زرداری اورنوازشریف+رند اور وعظ

تحریر: انورساجدی
تازہ موضوع تو وہ بدترین سلوک ہے جو آصف علی زرداری نے اپوزیشن تحاد پی ڈی ایم کے ساتھ کیا لیکن میں سوچ کرآیا تھا کہ کرنٹ سیاست سے ہٹ کر کچھ واقعات ہلکے پھلکے انداز میں پیش کئے جائیں کیونکہ سیاسی موضوعات ریاستی اداروں کے طرزعمل اور مختلف نشیب وفراز سے لوگ اکتاچکے ہیں لیکن ن لیگ کے واویلے کونظرانداز کرنا مشکل ہے لہٰذا کچھ نہ کچھ تو اظہار کرنا پڑے گا زرداری نے جو کچھ کیا وہ غیرمتوقع نہیں تھا اس کی نشاندہی کئی مبصرین مختلف اوقات میں کرچکے تھے لیکن یہ کسی نے نہیں سوچا تھا کہ وہ اتحاد کا کریاکرم ہی کرکے رہیں گے زرداری کے اس عمل کے دوپہلو ہیں مولانان لیگ اور دیگرجماعتیں اسے بے وفائی اورعین موقع پر پیٹھ میں چھرا گھونپنے کے مترادف گرادانتے ہیں ممکن ہے کہ کچھ ناقدین کو بروٹس کا لقب بھی دیں یہ بھی کیاجائیگا کہ زرداری نے جان بلب حکومت کو ریسکیو کرکے نئی زندگی دی ہے دوسرا پہلو یہ ہے کہ زرداری نے اپنانفع نقصان سوچنا تھا اگروہ اسمبلیوں سے استعفیٰ دیتے تو کیا ہوتا؟زیادہ سے زیادہ عمران خان اسمبلیاں توڑکر نئے انتخابات کااعلان کرتے پھر کیاہوتا الیکشن ہوجاتے پنجاب میں بازی ن لیگ کے ہاتھ لگتی اوروہ اتحادیوں سے مل کر مرکز اور پنجاب میں حکومت تشکیل دیتی یعنی زرداری کو اتنا پاگل سمجھاگیا تھا کہ وہ انتخابات کرواکر اقتدار کی مسند پر ن لیگ کو بٹھاتے اور اپنے کپڑے جھاڑ کر واپس سندھ آجاتے کیونکہ اگرانہیں کچھ ملنا تھا تو سندھ ہی میں ملنا تھا پنجاب میں ان کی موجودہ نشستیں زیادہ سے زیادہ ڈبل ہوجاتیں بلوچستان اور پشتونخوا سے بھی خالی ہاتھ جانا پڑتا البتہ اگرزرداری نے یہی کچھ کرنا تھا تو پی ڈی ایم کی تشکیل میں بڑھ چڑھ کر حصہ نہ لیتے لانگ مارچ اور استعفوں پراتفاق نہ کرتے انہوں نے ایسا کیوں کیا؟یہ ایک بڑاسوال ہے ظاہر ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل تین بڑی جماعتیں اپنی قوت بڑھا کر زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنا چاہتی تھیں اس سے زرداری کو سودے بازی کا اچھا موقع ملا جس سے فائدہ اٹھاکر انہوں نے سینیٹ کی اسلام آباد کی نشست جیت لی لیکن انہیں مزید آگے بڑھنے نہیں دیا گیا کیونکہ بات چیت مکمل نہیں تھی اگریوسف رضا چیئرمین سینیٹ منتخب ہوجاتے تو زرداری کی سودے بازی کی پوزیشن مزید بڑھ جاتی چنانچہ ان سے الیکشن سے دودن پہلے کہہ دیا گیا تھا کہ ہمیں گیلانی کسی صورت میں قبول نہیں ہے سنا ہے کہ جو مذاکرات چل رہے تھے اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ پیپلزپارٹی اور مقتدرہ کی مشترکہ دشمن تحریک انصاف نہیں ن لیگ ہے اگر اسے اقتدار میں آنے کا موقع دیا گیا تو سارا کچھ الٹ پلٹ ہوجائے گا پیپلزپارٹی اور مقتدرہ دونوں کو سخت ہزیمت کاسامنا کرنا پڑے گا غالباً زرداری کو قائل کیا گیا کہ اگرانہوں نے آئندہ دوسال میں ن لیگ کا راستہ نہ روکا تو وہ مرکز میں کبھی برسراقتدار نہیں آسکیں گے لہٰذا ن لیگ کو کوئی موقع نہ دیا جائے اسی دوران مولانا سے ایک بار پھر کہا گیا کہ وہ لانگ مارچ اور دھرنے سے گریز کریں کم از کم راولپنڈی صدر میں تو آنے کا نہ سوچیں ورنہ آپ کا شمار بھی ن لیگ کی طرح بڑے دشمنوں میں کیاجائے گا اگرمولانا یہ بات بروقت مان لیتے تو برادرم عبدالغفورحیدری کی جیت یقینی تھی لیکن انہیں شکست سے دوچار کرکے مولانا کو پیغام دیا گیا کہ مزید سختی بھی ہوسکتی ہے لہٰذا آپ باز آجائیں لہٰذا جو اس وقت زمینی حقائق ہیں وہ یہ ہیں کہ پیپلزپارٹی نے عملاً پی ڈی ایم سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے مولانا اور ن لیگ اکیلے رہ گئے ہیں زرداری نے پی ڈی ایم کے اجلاس سے جو آن لائن خطاب کیا وہ ایک طرح سے اتحاد کے خاتمہ کا واضح اعلان تھا کیونکہ انہوں نے شرط رکھی تھی کہ اگرمیاں نوازشریف واپس آجائیں تو ہم استعفے انکے ہاتھ پر رکھ دیں گے انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ سیاسی جدوجہد پہاڑوں پر نہیں پارلیمنٹ میں ہوتی ہے انہوں نے کہا کہ وہ لڑنے کیلئے تیار ہیں لیکن اسکے لئے میاں صاحب کوواپس آنا پڑے گا ہم سب کو جیل جانا پڑے گا انہوں نے یہ کہا کہ انکے پاس سندھ کا ڈومیسائل ہے یہ ڈومیسائل رکھنے والی کئی ہستیاں تختہ دار پرچڑھ چکی ہیں جبکہ میاں صاحب کا تعلق پنجاب سے ہے اگر وہ آکر تحریک کی قیادت کریں تو انہیں جان کا کوئی خطرہ نہیں ہوگا اسی اثناء مریم نواز نے کہا کہ میرے والد کی جان کو خطرہ ہے اگرزرداری گارنٹی دیں تو وہ واپس آجائیں گے مریم بی بی بھی کیاسادہ اوربھلی خاتون ہیں زرداری کی کیا اوقات کہ وہ کسی کی جان کی گارنٹی دیں انکے سسرپھانسی چڑھ چکے ان کی اہلیہ اور برادرنسبتی دن دہاڑے قتل کئے گئے ان کی ساس بیگم نصرت بھٹو کوضیاؤ الحق کے مارشل لاء کے دوران سرپر جوڈنڈا لگااس سے وہ کبھی صحت یاب نہ ہوسکیں اور دوبئی میں اذیت ناک موت سے دوچار ہوئیں خود زرداری کو میاں صاحب کے دور میں دوران اسیری بدترین تشدد کا نشانہ بنایاگیا۔ان کی زبان پرشیشے کے چرکے لگاکر زخم دیئے گئے بے شمار جسمانی اذیت کی وجہ سے ان پر رعشہ طاری ہے وہ متعدد بیماریوں کے شکار ہیں اور صرف اپنی قوت ارادی کے سہارے زندہ ہیں اس زرداری سے یہ توقع باندھنا کہ وہ پنجاب کے سب سے بڑے لیڈر کی سلامتی کے ضامن بن جائیں کچھ عجیب اور معصومانہ مطالبہ ہے۔
