چمک ماندھ پڑنے والی ہے۔۔۔۔۔!

تحریر: رشیدبلوچ
سینٹ کے حالیہ انتخابات میں اپوزیشن نے عددی برتری حاصل کرلی ہے،آنے والے چیئرمن سینٹ کیلئے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اپوزیشن جماعتوں کے متفقہ امیدوار وار ہیں،حکومتی اتحاد نے ایک بار پھر صادق سنجرانی کی سحر انگیز شخصیت سے متاثر ہوکر چیئرمین سینٹ کیلئے اتفاق کرلیا ہے،اس سے قبل مرحوم حاصل خان بزنجو شو آف ہینڈ کے زریعہ سینٹ چیئرمن منتخب ہوئے تھے لیکن خفیہ رائے شماری میں صادق سنجرانی نے چمتکار کر دکھایا،ایک بار پھر سینٹ چیئرمین کا دنگل لگنے والا ہے غالب گمان یہی ہے کہ یوسف رضا گیلانی کے مقابلے میں صادق سنجرانی کی چمک ماند پڑ جائے گی۔۔۔۔
ڈپٹی چیئرمین سینٹ کیلئے اب تک پی ڈی ایم کے درمیان اتفاق رائے نہیں ہوسکی ہے تاہم زیادہ تر امکان ہے کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ بلوچستان سے لیا جائے گا،جمعیت علماء اسلام کی خواہش ہے کہ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ ان کی جھولی میں ڈالی جائے اس کیلئے جمعیت نے باقاعدہ مہم کا آغاز کردیا ہے،جمعیت کی جانب سے مضبوط امیدوار مولانا عبدالغفور حیدری ہیں،مولانا حیدری اس سے پہلے بھی اس عہدے پر فائز رہ چکے ہیں،جمعیت علماء اسلام نے مسلم لیگ ن اور میاں نوز شریف سے اپنی خواہش کا اظہار کیا ہے، میاں صاحب نے مولانا کو اپنی جماعت کی طرف سے یقینی د یہانی کرائی ہے اور ساتھ میں مولانا صاحب کو یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اپوزیشن کی دیگر جماعتوں کو اس بارے میں اعتماد میں لیا جائے جب کہ پیپلز پارٹی کا خیال ہے ایم کیو ایم کو مشروط طور پر ڈپٹی چیرمین سینٹ کی آفر دی جائے، شرط یہ رکھی جائے کہ ایم کیو ایم مکمل طور پر حکومت سے علیحدگی اختیار کرے،پاکستان پیپلز پارٹی چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی سے ایم کیو ایم کی بیساکھی چھین کر اسے لنگ و لاش بنا کر“نشان عبرت“ بنا یا جائے تاکہ اسے اپنی کمزوری کا احساس ہوتا رہے،اگر اپوزیشن نے پیپلز پارٹی کی رائے کو اہمیت دی اور اس پر عمل درآمد کرا لیا تو عمران خان کی حکومت تاریخ کی کمزور ترین حکومت بن جائے گی،یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ ایم کیو ایم کو حکومت سے دست کش کرانا بھی اپوزیشن کیلئے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوگا کیونکہ فی الحال ایم کیو ایم باوجود بہت سارے تحفظات، گلہ شکوہ کے حکومت سے الگ ہونے کا“رسک”لینے کو تیار نہیں، پیپلز پارٹی نے یہاں تک بھی کہا کہ ایم کیو ایم کو نہ صرف ڈپٹی چیئرمین سینٹ آفر کی جائے گی بلکہ اسے سندھ حکومت کا حصہ دار بھی بنا یا جائے گا، پیپلز پارٹی نے لالچ ایم کیو ایم کے سامنے رکھ دی ہے اتنی بڑی آفر دیکھ کر شاید ایم کیو ایم للچارہی ہو لیکن اپوزیشن کی جانب سے ڈپٹی چیئرمین سینٹ کیلئے حتمی اورمتفقہ فیصلہ آنے کے بعد ہی اپنی پوزیشن واضح کرے گی،جب تک فیصلہ نہیں ہوگا تب تک ایم کیو ایم“انتظار کرو دیکھو“ کی پالیسی پر رہے گی،ایم کیو ایم سے بات نہ بن پانے کے بعد ڈپٹی چیئرمین سینٹ کا قرعہ بلوچستان کے سر بیٹھنے کا امکان ہے،بلوچستان سے اکیلے مولانا حیدری امیدوار نہیں ہوں گے بلکہ بلوچستان نیشنل پارٹی بھی اس دوڑ میں شامل ہوگی،پی ڈی ایم کے اندر پیپلز پارٹی اور نیشنل پارٹی ڈپٹی چیئرمین کیلئے بی این پی کی حمایت کریں گے،ن لیگ پہلے سے ہی جمعیت کی حمایت کر چکی ہے آپسی فیصلے میں ن لیگ کی رائے کو پیپلز پارٹی سے زیادہ اہمیت دی جائے گی کیونکہ پیپلز پارٹی چیئرمین سینٹ کی نشست کیلئے اپنا مطالبہ منوا چکی ہے،ن لیگ کی ڈپٹی چیئرمین سینٹ کیلئے رائے فیصلہ کن ہوگی، یہ بھی ضروری نہیں کہ ڈپٹی چیئرمین سینٹ بلوچستان سے لیا جائے کیونکہ ن لیگ کے اندر ایک حلقہ موجود ہے جس کا خیال ہے کہ بڑی جماعت ہونے کے ناطے ن لیگ کو ڈپٹی چیئرمین کی نشست اپنے پاس رکھنی چاہئے تاکہ ایوان بالا میں ن لیگ پیپلز پارٹی کے شانہ نشانہ موجود رہے،نشست حاصل کرنے کی کشمکش میں مولانا فضل الرحمان اپنی بات منوانے میں کامیاب ہوں گے –