بھیانک انجام

تحریر: انورساجدی
اس وقت دنیا میں ڈھنگ کے 190ملک ہیں جبکہ دو درجن کے قریب چھوٹے چھوٹے سے ملک بھی اقوام متحدہ کے رکن ہیں ایک عالمی ادارہ نے قراردیا ہے کہ یورپی ملک لگسمبرگ کا پاسپورٹ سب سے طاقتور ہے اس ملک کے باشندوں کودنیا کے بیشتر ممالک میں جانے کیلئے ویزہ کی ضرورت نہیں ہے بدقسمتی سے پاکستان کے پاسپورٹ کا نمبر آخری ہے یعنی وہ191نمبر پر ہے جبکہ پاکستان سے علیحدگی اختیار کرنے والے بنگلہ دیش کانمبر177واں اور انڈیا کا164واں ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ قوموں کی برادری میں پاکستان کا کیا مقام ہے پستی کی انتہا تک پہنچنے میں اس ریاست کو 70سال لگے ہیں اگردیکھا جائے تو معاشی اعتبار سے بھی پاکستان آخری چند پسماندہ اور نیم مہذب ممالک میں شامل ہے حالانکہ بظاہر یہ ساتواں بڑا ایٹمی ملک ہے کروڑوں ایکڑ قابل کاشت زمین ہے بہترین دریا اور نہری نظام موجود ہے لیکن بدانتظامی اور کرپشن کا یہ عالم ہے کہ گزشتہ دو برسوں سے یہ بڑا زرعی ملک گندم،چینی اور کپاس مہنگے داموں دیگر ممالک سے منگوارہا ہے حتیٰ کہ دالوں کی بھی قلت ہے سردست چاول واحد جنس ہے جس میں یہ ریاست خود کفیل ہے اگریہی حال رہا تو تحریک انصاف کی حکومت کے دوران ہی چاول بھی تھائی لینڈ اور ویٹ نام سے درآمد کرنا پڑے گا۔
سیاسی تنزلی کاآغاز توقیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں اس وقت شروع ہوا تھا جب پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان نے غیر قانونی دستور ساز اسمبلی سے قرارداد مقاصد منظور کروائی تھی یہی قرارداد1956ء اور1973ء کے دستور کی اساس ہے جس میں پاکستان کواسلامی مملکت قراردیا گیا ہے یہ دنیا کی واحد یا اکلوتی اسلامی ریاست ہے۔
قرارداد مقاصد کی منظوری کے بعد سے ریاست میں اقلیتوں کیلئے حالات سازگار نہیں ہیں بدقسمتی سے پاکستان میں اقلیت سے مراد کمی کمین اور تھرڈ کلاس شہری لی جاتی ہے ایک اسلامی مملکت میں اقلیت زمی ہوتی ہے جو اپنی جان ومال کے تحفظ کیلئے ریاست کو جزیہ یا ٹیکس دینے کاپابند ہے اگرچہ1973ء کے آئین میں ملک کے تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے۔لیکن زمین پرایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا اقلیتوں کے ساتھ سماج میں بدترین سلوک ہوتا ہے اور انہیں کمترحیثیت کاحامل سمجھاجاتا ہے انکے ساتھ اب تک جتنے مظالم ہوئے ہیں ان کا کوئی شمار نہیں لیکن صوبہ سندھ کی سب سے بری حالت ہے حالانکہ یہاں جو ہندورہتے ہیں وہ بنیادی طور پر سندھ دھرتی کے ”آدی واسی“ یا فرزند زمین ہیں لیکن ضیاء الحق نے جس عفریت کو پروان چڑھایا اس کے بعد سے کمسن ہندولڑکیوں کا اغواء اور ان سے زبردستی شادی معمول بن چکی ہے۔
اس سلسلے میں ”میاں مٹھو“ عالمی شہرت حاصل کرچکے ہیں ان کا اسم گرامی خوف کی علامت بن چکا ہے اپرسندھ کے وسیع علاقے میں میاں مٹھو کے چیلے سینکڑوں لڑکیوں کو اغوا کرکے ان کا مذہب تبدیل کرواچکے ہیں تقریباً یہی صورتحال تھر میں ہے وہاں پر تھرکول کمپنی کے قیام کے بعد باہر کے لوگوں کے نقل وحمل میں بہت اضافہ ہوچکا ہے حتیٰ کہ یہاں پرلشکرطیبہ کے اسیر رہنما حافظ سعید کو ایک مدرسہ کھولنے کی اجازت بھی دی گئی تھی حالانکہ یہاں کی آبادی کی اکثریت ہندو ہے تو قبلہ حافظ صاحب کے مدرسہ کی چنداں ضرورت نہیں تھی چونکہ گزشتہ کئی ادوار میں حافظ صاحب قومی اثاثہ رہ چکے ہیں اس لئے انہوں نے کشمیر کے علاوہ دیگرحساس علاقوں میں اپنے اثرات قائم کئے حالانکہ ان کا بنیادی مقصد جہاد کے ذریعے کشمیری کوآزاد کرنا تھا دیگرعلاقوں تک انکو رسائی دینا غالباً تذدیراتی اہمیت کا حامل تھا۔
ضیاء الحق نے جو یک طرفہ اقدامات کئے یا سماج میں جنوں کے جو بیج بوئے اس کی وجہ سے ہزاروں بلکہ لاکھوں اقلیتی افراد دیگر ممالک کی جانب سے نقل مکانی کرگئے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔
ضیاء الحق جن کے خاندان کا خود تعلق ایک اقلیتی گروہ سے تھا جب وہ راسخ العقیدہ مسلمان بن گئے تو انہوں نے1973ء کے آئین میں بنیادی ردوبدل کیا اور بنیادی حقوق کے کئی حصے تبدیل کردیئے ان کا زورجہاد اور بنیاد پرستی پر تھا اسی جذبہ کے تحت انہوں نے افغان جہاد شروع کردیا جو تاحال جاری ہے اور نہ جانے کب تک جاری رہے اس جہاد نے جہاں افغانستان کو بری طرح تاراج کردیا وہیں خود پاکستان کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈال دیا 1980ء سے اب تک پاکستان کو کھربوں ڈالر کا خسارہ ہوا ہے جو تھمنے کا نام نہیں لیتا البتہ افغان جہاد کے ذریعے ان کے چند ساتھیوں نے اربوں ڈالر کمائے جبکہ ریاست سراسر خسارہ میں رہی ان کے والد اکبر علی جب مسلمان ہوئے تو انہوں نے بریلوی مکتبہ فکر اختیار کیا تھا لیکن ضیاء الحق نے جہاد میں آنے والے ”پیٹروڈالرز“ کی وجہ سے سلفی مسلک اختیار کرلیا تھا اس کے باوجود وہ اپنے ہر فنکشن سے پہلے حمد اور نعت ضرور پڑھواتے تھے وہ موقع ملتے ہی صابری برادران سے قوالی ضرور سنتے تھے انکے 11سالہ اقتدار میں ایک صاحب ہرفنکشن سے پہلے
یہ تیرا کرم ہے آقا
کہ بات ہے اب تک بنی ہوئی
ضرورسناتے تھے
ضیاء الحق زکوٰۃ کانفرنس کے نام پر ملک بھر کے چھوٹے چھوٹے ملاصاحبان کواکٹھا کرتے تھے جو رفتہ رفتہ ان کا حلقہ بن گیا انہی کے ذریعے انہوں نے پوری معاشرت تبدیل کرلی انہوں نے توہین رسالتؐ کا قانون نافذ کیا جس کے بعد کفر کے فتوے اور مخالفین کا قتل عام شروع ہوا جو ابھی تک جاری ہے موصوف اسلامی نظام یا نظام مصطفی کا نعرہ لیکر آئے تھے جو ان کی موت تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا لیکن بھارت کے انتہا پسند ہندوؤں کو یہ موقع ضرور ملا کہ وہ اپنے ملک میں ہندومت کا نعرہ بلند کریں بھارتیہ جتنا پارٹی ضیاء الحق کی وجہ سے فعال ہوئی اور اس نے اندراگاندھی کو شکست دے کر کانگریس کا طویل اقتدار ختم کردیا بی جے پی کو تمام ہندوانتہا پسند مہاسبھائی گروہوں کی حمایت حاصل ہے انہی میں سے ایک شخص نتھورام گوڑسے نے دنیا میں عدم تشدد تحریک کے بانی مہاتماگاندھی کوقتل کردیا تھا آج بھارت کا جمہوری اور آئینی چہرہ مسخ ہوچکا ہے نہرواور گاندھی نے جو سیکولرنظام رائج کیا تھا اسے اڈوانی اور مودی نے دفن کردیا ہے آج بھارت میں مسلمانوں سمیت اقلیتوں کا بہت براحال ہے ہندواکثریت مسلمانوں کو ملیچ کمی کمین سمجھتی ہے جبکہ آئین میں مسلمانوں کو شیڈول کاسٹ کی فہرست میں شامل کردیا گیا ہے اگریہ کہاجائے کہ یہ سب کچھ ضیاء الحق کا کمال ہے تو بے جانہ ہوگا؟آج مودی کو ہندوتوا کانعرہ لگانے سے کون روک سکتا ہے؟ اور 20کروڑ مسلمانوں کو نفرت، ظلم وجبر سے کون بچاسکتا ہے ضیاء الحق نے جہاد پرجتنا زوردیا نتیجہ اس کے برعکس نکلا وہ نہ کشمیر کو آزاد کرواسکے اور نہ خالصتان بنواسکے افغانستان کو دائمی تباہی میں دھکیل دیا جہادکے علمبردار سے1981ء میں سیاچن گلشیئر نکل گیا جبکہ1998ء میں انکے شاگرد سید پرویز مشرف الدین احمد کے دور میں بھارت نے کارگل پرقبضہ کرلیا۔
ضیاء الحق نے نظریہ پاکستان اور نظریہ اسلامپر بہت زور دیا انہی کو بنیاد بناکر انہوں نے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹے انہوں نے ایوب خان دور کے جعلی نصاب اور جعلی تاریخ کو مزید مسخ کردیا۔ایوب خان اور ضیاء الحق نے برصغیر کی نئی مگرجعلی تاریخ لکھوائی اور تعلیمی اداروں میں رائج کی آج معاشرے میں جو انتہا پسندی ہے یہ انہی کا شاخسانہ ہے ایوب خان نے1965ء کی جنگ لڑی جو ہارجیت کے بغیر ختم ہوگئی لیکن نصابوں میں لکھا ہے کہ پاکستان نے اس جنگ میں فتح حاصل کی تھی اس مائنڈسیٹ کے لوگ 1971ء کی جنگ کا بھولے سے بھی ذکر نہیں کرتے اور نئی نسل کو نہیں بتاتے کہ سقوط ڈھاکہ کے اسباب وعوامل کیاتھے۔
چونکہ اس وقت ایوب خان یحییٰ خان اور ضیاء الحق کی باقیات کی حکومت ہے اس لئے انہوں نے بھی غداری اور حب الوطنی کے سرٹیفکیٹ بانٹنے کی فیکٹریاں چالو کردی ہے۔
چندروز قبل ایک ٹی وی پروگرام کے دوران ن لیگ کے رہنما جاوید لطیف نے کہا تھا کہ اگر بے نظیر کے قتل کے بعد زرداری کی جگہ ہم ہوتے تو ہم کبھی”پاکستان کھپے“ کا نعرہ نہ لگاتے اس پر آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ میاں جاوید لطیف کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیاجائے کوئی نہیں پوچھتا کہ جن لوگوں نے ملک توڑا ان کیخلاف کیا کارروائی ہوئی؟حمود الرحمن کمیشن کی رپورٹ سات غلافوں میں کیوں بند ہے۔جنرل پرویز مشرف کو اس ملک کی اعلیٰ عدالت نے آئین شکنی کے الزام میں غداری کی دفعات کے تحت سزا سنائی لیکن ریاست اس کیخلاف کارروائی سے کیوں گریزاں ہے مشرف آج تک کسی بھی عدالت میں پیش نہیں ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مرحوم وقار سیٹھ نے جو فیصلہ دیا وہ تاریخ میں رقم رہے گی لیکن اس پر عمل درآمد کی نوبت نہیں آئے گی۔
جنرل ضیاء الحق کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اقتدار پردائمی قبضے کی بنیاد رکھی یہ سیاست سیاستدان اراکین پارلیمنٹ سارے کے ساتھ ”شوبوائے ہیں“ 77سے اب تک کسی بھی الیکشن کے نتیجے میں اقتدار یااختیار کبھی منتقل نہیں ہوا۔
مقام عبرت ہے کہ جب ایوب خان محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں الیکشن ہاررہے تھے تو انکے ایجنٹوں نے محترمہ کے بیلٹ پیپروں پرڈبل نشان لگائے تھے وہ طریقہ آج بھی رائج ہے اور اس کے ذریعے یوسف رضا گیلانی کو شکست سے دوچار کیا گیا۔
ایسا لگتا ہے کہ پاکستان آج کماؤ آج ہی کھاؤ والے فارمولہ کے تحت چل رہا ہے اتنا بڑا ملک آئین کی بالادستی اورمضبوط سیاسی نظام کے بغیر کیسے چل سکتا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اسے دانستہ ناکام ریاست کی طرف دھکیلا جارہاہے۔
یہ جعلی نصاب جعلی تاریخ ربراسٹیمپ اسمبلیاں شاہ دولہ کے چوہے جیسے سیاستدان اوراقتدار پر قابض ایک خاص ٹولہ معلوم نہیں یہ کیاچاہتے ہیں جو بھی چاہتے ہوں بہرحال ریاست کا دوام استحکام اور خوشحالی نہیں چاہتے۔
انکے ناکام تجربات کاآخر کار کوئی بھیانک نتیجہ نکلے گا ایسا نتیجہ جس کا کبھی مداوا نہیں ہوسکے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں