بگٹی ہاؤس کا نواب

تحریر:امان اللہ شادیزئی
نواب بگٹی کے ساتھ گزرے لمحات کو قلمبند کررہا ہوں تو اس کو اب 47سال ہوچکے ہیں،لیکن لگتا ہے ابھی کل کی بات ہے۔یہ بھی اللہ کا فضل ہے کہ یادداشت بہتر ہے۔نواب بگٹی سے چوتھی ملاقات سے قبل انتہائی اختصار کے ساتھ کچھ اہم واقعات کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔ان واقعات کے اثرات اتنے ہمہ گیر تھے کہ نواب تک ان سے نکل نہیں سکا۔اور بعض گھاؤ اتنے گہرے کے ان کے زخم ابھی بھی ہرے ہیں۔اور ان سے خون ٹپکتا ہوا لگتا ہے۔نواب بگٹی اور نیپ کی کشمکش اندرون خانہ بڑی تیز تھی لیکن باہر اس کے اثرات ابھی تک ظاہر نہیں ہوئے تھے۔ان کے تعلقات میں پہلی دراڑ اُس وقت پڑی جب نواب بگٹی نیپ کے بعض اہم سرداروں سے مل کر مشرقی پاکستان جارہے تھے تا کہ شیخ مجیب الرحمن سے ملاقات کریں۔نواب بگٹی ابھی ڈھاکا نہیں پہنچے تھے کہ نیپ کا اعلامیہ جاری ہوگیا کہ نواب بگٹی اپنی ذاتی حیثیت میں گئے ہیں،وہ نیپ کے نمائندہ نہیں ہیں۔یہ ایک سیاسی دھماکا تھا جس کی گونج پورے بلوچستان میں سنی گئی۔اس دھماکا خیز بیان نے بگٹی اور نیپ کی اندرونی کشمکش اور خلیج کو ظاہر کردیا۔اندرونی کشمکش اور تضادات دلچسپ اور خوفناک تھے ان کا ذکر نواب بگٹی نے اُس وقت مجھ سے کیا جب ان سے تعلقات بہت گہرے ہوگئے تھے۔میں ان کا راز داں بن گیا تھا۔جب ان سے قربت گہری ہوگئی تو وہ اپنے دل کی بات مجھ سے کھل کر کرتے تھے۔ڈھاکا سے واپسی پر نواب بگٹی اور نیپ کشمکش بڑی تیزی سے بڑھنا شروع ہوگئی۔بھٹو نے بھانپ لیا کہ نیپ کے اندر دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں اور نواب ان کے کام آسکتا ہے۔بھٹو اور نواب کے تعلقات پرانے تھے۔1970ء کے انتخابات کے نتیجے میں نیپ کے 3ممبر تھے۔ایک خاتون کی نشست تھی اور8آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔جمعیت علماء اسلام کے 3 ممبر منتخب ہوئے تھے۔مسلم لیگ کے جام غلام قادر منتخب ہوئے تھے۔آزاد امیدواروں کی اکثریت نیپ میں شامل ہوگئی اور وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ مینگل بن گئے اور جمعیت ان کے ساتھ حکومت میں شامل ہوگئی۔بھٹو کا دورہ ِ سوویت یونین تھا،نواب بگٹی نیپ سے ناراض ہوگئے تھے اور وہ نیپ کی حکومت کا خاتمہ چاہتے تھے۔نواب کو بھٹو نے سوویت یونین کے دورے کے دعوت دی۔اس طرح نواب کو سنہری موقع ہاتھ آگیا۔اور وہ بھٹو کے ساتھ دورے پر چلے گئے۔واپسی پر نواب بگٹی نے برطانیہ میں ٹھہرنے کا فیصلہ کرلیا۔نواب صاحب کے تمام اخراجات نبی بخش زہری کے ذمے تھے۔نیپ کی حکومت 2مئی1972ء کو بنی اور فروری1973ء میں بھٹو نے اسے ختم کردیاا ور جام غلام قادر وزیراعلیٰ بنادیئے گئے۔