میاں صاحب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مقتدرہ کسی بڑے پنجابی لیڈر کے قتل کو ایفورڈ نہیں کرسکتی وہ زیادہ سے زیادہ انہیں قید کی اذیت دے سکتے ہیں جیسے کی مشرف اور موجودہ دور میں ہوا لیکن میاں صاحب قیدوبند کی صعوبتیں برداشت نہیں کرسکتے مشرف کے دور میں وہ 12صفوں پرمبنی معافی نامہ لکھ کر سعودی عرب چلے گئے تھے جبکہ موجودہ دور میں علالت کے باعث انہیں باہر جانا پڑا لیکن وہ کسی صورت واپس آنے کو تیار نہیں چند روز قبل برٹش امیگریشن ڈپارٹمنٹ نے واضح اعلان کیا کہ پاکستان کے مطالبہ پر سابق وزیراعظم کو برطانیہ سے نہیں نکالاجاسکتا انہوں نے معلومات کو خفیہ رکھتے ہوئے میاں صاحب کے پاسپورٹ اورویزے کی میعاد ختم ہونے کا کوئی ذکر نہیں کیا معلوم نہیں کہ اس وقت ان کا کیا اسٹیٹس ہے خود مریم بی بی نے بھی کچھ عرصہ جیل میں گزارا لیکن جلد ان کی ضمانت ہوگئی اب جبکہ ان کی ضمانت کی منسوخی کیلئے حکومت عدالت گئی ہے تو پوری ن لیگ لرزہ براندام ہے۔
مسلم لیگ ن کے خوف کی ایک اور وجہ مریم نواز کی زندگی کو لائق خطرہ ہے ان کے والدمیاں نوازشریف نے نہ صرف اس خطرے کی نشاندہی کی ہے بلکہ مبینہ ذمہ داروں کا نام بھی لے لیا ہے مسلم لیگ کا خوف اپنی جگہ لیکن مقتدرہ اتنا بڑا رسک نہیں لے سکتی کہ پنجاب کی سب سے زیادہ پاپولر لیڈر کی زندگی سے کھیلے زرداری نے سندھ اور پنجاب کے ڈومیسائل کا ذکر چھیڑ کر اس طرف اشارہ کیا ہے یعنی جو سندھ کی قیادت کے ساتھ ہوا وہ پنجاب کی قیادت کے ساتھ نہیں ہوسکتا۔لیکن ایک بات ضرور ہے کہ حالات بدل چکے ہیں آثاربتارہے ہیں کہ اپنی مرضی کا نظام کچھ عرصہ تک چلایاجائیگا اس دوران تمام اسٹیک ہولڈر سے گفت وشنید جاری رہے گی گوکہ اس وقت زرداری اورنوازشریف رابطے میں ہیں لیکن نوازشریف نے کئی شرائط مسترد کردی ہیں جس کی وجہ سے ن لیگ کیخلاف تیوربرہم ہیں زرداری کی علیحدگی کے بعد مولانا اور ن لیگ کو نئی حکمت عملی اور منصوبہ بنانا پڑے گا خاص طور پر ن لیگ کو بھرپور تیاری کرنا ہوگی کیونکہ جنگ بہت مشکل میدان جنگ سخت اور مدمقابل بہت طاقتور ہے اگر ن لیگ اپنے کارکنوں کو متحرک نہ کرسکی اور میدان میں نہ نکل آئی تو وہ ہ جنگ ہارجائیگی جبکہ مولانا نہ ادھر کے رہیں گے نہ ادھر کے۔
پاکستانی سیاست اتنی تبدیل ہوئی ہے کہ رہنماؤں کی وضع داری اوربذلہ سنجی رخصت ہوچکی ہے کئی سال پہلے کی بات ہے کہ اسلام آباد کی ایک تقریب میں امیرجماعت قاضی حسین احمد اور شہرہ آفاق شاعر احمدفراز ساتھ بیٹھے تھے اچانک فرازصاحب کوشرارت سوجھی انہوں نے گلاس میں پانی بھرکر قاضی صاحب کو پیش کیااور کہا کہ قاضی صاحب یہ جام آپ کیلئے قاضی صاحب نے اس عمل کا بڑا لطف لیاروزنامہ ڈان نے اس تصویر کو نمایاں طور پر شائع کیا اوپر سرخی ڈالی۔
رند اوروعظ
قاضی حسین احمد جماعت اسلامی کے ایسے امیر تھے جنہوں نے عوام میں سرایت کرنے کی کوشش کی انہوں نے ایم ایم اے بناکر انتخابی کامیابی بھی حاصل کرلی لیکن جو زرداری نے آج پی ڈی ایم کے ساتھ کیا ہے خود مولانا نے اس وقت ایم ایم اے کے ساتھ کیا حکومتوں کو چھوڑنے کا متفقہ فیصلہ ہوا لیکن مولانا نے عین موقع پر استعفیٰ دینے سے انکار کردیا نتیجے میں اکیلے قاضی صاحب کواستعفیٰ دیناپڑا۔ماضی میں جوسیاسی کلچر تھا اس میں باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھاجاتا تھا لیکن بدقسمتی سے تحریک انصاف سیاست کو گلی کوچوں میں لے آئی ہے اور بچوں کے سپردکردی ہے جودشنام طرازی اورگالم گلوچ کے سوا کچھ نہیں جانتے جوکچھ لاہور میں شہبازگل کے ساتھ ہوا وہ محض ایک ٹریلر ہے جذبات اتنے انیگختہ ہیں کہ گلی گلی میں ایسا ہونے کا خطرہ ہے۔
ایک مرتبہ کراچی سے کوئٹہ جاتے ہوئے کیا دیکھتا ہوں کہ برابر کی نشست میں قاضی صاحب تشریف فرما ہیں پی آئی اے کا عملہ خدمت کیلئے حاضر ہوا قاضی صاحب نے کہا کہ فلاں فلاں اخبار لاؤ میں نے کہا محترم یہ جسارت کا کیا قصور ہے انہوں نے غور سے میری طرف دیکھا اور کہا کہ آپ کا تعلق ضرور پریس سے ہوگا وہ مجھے نہیں جانتے تھے لیکن راستے میں کافی مجلس ہوئی انہوں نے وسیع القلبی کے ساتھ جماعت اسلامی کے پلس پوائنٹ اور خامیاں گنوائیں یہ کہا کہ آج جماعت اسلامی اس پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر قبضہ کرسکے لیکن ہم اس قبضہ کو برقراررکھنے کی پوزیشن میں نہیں میرے خیال میں اس وقت جماعت اسلامی کی قوت میں مزید کمی آئی ہے اور بھائی سراج الحق کسی راستے کسی امکان اور سمت کی تلاش میں ہیں میراخیال ہے کہ اس وقت جماعت سیاسی کریکٹر کھوچکی ہے اور ملک کی سب سے بڑی این جی اوز بن گئی ہے اس کی قیادت ابہام کی شکار ہے اور اسے معلوم نہیں کہ اسے کیا کرنا چاہئے سیاسی اختلافات کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ جماعت اسلامی ایک بڑا سیاسی ادارہ ہے اسے زندہ رہنا چاہئے تاہم عوامی پذیرائی کیلئے کوئی غیرمعمولی حکمت عملی سے کام لیناہوگا اس کیلئے نوجوانوں کو موقع دینا چاہئے

اپنا تبصرہ بھیجیں