گنتے ہیں اپنے آپ کو زندانیوں میں ہم

تحریر: راحت ملک
سینیٹ کے نصف ارکان کے انتخاب کا اگلہ مرحلہ نومنتخب سینیٹرز کی حلف برداری اور سینیٹ کے نئے چیئرمین وڈپٹی چیئرمین کے چناؤ کا ہے 12مارچ کا یہ مرحلہ بھی اختتام پذیر ہوجائے گا۔حکومتی امیدوار کا میاب ہونگے یا پی ڈی ایم؟یہ سوال انتخاب سے ایک دن قبل کی بحث کا نمایاں موضوع ہے جس کے جواب کے تین معیار ہوسکتے ہیں اول دو متحارب فریقین کی عددی حیثیت،دوئم آرزو مندانہ اور سوئم طاقت کے اشارہ ابرو سے پید ا ہونے والی صورتحال۔عددی حیثیت ملحوظ ہو تو پی ڈی ایم کے امیدواروں کی کامیابی کا امکان زیادہ ہے لیکن قومی اسمبلی کے حلقہ نیابت سے جناب گیلانی اور جناب شیخ کے درمیان بھی صورتحال واضح تھی اس تناظر میں جناب شیخ کی کامیابی کا امکان زیادہ تھا لیکن نتیجہ برعکس نکلا سرکاری حلقے جناب شیخ کی شکست کو ہارس ٹریڈنگ اور حکمران اتحادمیں نقب زنی قرار دیتے ہیں جبکہ پی ڈی ایم اپنی فتح کو سیاسی نااہلی کے بطن سے جنم لینے والے تلخ حقائق کے ادراک کی روشنی میں ضمیر کی آزادی کا مظہر سمجھتی ہے۔حکومتی حلقے آئین کے بر عکس اوپن ہینڈ کے ذریعے انتخاب کرانا چاہتے تھے تا کہ ان کی صفوں میں درآنے والی انحراف پسندی کاتدارک ہوسکے،اسے شفاف انتخاب کا دلکش نام دیا گیا تاہم بنیادی نقطہ جو پوری بحث سے خارج رہا وہ ان انتخابات کے لئے آئین میں تفویض کی گئی ضمیر کی آزادی کا استحقاق تھا۔جمہوری اصول ضمیر کی مستقل آزادی اور رائے دہندہ کو بے خوف اپنی رائے دینے کے لئے اسے دائمی طور پر منفی رکھنے کی حمایت کرتے تھے جبکہ کھلی رائے شماری پسند کرنے والے پارٹی کے نظم وضبط کی پاسداری اور شفافیت یقینی بنانے کی دلیل دیتے ہیں سیاسی جماعتوں کے ایکٹ میں ارکان پارلیمان کو پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے فیصلوں کا پابند بنایا گیا ہے جبکہ دفعہ226اور بنیادی انسانی حقوق کی دیگردفعات آزادیِ اظہار کی آزادی کو بے خوف وخطر بنانے کے لئے اسے مخفی رکھنے کا عندیہ دیتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک کی کوئی عدالت بھی کسی انتخاب میں شریک رائے دہندہ سے بعد ازاں یہ پوچھنے کا حق نہیں رکھتی کہ اس نے ووٹ کس کو دیا تھا؟جیسے صحافی سے کسی خبر کا ماخذ یا ذریعہ معلوم نہیں کیا جاسکتا اسی طرح انتخابی عمل میں شریک ووٹر کی رائے کامخفی رکھا جانا اس کے جان ومال وآبرو کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے ناگزیر ہے۔
12مارچ کے معرکہ میں بادی النظر میں دو متحارب فریق ہیں لیکن یہ مکمل سچ نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ ایک نادیدہ قوت بھی انتخابی معرکے میں سب سے طاقتور عنصر کے طور پر موجود وفعال ہے گزشتہ روز وفاقی وزیر داخلہ نے جناب صادق سنجرانی کو ”حکومت اور ریاست کا“مشترکہ امیدوار کہاگیا تھا تاہم وہ متفقہ کہنا بھول گئے یا شعوری طور پر اس سے گریز کیا ہو لیکن بحث کے لئے ایک پہلو حوالہ دے گئے کہ امیدوارمشترکہ تو بلا شبہ ہے لیکن شاید متفقہ ابھی تک نہیں۔چنانچہ کچھ امیدو یاس کی صورتحال والا معاملہ ہے جسے وزیر اطلاعات سید شبلی احمد نے دو ٹوک انداز میں بیان کردیا کہ ”حکومت اپنے امیدوار کی کامیابی کے لئے ہر حربہ آزمائے گی“۔جمہوری سیاست اور انتخاب میں کامیابی کے لئے کوششیں کرنے کی کسی بھی امیدوار کو کھلی آزادی تو کہیں بھی میسر نہیں اورنہ کوئی طاقتور امیدوار مخالف کو اغوا کر کے زبردستی دستبرداری پر مجبورکرنے کے حق کا دعویٰ کرسکتا ہے۔سیاست مکالمے اور تمدنی زندگی میں شائستہ طریقے سے تضاد اور اختلاف رائے حل کرنے کا نام ہے جس میں کسی فریق اور بالخصوص حکومتی امیدوار کو ہر حربہ آزما کر کامیابی حاصل کرنے کی کوئی گنجائش موجود نہیں اصول میں نہ شرح میں‘ قانون میں ہے نہ جنون میں۔
جب یہ سطور آپ تک پہنچیں گی انتخابی معرکہ سرہوچکا ہوگا اگر حکومت فتحیاب ہوئی تو وہ اپنی عددی قلت کے اکثریت میں بد لنے کو ضمیر کی آزادی اور امیدوار کی شخصیت کا کرشمہ قرار دے گی اور بھول جائے گی کہ 3مارچ کے انتخاب میں اپنی شکست کے اسباب میں اسی دلیل کو قبول کرنے پر آمادہ نہ تھی۔اگر پی ڈی ایم کے امیدوار ہار گئے تو وہ اس شکست کو ضمیر کی آزادی قرار دینے والے اپنے موقف سے رجوع کرلیں گے اور تیسری نادیدہ قوت کی مہربانی قرار دینگے جس کے لئے معروضی صورتحال اور تجربات تائیدی شہادت دینگے وجہ یہ ہے کہ ریاست کے طاقتور ادارے پر سیاسی آلودگی کے واقعاتی الزامات کی وجہ سے جنہیں جھٹلانا ممکن نہیں اس اہم ملکی محکمے کے وقار وعظمت واحترام کو متنازعہ بنادیاہے آج 11مارچ کو حافظ عبدالکریم نے مسلم لیگ کے قائدین کے ساتھ پریس کانفرنس میں طاقت کے دباؤ کا برملا الزام عائد کیا ہے بعید از قیاس نہیں کہ وہ آئندہ بوقت ضرورت ان پر دباؤ ڈالنے والے افسران کے نام بھی عوام کے ساتھ رکھ دیں بین السطور میں محکمہ کا نام تو وہ لے ہی چکے ہیں۔
کون بنے گا اگلا چیئرمین؟جیسے سوال کا ایک جواب جسے میں نے آرزو مندانہ کہا ہے وہ جواب دینے والے کی جماعتی سیاسی وابستگی سے جڑا ہوگا لیکن اس سوال کے جس جواب پر کسی کو معترض ہونے کا موقع نہیں مل سکتا وہ آئین کے مطابق ہوئے شفاف غیر جانبدارانہ منصفانہ انتخاب اور انتخابی عمل ہے شومئی قسمت یہ معتبرحوالہ سرے سے مفقود تر چلا ہے اگر الیکشن کمیشن اور عدلیہ فارن فنڈنگ کیس سمیت فیصل واؤڈا اور جناب قاسم سوری کے خلاف دائرہ انتخابی عذر داریوں کو منطقی انجام تک پہنچانے میں تساھل پسندی اختیار نہ کرتیں ان مقدامات کو التواء کا شکار نہ کرتیں تو کم از کم آج سیاسی عمل میں تقسیم،الزام تراشی اور درجہ حرارت میں وہ شدت موجود نہ رہتی جس نے پورے سماج کو پولیرائزیشن کا شکار کررکھا ہے۔
انتخاب کے نتیجے سے سیاسی اثرات کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ حکومتی امیدوار کی کامیابی،طاقت کے تعاون کی مرہون منت قرار دی جائے گی اگر پی ڈی ایم کے امیدوار کامیاب ہوئے تو اسے طاقت کے مرکز کی سیاسی انتخابی معرکہ آرائی سے ذرا سا فاصلہ اختیار کرنا سمجھا جائے گا علاوہ ازیں جناب گیلانی کی فتح اگر حکومت کیلئے ایوان بالا میں مشکلات کا باعث ہوگی تو ان کی شکست عوامی سیاسی مزاحمت کے لئے تقویت کا باعث بنے گی اور یہ پہلو بھی حکمران جماعت کے لئے سیاسی مشکلات لائے گا پہلی مشکل قانون سازی کے عمل میں ظاہر ہوگی تو دوسری میاں نواز شریف کے مزاحمتی سیاسی بیانیے کی مضبوطی کی صورت میں۔
13مارچ کا سورج سیاسی ارتعاش میں کمی لاتا ہے یا زیادتی۔اس کا فیصلہ12مارچ کی شام کو ہوجائے گا حالات پارلیمان کے اندر تبدیلی کے تصور کے گرد گھومتے ہیں یا عوامی سیاسی مزاحمت کے چاق پر۔اس کا انحصار سینیٹ کے انتخابی نتائج کردیں گے اور اس فیصلے میں اہم کردار طاقت کے مرکز کا ہوگا۔حکومت اور پی ڈی ایم اس کے فیصلوں کے غیر شعوری کردار ہونگے۔
سید عابد شاہ یاد آگئے
دیوارِ سخن باغ ہے چاروں طرف بلند
گنتے ہیں اپنے آپ کو زندانیوں میں ہم

اپنا تبصرہ بھیجیں