نیپ کے قائدین اقتدار سے جیل میں پہنچا دیئے گئے۔نیپ کے گورنر غوث بخش بزنجو تھے ان کا دور گورنری 30مارچ 1972سے شروع ہو کر 14فروری1973ء کو ختم ہوگیا۔نیپ اور بھٹو کی کشمکش ابتداء ہی سے شروع ہوگئی تھی اور اس کا اختتام نیپ کی حکومت کے خاتمے کی صورت میں ہوا۔نواب بگٹی لندن میں تھے،ان کو کہا گیا کہ بلوچستان لوٹ آئیں۔اور وہ واپس آکر گورنر بن گئے۔اب بلوچستان میں ایک نئی کشمکش شروع ہوگئی۔نواب بگٹی کا دور گورنری 15فروری1973ء کو شروع ہوا اور 31دسمبر1973ء کو ختم ہوگیا۔نواب کی گورنری کے خلاف پہلا احتجاج ہم چند دوستوں نے کیا تھا،ہم میدان میں کھڑے تھے
اور نیپ کی بعض مہربان افغانستان جارہے تھے جبکہ کچھ سندھ کی طرف چلے گئے اور زیر زمین سیاست شروع کردی۔میری تقریر کے نتیجے میں مجھ پر بغاوت کا مقدمہ قائم ہوا اور کوئٹہ جیل سے مچھ جیل تک قید کا زمانہ رہا۔میں نومبر میں رہا ہوگیا اور بگٹی صاحب 31دسمبر کو ایوان گورنری سے بگٹی ہاؤس لوٹ آئے۔نیپ پر بغاوت کے مقدمات قائم
ہوگئے،حیدرآباد جیل میں مقدمہ چلتا رہا۔دسمبر میں حکومت نے نواب خیربخش خان کی قومی اسمبلی کی نشست خالی قرار دے دی۔یہ نشست مقدمہ بغاوت کی وجہ سے ختم ہوئی،1970ء میں قومی اسمبلی کی اس نشست پر نواب خیر بخش خان کھڑے تھے ان کے مد مقابل تاج محمد جمالی تھے۔نواب نے یہ نشست جیت لی۔جماعت اسلامی کے امیدوار جناب عبدالمجید خان(مرحوم)تھے بعد میں وہ تاج محمد جمالی کے حق میں دستبردار ہوگئے۔اب مقدمے کے بعد خالی نشست پر نواب بگٹی کوئٹہ،چاغی کی قومی اسمبلی کی نشست پر لڑنے کا فیصلہ کرلیا یہ خبر اخبارات میں شائع ہوگئی۔
یہ نشست کوئٹہ چاغی 36(2)تھی۔ڈاکٹر عبدالحئی بی ایس او کے چیئرمین رہ چکے تھے انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست37قلات(1)سے انتخاب لڑا۔ان کے مد مقابل خان قلات میر احمد یار خان کے صاحبزادے شہزادہ محی الدین تھے وہ ہارگئے۔
اب اپنی چوتھی ملاقات جو اب بگٹی سے بگٹی ہاؤس میں ہوئی،اس کے ذکر سے شروع کرنا چاہتا ہوں،اپنے دوستوں رشید بیگ،عبدالماجد فوز،ضیاء الدین ضیائی،عبدالصمد خلجی سے بلدیہ ہوٹل میں ملاقات ہوئی،میں نے ان سے کہا کہ اس انتخاب میں نواب بگٹی کی حمایت کرنا چاہتا ہوں۔دوستوں کی رائے مختلف تھی وہ آمادہ نہ تھے۔صرف رشید بیگ آمادہ تھے اور وہ میرے رائے سے متفق ہوگئے تھے۔میرے بعض جماعت اسلامی کے ہمدرد میری رائے سے اختلاف رکھتے تھے۔میری رائے پختہ ہوگئی اور میں نے فیصلہ کرلیا کہ نواب بگٹی سے ملاقات کروں گا اور سلیم بگٹی کے انتخاب میں بھر پور حصہ لوں گا اور نواب بگٹی کے اسٹیج سے بھٹو کے خلاف بھر پور مہم چلاؤں گا تاکہ بگٹی اور بھٹو کے درمیان دوری پیدا اور جیل کے دنوں کے تلخ لمحات کو عوام تک پہنچانا چاہتا ہوں۔بعض دوستوں نے کہا کہ یار امان ابھی تک آپ کی روش ہماری سمجھ میں نہیں آئی،کل تک آپ نواب بگٹی کے قیدی تھے اور اب کی حمایت کریں گے؟ میرا جواب تھا کہ ہاں یہی میرا فیصلہ ہے۔ضیاء الدین ضیائی(مرحوم) ائیر مارشل اصغر خان کے پرسنل سیکرٹری بن گئے تھے انہوں نے ایک بڑا تلخ خط لکھا اور مجھ پر طنز کیا کہ آپ کے خیالات انقلابی ہیں اور اب آپ ایک شہزادے کی حمایت میں کھڑے ہوگئے ہیں لیکن میں نے اس خط کو اور ایک مہربان دوست کی رائے کو نظر انداز کردیا۔وہ میرے مہربان تھے،تعلقات طویل عرصے کے تھے۔اب فیصلہ کیا کہ نواب سے ملنا ہے خدائے نور اس وقت ائیر مارشل اصغر خان کی پارٹی کے صوبائی صدر تھے نواب سے ان کے تعلقات پرانے تھے۔ان کا بگٹی ہاؤس آنا جانا تھا۔دوسرے عثمان کاسی تھے وہ بھی نواب کے قریبی دوستوں میں سے تھے ان کا تعلق نیپ سے تھا جب نواب گورنر بنے تو ملک عثمان کاسی (مرحوم) کو پیغام بھیجا کہ میں تمہیں اپنا مشیر بنانا چاہتا ہوں،تیار ہو یا نہیں؟اور ملک عثمان کے سامنے دو راستے رکھے،جیل جانا چاہے ہو یا مشیر بننا چاہتے ہو؟ملک عثمان نے نواب کی محبت میں مشیر بننا قبول کرلیا۔ملک عثمان ایوب خان کے دورمیں جیل کاٹ چکے تھے۔اب وہ دوبارہ جیل جانا نہیں چاہتے تھے۔وہ شاہی قلعہ لاہور کے قیدی رہ چکے تھے۔اس لئے انہوں نے نواب بگٹی سے دوستی نبھائی اور نیپ کو خیر باد کہہ دیا۔ملک عثمان سے روزانہ خدائے نور کے ساتھ ملاقات ہوتی تھی۔خدائے نور کا جنرل اسٹور تھا اس لئے وہاں سیاسی گپ شپ چلتی تھی۔ان دونوں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ چلیں،آپ کی ملاقات نواب بگٹی سے کرادینگے۔دونوں سے سیاسی یارانہ تھا،اس لئے فیصلہ کیا کہ ان دونوں کے ساتھ نہیں جاؤں اور ان کو ناراض بھی نہیں کرنا چاہتا تھا اسلئے ان سے پوچھا کہ نواب بگٹی اپنے مہمان خانہ میں کس وقت آتے ہیں۔؟انہوں نے کہا کہ مغرب کے وقت وہ آجاتے ہیں۔
ایک شام ڈھلے بگٹی ہاؤس جانے کا فیصلہ کرلیا اور جب بگٹی ہاؤس میں داخل ہوا تو مہمان خانہ بھرا ہوا تھا۔میں نے نواب صاحب کو سلام کیا،انہوں ے میری طرف حیرت سے دیکھا تو ملک عثمان(مرحوم) اور خدائے نور نے کہا کہ یہ شادیزئی ہے جس نے آپ کے خلاف تقریر کی تھی۔اب جیل سے رہا ہوئے ہیں۔نواب نے غور سے دیکھا اور مجھے خوش آمدید کہا۔یوں یہ چوتھی ملاقات تھی اور ان کی زندگی کے آخری لمحات تک ملاقاتیں جاری رہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں