سیاست میں تشدد کا رجحان

تحریر: رشید بلوچ
ایک عمومی رائے پائی جاتی ہے کہ پاکستانی سیاست میں تحریک انصاف نے گالم گلوچ، عدم برداشت کی داغ بیل رکھی ہے حالانکہ پاکستانی سیاست میں تشدد اور مخالفین کو بزور قوت زیر کرنے کا سلسلہ بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا تھا،جب کہ سیاست میں غیر مہذب و غیر شائستہ رویے کی بنیاد 80کی دہائی میں مسلم لیگ ن نے شروع کی تھی،اس وقت مسلم لیگ ن جنرل ضیا کے زیر سایہ پھل پھول رہا تھی، رفتہ رفتہ سیاسی جماعتوں میں یہ رواج بڑھنے لگا، 2007کو بے نظیر بھٹو کی راولپنڈی میں شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت زرداری خاندان کو منتقل ہوئی تو تشدد کا پہلا نشانہ بے نظیر بھٹو کی سندھ میں بد ترین مخالف ارباب غلام رحیم بنے،بے نظیر بھٹو کی دوران جلاوطنی ارباب غلام رحیم کی پشت پرجنرل پرویز مشرف کامضبوط مکا ہو ا کرتا تھا،ارباب غلام رحیم سندھ کے وزیر اعلیٰ تھے اپنی وفاداری مزید پختہ کرنے کیلئے بے نظیر مخالفت میں کبھی کبھی اپنی حد بھی پلانگ جاتے تھے جسکا رنج لا محالہ جیالوں کے دل میں پل رہا تھا،2008کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار حاصل کر چکی تھی،ارباب غلام رحیم بھی اپنے حلقے سے منتخب ہوئے تھے،ارباب حلف برادری کیلئے سندھ اسمبلی پہنچے تو پیپلز پارٹی کے جیالوں نے انکے منہ پر کالک مل دی ساتھ میں انکی جوتوں سے پٹائی بھی کردی،چونکہ بلوچستان میں بھی پیپلز پارٹی کو حکومت بنانے کیلئے موقع میسر آیا تھا اس سے متعلق بین الاقوامی نشریاتی ادارے نے بلوچستان سے منتخب ایک سردار سے پوچھا تھا کہ سندھ میں مخالفین پر جوتے چل گئے،بلوچستان میں آپ کا قبائلی دشمن وزیر اعلیٰ بننے جارہا ہے،کیا بلوچستان میں بھی جوتے باری ہوگی؟ جواب ملا، یہ بلوچستان ہے،یہاں جوتے نہیں گولیاں چلیں گی۔۔
گزشتہ روزوزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط شہباز گل پر لاہور میں ایک ہجوم نے انڈے اور جوتوں سے حملہ کردیا،شہاز گل تحریک انصاف کے نومولود رہنما ؤں میں شمار ہوتے ہیں، یہ بھی امریکی نژاد پیرا شوٹر ہیں، انکے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے اور مختلف بین الاقومی اداروں میں خدمات بھی انجام چکے ہیں، ایک پی ایچ ڈی ڈاکٹر کا اپنے مخالفین سے متعلق تنقید اس نہج کا ہو جسے سنتے ہوئے کراہت محسوس کیا جائے تو مراد سعید اور شیخ رشیدجیسے لوگوں کی زبان درازی پر تعجب نہیں ہونا چاہئے،شہباز گل پر انڈا باری تحریک انصاف کی جانب سے دشنام طرازی اور تشدد کا مکافت عمل ہے، ہو بہو جتنے حملے ن لیگی رہنماؤں پر ہوئے ہیں وہ بھی مکافات عمل کا ہی حصہ ہیں، ن لیگی کارکنوں کی جانب سے شہباز گل پر حملہ تحریک انصاف کے رہنماؤ پر پہلا Attempt ہے، سیاسی ماحول میں بد تہذیبی کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اسکے ختم ہونے کے آثار فی الحال نظر نہیں آرہے، تحریک انصاف کے ورکرز نے ن لیگی رہنماؤں پر 2018کے عام انتخابات سے اس طرح کے حملے شروع کر رکھے ہیں،انتخابی مہم کے دوران خواجہ آصف پرسیاہی پھینک دی گئی، خواجہ سعد رفیق بھی انڈا باری حملے کا نشانہ بنے ہیں،حد تو یہ ہے کہ کہ پارلیمنٹ کے سامنے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ایک خاتون رہنما پر ایک پی ٹی آئی ورکر نے بڑی دیدی دلیری سے حملہ کردیا،جسے شاہد خاقان عباسی نے بھاگ کر پکڑنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے، پولیس اور سیکورٹی کے بیچوں بیچ ایک سابق ریاستی سربراہ کا سر راہ یوں یوں بھاگ کر حملہ آور پکڑنے کا انوکھا واقعہ شاید پاکستان میں ہی ممکن ہوسکتا ہے۔
دونوں جانب سے رہنماؤں پر حملے محض سیاسی ورکروں کی ذاتی رنجش نہیں بلکہ ہر حملے کا پس پردہ قیادت کی منشا مرضی اور اکھسانے کا بہت بڑا عمل دخل ہے، آج کا ورکر نظریا تی نہیں رہا بلکہ ہر سیاسی قائد کے پیچھے زندہ باد،مردہ باد کرنے والے جی حضور ی لشکر موجود رہتا ہے، سیاسی قیادت جو حکم صادر کرتا ہے،جی حضوری جھتہ وہ کام کر کر گزرتا ہے، یہ بیماری صرف چھوٹے طبقے کے ورکر میں ہی نہیں بلکہ بڑے پائے کی قیادت میں بھی موجود ہے،کسی بھی ایم پی اے اور ایم این اے کو آگے برھنے کیلئے اپنی لیڈر شپ کو خوش کرنا ہوتا ہے، ٹاک شوز میں مخالفین کو جتنی زیادہ گالیاں دیں گے اتنے ہی نمبر میسر آئیں گے،یہ رجحان جب تک ختم نہیں ہوگا،تمام جماعتوں کی بڑی قیادت انڈا بردار جھتوں کے سامنے سڑکوں پر ذلیل ہوتی رہے گی

اپنا تبصرہ بھیجیں