناراضگی کا اظہار بھی کیا ہے لیکن اب ناراضگی کیا ہوت جب تیر کمان سے نکل چکا ہے، ساجد ترین اپنے جماعتی ساتھیوں کی لالچ کا شکار ہوکر ناراض ہوئے ہیں،بی ین پی کے کماش سردار اختر مینگل نے ساجد ترین کی ناراضگی رفع کرنے کیلئے اندر کے“ چوروں“کو دبوچنے کیلئے چار رکنی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دیدی ہے،تحقیقاتی کمیٹی اپنی رپورٹ جماعت کو پیش کرے گی یا اسے پبلک کیا جائے گا اس بارے میں انتظار رہے گا،کمیٹی رپورٹ آنے کے بعد بی این پی کی قیادت پر لازمی ہوگا کہ وہ زمہ داران کے خلاف تادیبی کاروئی کریں،تادیبی کاروائی ایسی ہو جو متاثر کن بھی ہو اور سبق آموز بھی اگر مصلحت پسندی سے کام لیا گیا تو سارا ملبہ جماعت پر آ گرے گا۔۔۔
حاجی لشکری رئیسانی کا خیال تھا کہ قبائلی پس منظر رکھنے اور سیاسی میدان میں پرانے کھلاڑی ہونے کی وجہ سے انہیں ان کی جماعت سینٹ کا ٹکٹ فراہم کرے گی لیکن متوقع طور انہیں بھی ان کی پارٹی نے ٹکٹ دینا مناسب نہیں سمجھا،شاید یہی وجہ تھی کہ نواب اسلم رئیسانی نے ٹیکنوکریٹ کے علاوہ باقی تمام ووٹ اعلانیہ جمعیت کی جھولی میں ڈال دیئے-
حالیہ سینٹ انتخابات قریبی دوستوں کو ناراض کرنے کے ساتھ ساتھ پرانے دور کے دوستوں کو قریب لانے کا سبب بھی بن گئی،1997 کی متحدہ بی این پی کی دھڑے بندی میں شامل سید احسان شاہ 24 سال بعد سردار اختر جان کے قریب ہوگئے ہیں، سید احسان شاہ کی اہلیہ نے مشروط طور پر سینٹ انتخابات سے ایک دن قبل بی این پی میں شمولیت اختیار کرلی شرط یہ تھی کہ سینٹ الیکشن میں بی این پی نسیمہ احسان کو اپنا امیدوار ڈکلیئر کرے گی،نسیمہ احسان کے بی این پی شامل ہونے سے پہلے سردار اختر جان مینگل اور سید احسان شاہ کے درمیان ایک تفصیلی گفت و شنید ہوئی تھی، اس گفت وشنید میں طے کیا گیا کہ آنے والے دنوں میں سید احسان شاہ اپنی نئی بننے والی جماعت پاکستان نیشنل پارٹی (عوامی) کو بلوچستان نیشنل پارٹی میں ضم کریں گے، ظاہر ہے پی این پی عوامی صوبے کی سطح کی کوئی Grass root رکھنے والی جماعت نہیں بلکہ یہ ایک شخصی جماعت ہے اسکے ضم ہونے کا مطلب سید احسان احسان شاہ کا بذات خود بی این پی میں شامل ہونا ہے، میرا زاتی خیال ہے کہ اس وقت احسان شاہ اور سردار اختر مینگل ایک دوسرے کی ضروت بن گئے ہیں،احسان شاہ کو کسی سیاسی جماعت کی چھتری کی ضرورت ہے جب کہ احسان شاہ کی صورت میں بلوچستان نیشنل پارٹی کو بالعموم مکران اور بلخصوص تربت میں ایک اچھی انٹری درکار ہے ،سردار اختر مینگل اور احسان شاہ کی مفاہمت ایک دوسرے کی ضروریات پورا کر سکتی ہیں اس سے قبل سید احسان شاہ کی نیشنل پارٹی میں شمولیت سے متعلق باز گشت سنائی دے رہی تھی لیکن اس باز گشت بہت جلد مدھم ہوگئی اسکی وجہ یہی تھی کہ مکران میں نیشنل پارٹی اور احسان شاہ کی سیاسی مفادات میں ٹکراؤ موجود ہے،سیاسی مفادات میں تضاد کی وجہ سے احسان شاہ کیلئے نیشنل پارٹی میں جگہ پانا محال ہے اس لیئے میر اسد اللہ بلوچ سے ناراضگی کے بعد احسان شاہ کو برائے نام پاکستان نیشنل پارٹی عوامی بنانے کی ضروت محسوس ہوئی حالانکہ نئی جماعت بنانے کی چنداں ضرورت نہ تھی احسان شاہ خود مختار حیثیت سے بی این پی (عوامی) میں رہ سکتے تھے کچھ عرصہ بعد حالات و واقعات کو مد نظر رکھ کر کسی بھی جماعت میں جانے کا آپشن کھلا رکھ سکتے تھے،چونکہ ہماری مجموعی نفسیات میں خود نمائی کا عنصر غالب ہے اس لیئے ہر وہ فیصلہ کیا جاتا ہے جس میں خود کو نمایاں رکھا جاسکے۔۔۔۔
بلوچستان نیشنل پارٹی پر حالیہ سینٹ ٹکٹس کی تقسیم اور فیصلوں پر بہت ساری تنقید کی جارہی ہے، تنقید کرنے والے تنقید کرتے رہیں گے لیکن کسی بھی اچھے اور غیر مقبول فیصلوں کی سود و زیاں کا اثر جماعتوں پر پڑتا ہے سردار اختر جان کے حالیہ فیصلے بی این پی کیلئے کتنے فائدے مند ہوں گے یہ آنے والا وقت بتا دے گا،سردار اختر جان مینگل نے نسیمہ احسان کے ساتھ ہونے والی پریس کانفرنس میں کھل کر سخت حالات کا مقابلہ کرنے والے پارٹی کارکنوں کی قربانیوں کی تعریف کی،اس میں کوئی شک نہیں کہ بی این پی کے کارکن نے 2006 کے بعد سے 2018 تک بڑا کٹھن دور گزارا-
بلوچستان کی سیاسی روایت کا ایک درخشاں باب رقم ہے،جہاں نظریہ کمٹمنٹ حاصل وصول ہوا کرتا تھا، سیاست برائے طاقت کا کوسوں دور تک سیاست کے ساتھ واسطہ نہیں ہوتا تھا،صمد خان اچکزئی نے 35سال جیل میں گزار دیئے، میر غوث بخش بزنجو 25 سال جیل میں رہے،گل خان نصیر کی زندگی کے 20 سال کال کوٹھڑیوں میں گزرے،بابو شورش،یوسف عزیز مگسی،سردار عطا اللہ مینگل،نواب خیر بخش مری سب نے اپنی زندگیوں کے بیشتر حصے جیلوں کی نذر کر دیئے کوئی ایک نام بتا دیں جس نے سیاست برائے طاقت کیلئے اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کیا ہو؟ ان شخصیات کی جانشین کہلانے والی جماعتیں ذرا تاریخ کے جھروکے جھانک کر دیکھیں تاکہ معلوم ہو کہ کہنے میں اور عمل کرنے کتنا بڑا خلا پایا جاتا ہے، کسی کو یہ کہنے میں دقت نہیں کہ 19 ویں صدی اور 21صدی کی سیاسی ساخت میں تبدیلی وقوع پذیر ہوئی ہے ہم نہیں کہتے کہ طاقت کی سیاست نہ کی جائے لیکن اپنے فیصلوں میں باپ اور بی این پی میں فرق ہونا چاہئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں