بلوچی لوگ

تحریر: رشید بلوچ
ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے اہل پنجاب کی زبان سے اپنا صحیح نام لکھا دیکھا نہ بولتے سنا، کسی دور میں بڑے جرائد اور اخبارات کو”قومی ذرائع ابلاغ“ کہا جاتا تھا اب خیر سے الیکٹرانک میڈیا آنے کے بعد اسے ”مین اسٹریم میڈیا“ بولا جاتا ہے، آپ اسے مین اسٹریم میڈیا کہیں یا قومی ذرائع ابلاغ،ان میں عجیب قسم کی ایک مخلوق آپ کو لکھتے اور بولتے دکھائی دے گا جسے عرف عام میں تجزیہ کار تجزیہ نگار،دانشور کہا جاتا ہے،اکثر ہمارے بلوچستان کے سیاستدان ہمیں اپنی“اوقات“ یاد دلانے کیلئے ان نمونہ ٹائپ“ہستیوں“کی مثالیں بھی دیتے رہتے ہیں،ان میں اکثریت ان لوگوں کی جنہوں نے عمران خان جیسے عیش و عشرت کی زندگی گزارنے والے نازک اندام شخص کو انقلابی لیڈر گردانا، چی گویرا،ماؤزے تنگ اور نیلسن منڈیلا جیسوں کی قبر پر لات مار کر پاکستان پر مسلط کرنے میں بڑا اہم کردار ادا کیا جب عمران خان وزیر اعظم بنے،ناکام ہوئے،ڈیلیور نہ کر سکے تو انہی“دانشور”مافیا نے خود پر لعنت بھیج کر اپنی کہی ہوئی“دانشمندی“ چاٹ لی۔
ایک دانشور کالم نگار صاحب نے ایک“ قومی“ اخبار میں چند سال قبل لکھا تھا کہ اسلام آباد سے کراچی پہنچنے کے بعد ہم چند“دانشور“دوستوں نے طے کیا کہ کراچی سے گوادر ٹہلتے ٹہلتے چلے جائیں گے،جب عازم سفر ہوئے تو پتہ چلا کہ گوادر کا کراچی سے فاصلہ 12 گھنٹے کا ہے،یہ دانشور آپ کو بلوچستان کے محل وقوع پر اکثر“فلسفہ“ جھاڑتے ہوئے نظر آئیں گے،کوئی بعید نہیں کہ ان میں سے کوئی صاحب ایک دن بلوچستان کی جغرافیہ پر پوری کتاب لکھ بیٹھے،ایک اور صاحب 2018 کے عام انتخابات پر ایک“مین اسٹریم میڈیا“ میں بیٹھ کر”سیاسی تجزیہ“ پیش کر رہے تھے،ڈاکٹر مالک بلوچ کو نیشنل عوامی پارٹی اور محمود خان اچکزئی کو خیبر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کا سربراہ گردان کر منہ سے جھاگ اڑا رہے تھے جب کہ ساتھ بیٹھا اینکر پرسن دانشور کی مفید”معلومات“ پر ہش ہش کرکے اسے داد تحسین پیش کر رہا تھا،وفاقی دارالخلافہ میں کسی نجی محفل میں ایک صاحب تعارف کے بعد کہنے لگا فلاں اخبار میں کوئٹہ یاترا پر لکھا گیا میرا کالم آپ نے پڑھی ہے؟ میں نے نفی سر ہلا یا تو جھٹ سے جیب ٹٹول کر سیل فون نکالا اسکرین آن کرکے کہنے لگا یہ پڑھئیے! بادل نخواستہ پڑھ کر آداب مجلس کو ملحوظ خاطر لاکر کہنے لگا واہ بہت خوب!لیکن آپ نے کوئٹہ کی ترقی پر جو کچھ لکھا ہے ؟ زرغون روڈ کی جومنظر کشی کی ہے وہ اپنی جگہ درست کیا آپ نے کبھی سریاب روڈ،پشتون آباد یا کلی اسماعیل کا مٹر گشت کی ہے؟ اسکا جواب تھا نہیں۔۔! میں سمجھا یہ کسی سرکاری دورے پر کوئٹہ آیا ہوگا،پوچھنے پر میرا خیال صحیح ثابت ہوا،ایسی کہیں مثالیں ہیں جنکا ذکر کیا جائے تو ایک فربہ دستاویزی کتاب رقم کی جاسکتی ہے۔
میرا مدعا یہ نہیں یہ گوادر ٹہلتے ٹہلتے کیوں گئے تھے؟ میرا مسئلہ یہ بھی نہیں وہ زرغون روڈ کو کوئٹہ سمجھ بیٹھا ہے، نہ مجھے اسکے عوامی نیشنل پارٹی،خیبر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کہنے پر کوئی چیز بری لگی ہے،مجھے اعتراض یہ ہے کہ انہیں“بلوچ”اور“ بلوچی“ میں تمیز نہیں ہے یہ جب بھی منہ کھولتے ہیں تو انکی زبان سے“بلوچی عوام“ بلوچی لوگ“ بلوچی لیڈر کی آواز نکلتی ہے، از راہ ہمدردی جب یہ ہم سے کہتے ہیں کہ“بلوچی عوام“ پر بہت ظلم ہورہا ہے تو انکا یہ لفظ کانٹے کی طرح سیدھا دل میں چھب جاتا ہے،اس وقت بس نہیں چلتا ورنہ گھما کر دے مارتے تاکہ بتیسی نکل کر زمین پر بکھر جاتی۔
روزنامہ جنگ 13مارچ 2021کی اشاعت میں ڈاکٹر مجاہد منصوری نام کے کالم نگار صاحب نے ”بعنوان“ سیاسی دھما چوکڑی پر بلوچی رہنماؤں کی تشویش“ کے نام پر ایک کالم لکھا آپ کالم کے عنوان سے اندازہ لگا لیں کہ انکی دانشمندی کس پایہ کی ہوگی؟ کالم میں پڑھنے لائق کچھ بھی نہیں سوائے اسکے کہ انہوں نے نواب غوث بخش باروزئی کو“ بلوچی“ رہنما لکھ کر لاہور میں ہونے والے ایک کھانے کا ذکر کیا ہے،روزنامہ جنگ کے ادارتی پیج کے سربراہ”یہ کھلا تضاد نہیں“ سے مشہور سہیل وڑائچ صاحب ہیں لامحالہ یہ مضمون ان کے نظر سے بھی گزری ہوگی،اسکے بعد یہ کالم پروف ریڈر کے ریڈار سے بھی گزار ہوگا لیکن مجال ہے کہ ان کی دانست نے “بلوچی“ کے“ی“ کو حذف کرکے اسے بلوچ کرنے کی تصحیح کی ہو۔
آخر میں ایک قصہ یاد آیا، جنگل کے بیچوں بیچ سڑک پار کرتے ہوئے شیر کی نظر ایک بڑے سے سائن بورڈ پر پڑی جس میں گردن سے رسی بندھی ہوئی ایک شیر کو بچہ ہانک کر لے جارہا ہے شیر نے کف افسوس ملتے ہوئے کہا کیا،کیا جائے کینوس کسی گدھے کے ہاتھ لگی ہوگی۔
”مین اسٹریم میڈیا“ ٹہلنے والے دانشوروں کے قبضے میں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں