حکومتی امیدوار جیتے یا خفیہ بیلٹنگ؟

پولنگ کے دن اپوزیشن نے اچانک میڈیا کو بتایا کہ سینیٹ میں عین بوتھ کے اوپر چار کیمرے پائے گئے ہیں جو سیکرٹ بیلٹنگ کی ریکارڈنگ کے لئے لگائے گئے تھے۔ اس مسئلے کی چھان کی ذمہ داری ایک 6رکنی کمیٹی کو سونپی جائے گی جس میں تین حکومتی اور تین اپوزیشن کے نمائندے ہوں گے۔ اس طرح یہ تنازعہ کسی بڑی بدمزگی کا سبب نہیں بن سکا اور پولنگ میں کوئی خلل نہیں پڑا۔اصل مسئلہ سب جانتے ہیں کہ corrupt practicesکی روک تھام سے متعلق ہے جو آئینی ترمیم سے پہلے ختم نہیں ہوگا۔سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں پی ڈی ایم کو بظاہرعددی کثرت حاصل ہے،اگر ووٹرز سب کی نظروں سے چھپ کر مہر لگاتے وقت اپنی وفاداریاں تبدیل نہ کریں تو نتیجہ غیر متوقع نہیں نکل سکتا۔اس میں شک نہیں کہ سینیٹ چیئرمین کے الیکشن میں پی ڈی ایم دل کی گہرائیوں سے چاہتی ہے کہ corrupt practicesنہ ہوں۔لیکن آئین میں اپنی سمجھ مرضی کے مطابق حکومت کی مجوزہ ترمیم سے انکار کیا، بلکہ سپریم کورٹ نے ممکنہ درمیانہ راستہ نکالنے کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز سے براہ ست مشاورت بھی کی مگر پی ڈی ایم سیکرٹ بیلٹنگ سے دستبردار نہیں ہوئی۔چنانچہ اب پی ڈی ایم جتنا چاہے شور مچانا چاہے،مچائے مگرجو کچھ گزشتہ جو چار دہایؤں سے ہوتا چلا آیا ہے نئی آئینی ترمیم تک جاری رہے گا۔یہی وجہ ہے کہ 12مارچ کو کوئی نئی بات نہیں ہوئی، کوئی نیاواقعہ نمودار نہیں ہوا۔وہی پرانی روایت دہرائی گئی جو3مارچ کو یوسف رضا گیلانی کی کامیابی کی صورت میں دنیا نے دیکھی۔اور یہ روایت دو لخت ہونے کے بعد والے پاکستان کے عوام نے مارچ1977کے انتخابات سے آج تک تواتر اور تسلسل سے بار بار دیکھی ہے۔انتخابی دھاندلی کے نعروں کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو کوکوہالہ پل پر پھانسی دینے کے دعوے بھی کئے گئے۔ اورپھر واقعی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔اس کے بعد جمہوریت ایک معمہ بن گئی اورآج تک بنی ہوئی ہے۔اس دوران90ء میں پی پی پی کے خلاف اسلامی جمہوری اتحاد بنا اور اداروں نے اتحاد میں شامل سیاسی پارٹیوں میں رقم تقسیم کی۔ایئر مارشل اصغر خان نے اس غیرآئینی اقدام کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا، مقدمے کا مرکزی سوال یہ ہے:
”کیا اسلامی جمہوری اتحاد“ نامی سیاسی پلیٹ فارم بنانے کے لئے بعض سیاست دانوں کو بعض اداروں نے رقم فراہم کی تھی؟“
تین دہائیاں گزرنے کے باوجودیہ مقدمہ آج بھی ”زیر سماعت“ ہے۔جبکہ میڈیا اطلاعات کے مطابق تمام گواہان نے تسلیم کر لیا ہے کہ انہوں نے رقم وصول کی تھی۔ دینے والوں نے تقسیم کی گئی رقم کی تمام تفصیلات عدالت میں پیش کردیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں انتخابات کبھی بھی آزادانہ، قانون کے مطابق اور شفاف نہیں ہوئے۔مگرکہا جاتا ہے کہ عوام کی یادداشت کمزور ہوتی ہے اس لئے مذکورہ بالا واقعات کی یاد دہانی ضروری سمجھی گئی۔تازہ حالات عوام کی نظروں کے سامنے ہیں، کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اب ویڈیوز نے معاملہ سادہ بنا دیا ہے۔جرم ہوتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔خریدنے والا پریس کانفرنس بلا کر اعلان کرتا ہے کہ میں امیدوار کا بیٹا ہوں، خرید و فروخت میرا قانونی حق ہے۔