سینیٹ انتخابات،اعداد کا کھیل اور عدد کی جیت

تحریر: راحت ملک
جناب مظفر علی شاہ نے سینیٹ چیئرمین کے انتخاب پر اٹھنے والے تنازعہ پر وضاحت فرماتے ہوئے اپنی رولنگ کی توضیح ودفاع کرنے میں حقائق سے تجاوز کیا ہے۔
شاہ صاحب سینیٹ نے چیئرمین وڈپٹی چیئرمین کے انتخاب کے لئے پریذائیڈنگ افسر کے فرائض انجام دیئے تھے جنہیں صدر مملکت نے اس مقصد کے لئے تعینات کیا تھا۔ آج انہوں نے اپنی دی گئی رولنگ کے درست ہونے کا دفاع کیا اور حزب اختلاف کے الزامات رد کئے۔ان کا کہنا تھا کہ
” پارلیمان کی کارروائی اور ان کی رولنگ کو عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا "۔یاد رہے کہ ووٹوں کی گنتی کے دوران جب انہوں نے جناب گیلانی کے سات ووٹ علیحدہ کرتے ہوئے ابتدائی رولنگ میں انہیں مشکوک قرار دیا تھا۔تو جناب گیلانی کے پولنگ ایجنٹ جناب فاروق ایچ نائیک ایڈووکیٹ کے دلائل کے دوران مداخلت کی اور جواباً کہا تھا کہ آپ کو میری رولنگ سے اختلاف ہے تو "آپ الیکشن ٹربیونل یا عدلیہ سے رجوع کرسکتے ہیں ” مگر 13مارچ یعنی اپنے فیصلے کے چوبیس گھنٹے بعدا نہوں نے اپنے موقف یا حکم سے رجوع کرلیا ہے اس طرح انہوں نے بطور پریذائیڈنگ افسر اپنی جانبداری پر تصدیق ثبت کردی ہے۔
قومی اسمبلی کے حلقہ نیابت سے جناب گیلانی سات ووٹ لے کر جیتے مگر چیئرمین سینیٹ کے انتخابات میں سات ووٹوں کے استرداد کی بنیاد پر ہار گئے۔قومی اسمبلی میں حکومت کی خاتون امیدوار جناب شیخ کے بر عکس دس ووٹوں کی برتری سے فتحیاب ہوئیں اسی طرح ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں بھی سرکاری امیدوار کو دس ووٹوں کی برتری حاصل رہی۔اعداد کی یہ مماثلت محض ااتفافی امر ہے یا اس کے پس پردہ بھی طاقت اور روحانیت کی جادو گیری ہے؟
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جناب گیلانی کی ناکامی کو دو مختلف زاویں سے پرکھا جارہا ہے ایک حلقہ سمجھتا ہے کہ خلائی مخلوق کے دباؤ وکرشماتی کردار کے نیتجے میں جناب گیلانی کے سات ووٹ مسترد کرائے گئے یا پی ڈی ای۔ کے ارکان نے بوجوہ اپنے ووٹ ضائع کرایے۔ان کے مطابق مسترد ہونے والے ووٹ،ووٹروں کے ساتھ ” کسی طے شدہ معاملے کا آئینہ دار ہے”۔ایسی حکمت عملی پی ڈی ایم کے اندر پائے جانے والے مبینہ داخلی اختلاف کا شاخسانہ ہے یا پھر ان کا کمال ہے جو حتمی فیصلے طے کرتے مگر دکھائی نہیں دیتے۔
بحث طلب پہلو جو متذکرہ صدر معروضات میں توجہ سے اوجھل ہوا جاتا ہے یہ ہے کہ کیا مسترد ہونے والے ووٹ درحقیقت قانونی اعتبار سے فی الواقع لائق استرداد تھے۔؟ یا پریذائیڈنگ افسر کی رولنگ کی بنیاد پر مسترد ہوئے ہیں؟ کیونکہ انتخابی عمل شروع ہونے سے قبل بتائے گئے طریقہ کار اور ہال میں آویزاں ہدایت نامے کے مطابق ووٹر کو پابند کیا گیا تھا کہ وہ اپنی پسند کے امیدوار کے مربع خانے کے اندر مہر ثبت کرسکتاہے۔بیلٹ پیپر پر دو امیدواروں کے نام درج تھے اور ناموں کے سامنے خالی جگہ تھی ایک امیدوار کے نام کے بعد اس کے مختص شدہ حصے کے بعد دوسرے امیدوار سے الگ نیچے ویسا ہی مستطیل سا مربع بنا ہوا تھا۔بیلٹ پیپر کی بالائی سطر میں اردو میں امیدوار کے نام کی سرخی لکھی تھی اور اس کے مقابل انگریزی میں Name or Candidateلکھا ہوا تھا لیکن انگریزی میں لکھی ذیلی سرخی کے نیچے انگریزی میں امیدوار کا نام درج نہیں تھے اگر یہاں بھی انگریزی میں نام لکھے ہوتے تو جناب مظفر حسین شاہ کی رولنگ کے مطابق مہر ثبت کرنے کے لئے بیلٹ پیپر مہر کیلیے جگہ ہی موجود نہیں تھی۔قیاس کرتے ہیں کہ اگر انگریزی میں بھی امیدواروں کے نام لکھے ہویے ہوتے تو پھر مہر ہر صورت امیدوار کے نام پر ہی لگتی کیونکہ یہاں انتخابی نشان تو تھا نہیں۔ دریں حالات مہر ہر صورت نام پر ہی لگائی جاتی چنانچہ اردو میں امیدوار کے نام کے آگے موجود خالی جگہ پر امیدوار کا نام انگریزی میں لکھا تصور کیا جایے جو نظر نہیں آ رہا تھا مگر اوپر لکھی عبارت جو بتاتی ہے پیپر کے اس جانب امیدوار کا انگریزی مر نام لکھا ہوگا تو بیلٹ کے پورے مربع کی شناحت کا سارا انحصار اسکے نام پر ہی ہوگا تو ووٹر کی رایے کا پتہ امیدار کے نام پر لگی مہر سے اخذ ہو گا چاھے انگریزی میں نام لکھنے والی مختص جگہ خالی ہی کیوں نہ ہو۔
سیکرٹری سینیٹ سیکرٹریٹ کی ویڈیو جس میں وہ ووٹ استعمال کے بارے طریقہ کار بتارہے ہیں بلاصرار کہا گیا کہ امیدوار والے خانے میں مہر لگائی جائے نام پر یا خالی جگہ پر‘ آویزاں شدہ ہدایت نامہ میں بھی امیدوار کے مختص شدہ خانے میں مہر ثبت کرنے کی ہدایت موجود ہے۔لہذا پریذائیڈنگ افسر کی رولنگ واضح طور پر اصول وضوابط کے منافی ہے اور ان کا رولنگ کے بعد اگلے روز یہ اصرار کہ” پارلیمان کی کارروائی کو عدالت میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا ” معقول استدلال سے عاری بات ہے۔اول تو پارلیمان کی کارروائی،قانون سازی پر مشتمل عمل ہے یا پھر ایوان میں زیر بحث کسی سوال یا مسئلہ پر ارکان کی آرا ہوتی ہیں یادبرہے کہ پارلیمان کی کارروائی کبھی بھی پریذائیڈنگ افسر کی صدارت میں نہیں ہوتی۔پارلیمان کے ایسے اجلاس کی کاروائی جسے کسی عدالت میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا۔چیئرمین وڈپٹی چیئرمین یا رواں اجلاس کے لئے عارضی طور پر طے شدہ پینل آف چیئرمین / سپیکر می سے کوئی موجود رکن اجلاس کی صدارت کرتا ہے یہی طریقہ قومی وصوبائی اسمبلیوں کے لئے مقرر ہے۔ہاؤس کے اندر سپیکر / چیئرمین کا انتخاب سابق سپیکر (آگر وہ خود امیدوار نہ ہو) تو پریذائیڈنگ افسر کی نگرانی میں ہوتا ہے اس انتخاب کے فوری بعد نو منتخب چیئرمین یا سپیکر اپنے عہدے کا حلف اٹھا کر ایوان کی مزید کارروائی چلاتا ہے اس پس منظر میں پریذائیڈنگ افسر کی نگرانی میں ہونیوالے انتخابی عمل کو اصطلاحی طور پارلیمان کی کارروائی قرار نہیں دیا جاسکتا۔حتمی دلیل یہ ہے جب متعلقہ ہاؤس کا سربراہ (چئیرر یا سپیکر) نوجود نہ ہوتو ایوان ہی نامکمل ہوتا اور ادھور ے یا نا مکمل ایوان میں میں ہوئی کسی سرگرمی اقدام کو کاروائی کے زمرے میں شمارنہیں کیا جاسکتا۔
جب آئین میں بھی عدلیہ کو پارلیمان کے منظور کردہ قانون یا آئینی ترمیم کی قانونی حیثیت یا دو مختلف دفعات میں پایے جانے والے ابہام و اختلاف کا جو متضاد الخیال ہوں کے جائزہ کا اختیار موجود ہے یہی اختیار ایوان کے اندر ہونے والے کسی رسمی کام یا پریزائڈنگ کی رولنگ پر جائزے کی سماعت پر قدغن کی کی دلیل رد کرنے کے لیے ٹھوس قانون نقطہ ہے۔عدلیہ اگر میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد ان کے پارٹی قئد رہنے کے لئے پولیٹیکل پارٹی ایکٹ میں کثرت رائے سے کی گئی ترمیم منسوخ کرسکتی ہے تو پھر پریذائیڈنگ افسر کی رولنگ میں پائے جائے ابہام یا غلطی کی بذریعہ سماعت تصیح کیونکر نہیں کرسکتی؟ کیا پریزائیڈنگ افسر کی رولنگ آئین و قانون سے بالاتر ہوتی ہے؟ بالخوص اس میں قانونی سقم کی موجودگی کا واضع امکان بھی موجود ہو؟
میاں نواز شریف کی پارٹی صدارت کے متعلق عدالتی فیصلے کا حوالہ محض عدالتی دائرہ سماعت کے طور پر سطور نظر پیش کررہا ہے متذکرہ صدر فیصلے کے متعلق میر ی رائے مختلف اور ریکارڈ پر جگہ موجود ہے۔
مختلف انداز سے بھی پارلیمان کے اندر ہونے والی سرگرمی اور عدالتی یا قانونی کارروائی کے سوال پر بحث کے لئے قیاس آرائی کرجاسکتی ہے۔
بالفرض کسی بھی پارلیمانی ایوان میں دوران کارروائی دو ارکان کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوجائے اور خدا نا خواستہ معاملہ ہاتھا پائی سے آگے بڑھے ایک رکن دوسرے کو کسی بھی ذریعے سے زخمی کردے تو کیا۔اس اقدام کو پارلیمان میں ہونے والی کارروائی کہہ کر قانونی چارہ جوئی سے استثنیٰ دینا معقولیت کے زمرے میں آئے گا؟۔
معزز عدلیہ کو اس انتخابی عمل کے دوران بتائے گئے اور آویزاں شدہ طریقہ کار پر عمل پیرائی کو غلط قرار دینے والا رولنگ اور ووٹ مسترد کرنے سے متعلق پریذائیڈنگ افسر کی رولنگ اور اسکی قانونی ساکھ جواز۔ مابعد ثرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے ضوابط کار اور عمل کے درمیان درآنے والے تضاد کا کاحل قانون کی بہتریں۔معقول اور مجاز تشریح۔ حاصل شدہ آئینی اختیار کے تحت کرنی چایے تاکہ ایوان بالا میں مسلسل کشیدگی کا باعث بننے والے اس واقعہ کے منفی اثرات کا سدباب ہوسکے۔
جناب صادق سنجرانی دوسری بار سینیٹ کے چیئرمین ”منتخب“ہوئے ہیں انہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔کہا جارہا ہے کہ اس”انتخاب“ سے بلوچستان کی سیاسی صورتحال پر مثبت اثرات مرتب ہونگے۔شاید یہ مفروضہ ستائشی خیال پرستی کا مظہر ہے۔مختصر عرصہ کے لئے سہی جناب ظفر اللہ جمالی (مرحوم)ملک کے وزیراعظم مقرر ہوئے تھے۔کیا ان کے دور حکومت میں بلوچستان کے مافیے۔ صوبے کے سیاسی سوالات اور برسوں کی بحرانی کیفیت کے خاتمے یا عوامی امنگوں کی تکمیل کی طرف کوئی مفید المعنی پیشرفت ہوئی تھی؟اس کا جواب نفی میں ہے۔ جناب صادق سنجرانی تین سال سے اسی عہدہ جلیلہ پر فائز رہے ہیں کیا اس دوران صوبے کے دیرینہ سیاسی بحرانی سوالات حل ہوسکے؟ نہیں۔۔۔ کیوں؟
کیونکہ مذکورہ مسائل سطحی لیپا پوتی کے برعکس حقیقی اقدامات کے متقاضی ہیں۔ بلوچستان کے پیچیدہ دیرینہ مسائل اور حالیہ ناگفتہ بہ صورتحال میں بہتری کیلئے کچھ افراد کو بڑے بڑے عہدے دینے کی بجائے بلوچستان کو وفاق پاکستان کی ایک مساوی حقیقی اکائی کے طور پر مرکزی مقتدرہ یا فیصلہ سازی کے دھارے میں مکمل طور پر شراکت کا حق دینا چاہے تو معاملات سدھر سکتے ہیں۔ اور اس کے کیے ایک عمدہ وقابل قبول عمل یہ ہوسکتا ہے کہ ایوان بالا کو ملک کا مرکزی ومحوری فیصلہ کن پارلیمانی ایوان بنایا جائے اس کے اختیارات قومی اسمبلی کے مقابلے میں زیادہ ہونے چاہیں یا انہیں مساوی بنیا جائے۔بجٹ کی منظوری اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری فوج اور دیگر ملکی اداروں کے سربراہوں کی تعیناتی میں سینیٹ آف پاکستان کو بااختیار بنایا جائے جہاں ملک کی تمام وفاقی اکائیوں کی مساوی(متناسب نہیں متوازن)نمائندگی ہے۔قومی سلامتی دفاع خارجہ امور عالمی تجارت اور تمام بین الاقوامی دو طرفہ معاہدوں کی حتمی توثیق کا استحقاق سینیٹ آف پاکستان کو تفویض کیجئے۔یقین رکھیے اس طرف عملی اقدام سے اعلیٰ مگر نمائشی عہدوں پر اہل بلوچستان می سے کسی کی تقرری کی ضرورت و خواہش ہی نہ رہے۔ تاہم اس مفروضے کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ صوبے کو مرکزی اقتدارواختیار کے دائرے سے باہر کردیا جائے۔یہاں ایک ضمنی مطالبہ نما سوال کی اجازت بھی چاہونگا۔چیئرمین سینٹ کی بجائے اگر بلوچستان سے کسی اہل باصلاحیت فرد کو سی پیک اتھارٹی کا چیئرمین بنا لیا جائے تو کیا پاکستان کے مفادات کو فائدہ نہیں ہوگا؟یا اس عمل سے۔مطمئن و آسودہ حال بلوچستان،رواں کشیدگی کے پیچیدہ تر گھمبیر بحران سے نکلنے کی طرف تیز رفتاری سے آگے نہیں بڑھے گا؟
(تصحیح۔گذشتہ کالم میں شعر کے ساتھ شاعر کے نام میں سہو ہوا یہ شعر جناب سید عابد علی عابد کا ہے جبکہ غلطی سے سید عابد شاہ لکھا گیا جس کے لئے معذرت)

اپنا تبصرہ بھیجیں