پاکستانی سیاستدانوں کو بار بار یاد دلانا پڑتا ہے کہ پاکستان دنیا کا حصہ ہے، الگ تھلگ اور دور افتادہ جزیرہ نہیں کہ دنیا اس سے بے خبر ہے اور یہ دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہے۔ امریکی اور چینی حکمرانوں کی آمد سے آج تک ہردوسرے دن کسی ملک کا وزیر خارجہ، آرمی چیف یاوزیر تجارت آتا ہے یا پاکستان سے ان کے ہم پلہ بیرون ملک جاتے ہیں۔یہ آمد رفت با مقصد ہورہی ہے۔ماضی میں سیلاب آیاتھاتوترکی کی خاتون اول نے سیلاب زدگان کی مدد کے لئے اپنا گلے کاہار عطیہ کیا تھا،امید ہے آئند ہ سیلاب میں بھی آئیں گی، حسب توفیق عطیات دیتی رہیں گی۔ ان کی ہمدردی مصیبت میں گھرے لوگوں سے ہوتی ہے،آرام دہ زندگی بسر کرنے والے حکمرانوں سے نہیں ہوتی۔ نہ پہلے عطیہ کسی وزیر اعظم کودیا تھا نہ ہی آئندہ ایسا کریں گی۔کوئی وزیراعظم اسے ذاتی دوستی سمجھے تو تاریخ یہ خوش فہمی دور کر دیتی ہے۔ عرب حکمرانوں سے خاندانی دوستی کے دعوے بھی گزرے ماضی کا حصہ بن چکے۔تاریخ بے بنیاد خوش فہمیوں کو مسلسل بے نقاب کر رہی ہے۔ پاکستانی حکمران یہ حقیقت تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔ مگر تاریخ اپنافیصلہ سنا رہی ہے۔ہمسایہ ملک بھارت میں یہ فیصلہ انتہائی خاموشی سے سنایاگیا ہے،کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔پاکستان بھی دھیرے دھیرے، چپکے چپکے کسی ان دیکھی تبدیلی کی طرف بڑھ رہا ہے۔مفادات کی لڑائی پردے کے آگے اور پردے کے پیچھے لڑی جا رہی ہے۔سینیٹ کے اسٹیج پر کھیلا جانے والا ڈرامہ بھی اسکرپٹ کے بغیر نہیں کھیلا جا رہا۔ڈائیلاگ کی ادائیگی،چہرے کے تأثرات،لہجے کی گرج چمک دیکھ کر سیانے اندازہ لگا لیتے ہیں کہ ڈرامے کاانجام کیا ہوگا؟تماشائی سسپنس کا شکار نہ ہوں تو ماحول بے جان ہو جاتا ہے۔ماحول کا تقاضہ ہے کہ تالیاں بھی بجائیں جائیں ا ورمختصروقفوں سے جوتم پیزار بھی ہو۔سینیٹ کے انتخابات کے نتائج سامنے آ چکے۔صادق سنجرانی 48لے کر چیئرمین منتخب ہوگئے، حلف بھی اٹھالیا ہے۔ یوسف رضا گیلانی 42 ووٹ لے کرہار گئے۔ڈپٹی چیئرمین کے انتخابی عمل کے دوران مستردشدہ ووٹ بچا لئے گئے تو سینیٹر عبدالغفور حیدری کی جیت یقینی ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ کٹھ پتلی کی طرح دوسروں کے اشاروں پر ناچنا بند کیا جائے۔ یاد رہے اگر کسی خوش فہمی کاشکار ہوکر حکمرانوں اور اپوزیشن نے دانشمندی سے کام نہ لیاتو نئی نسل کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔حکمرانوں کو سمجھنا ہوگا کہ بھیک کتنے خوبصورت پیکٹ میں پیک کرکے کیوں نہ دی جائے محنت سے کمائی ہوئی روکھی سوکھی سے کمتر ہوتی ہے۔چین نے بھیک دے کر سنکیانگ کے کروڑوں عوام کو خط غربت سے نہیں نکلا۔اس خطے کی جی ڈی پی میں 200گنا اضافہ کیا ہے۔پاکستان کے غیور عوام بھی جی ڈی پی میں اضافے کی صلاحیت رکھتے ہیں،انہیں پیداواری عمل کا حصہ بنایا جائے، لنگر خانوں کا عادی بنانے کے منفی اثرات کا دھیا ن رہے۔چین نے افیون کے نشئی لوگوں کو کارآمد شہری بنایا۔بھیک افیون کے نشے سے زیادہ نقصان دہ ہے۔ 3کروڑ خاندانوں کو بھکاری نہ بنایاجائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں