پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کا ہنی مون جاری رہے گا۔۔!

تحریر: رشید بلوچ
اپوزیشن میں سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ن ہے لیکن پی ڈی ایم پرزیادہ تر پیپلز پارٹی اثر انداز ہے،استعفے والے معاملے پر پیپلز پارٹی نے شروع دن سے لیت و لعل سے کام لیا ہے، پیپلز پارٹی کی کوشش رہی ہے کہ وہ اپنا مدعا اس شد ومد سے پی ڈی ایم کے سامنے رکھے تاکہ دوسرے جماعتیں مجبورا پیپلز پارٹی کے سامنے سر نگوں رہیں، اپوزیشن جماعتیں ضمنی الیکشن میں بھاگے داری کے حق میں نہیں تھے لیکن پیپلز پارٹی نے انہیں اس بات پر قائل کردیا کہ الیکشن میں حصہ لیا جائے، نہ چاہتے ہوئے بھی ن لیگ نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا، ضمنی الیکشن میں ن لیگ کیلئے پلس پوائنٹ یہ رہی کہ اس نے پنجاب کے صوبائی نشستوں پر کامیابی حاصل کر لی،دوسرا مرحلہ سینٹ الیکشن کا تھا یہاں پر بھی پیپلز پارٹی نے دیگر جماعتوں کو الیکشن میں حصہ لینے پر آمادہ کرلیا،پیپلز پارٹی کیلئے سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ اکثریتی جماعت ہونے کے باوجود مسلم لیگ ن نے اسلام آباد کی سینٹ نشست پر پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف رضا گیلانی پر رضا مندی ظاہر کردی،ن لیگ کی پیپلز پارٹی کی حمایت پی ڈی ایم کی خاظر,, قربانی ِ،، کامظہر کم پیپلزپارٹی پر احسان جتانے کا عنصر زیادہ تھی، اپوزیشن عددی کمتری کے باجود اسلام آباد کی سینٹ نشست حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی،یوسف رضا گیلانی کی کامیابی نے اپوزیشن کی مورال کو پروان چھڑایااسکے حوصلے بلند ہوئے، سینٹ کی اسلام آباد والی نشست جیت جانے کے بعد پوزیشن کو یقین ہو چلا تھا کہ حالات اسکے سوچ کے عین مطابق چل پڑی ہیں، چونکہ چیئرمن سینٹ کے انتخاب میں اپوزیشن کو عددی بر تری بھی حاصل تھی،اپنی اکثریت کو مد نظر رکھ کر اپوزیشن کو یقین کامل ہو چکا تھا کہ چیئرمن اور ڈپٹی چیئرمن سینٹ کی نشست انکے جھولی میں آگرے گی لیکن تو قعات کے برعکس پوزیشن چیئرمن اور ڈپٹی چیئرمن سینٹ کی دونوں نشستیں ہار بیٹھی،چیئرمن سینٹ اور ڈپٹی چیئرمن سینٹ نشست کی ناکامی پر پیپلز کی پارٹی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں، پیپلز پارٹی اٹھنے والی انگلیوں کی طرف دیکھ کر شرمندہ سی مسکراہٹ پر اکتفا کر رہی ہے، یار لوگوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کو اسلام آباد کی سینٹ نشست اپوزیشن جماعتوں سے چاہیے تھی جو اسے مل گئی، اس نشست کے ملنے کے بعد پیپلز پارٹی مخالف قوتوں سے بارگینگ کی پوزیشن میں آگئی ہے، اب پیپلز پارٹی کھل کر اپنے لیئے بارگینگ کرے گی، مختلف حلقے پیپلز پارٹی کے اس روش کو دہرے معیار کے حامل سمجھتے ہیں اسلئے ایک بہت بڑا پڑھا لکھا طبقہ پیپلز پارٹی کو شدید تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے، معروف مصنف و تجزیہ نگار عائشہ صدیقہ کہتی ہیں کہ پیپلز پارٹی ایک نئی قسم کی پی ٹی آئی ہے جس سے دو کام لیئے جارہے ہیں، ایک تو پی ڈی ایم کو سڑکوں پر نکلنے اور انتہا پر جانے سے روکنے کا کام اور دوسرا جب خان صاحب آنکھیں دکھانے لگتے ہیں تو انہیں پیپلز پارٹی کے زریعہ سبق دیا جاتا ہے،جہاں ایک طرف پیپلز پارٹی پر تنقید کی جارہی ہے تو دوسری جانب بہت سارے تجزنگار پیپلز پارٹی کے استعفیٰ نہ دینے کے موقف کی حمایت بھی کر رہے ہیں،بعض مبصرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت 18 ویں ترمیم میں اصلاحات کے نام پر چند شقوں پر توثیق یا ترمیم کرنا چاہتی ہے اس سے متعلق وفاقی وزرا بارہا اپنے خیالات کا اظہار بھی کر چکے ہیں، اپوزیشن کے استعفیٰ دینے کے بعد اگر حکومت نے سیاسی بحران پر قابو پالیا اور تمام خالی نشستوں پرضمنی الیکشن کرانے میں کامیاب ہوگئی تو حکومت کیلئے پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت ملنے کے امکانات روشن ہو ں گے ایسی صورت میں حکومت کیلئے 18 ویں ترمیم ختم کرا نا چنداں مشکل نہ ہوگا،ظاہرہے ہر سیاسی فیصلے کے اچھے اور برے نتائج نکلنے ہوتے ہیں یہ لیڈر شپ پرمنحصر ہے کہ وہ آنے والے وقت کوپیش نظر رکھ کر کس طرح کے فیصلے کرتے ہیں؟ اپوزیشن کو یہ سوچنا ہوگا کہ استعفے کی صورت میں مجموعی صورتحال اس کیلئے بہتر ہوگی یا نقصان کا احتمال زیادہ ہوگا۔۔۔۔۔۔۔۔
موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آتے ساتھ ہی مولانا فضل الرحمان نے اپوزیشن کے سامنے استعفیٰ دینے کامطالبہ رکھا لیکن اس وقت کوئی جماعت مولانا صاحب کی رائے سے متفق نہ ہوئی، لیکن رفتہ رفتہ مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ ن کو اس معاملے پر آمادہ کرلیا،استعفے کے معاملے پر سب سے زیادہ ن لیگ کو اپنی سیٹیں گنوانی پڑیں گی، ن لیگ زہنی طور پر یہ نقصان اٹھا نے کیلئے تیار ہوچکی ہے، اسکے بعد پیپلز پارٹی نقصان اٹھانے والی جماعتوں میں دوسرے نمبر پر آئے گی،فلحال پیپلز پارٹی یہ رسک اٹھانے کو تیار نہیں ہے کیونکہ قومی اسمبلی کی نشستوں سے ہاتھ دھونے کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کو بنی بنائی سندھ حکومت سے بھی محروم ہوناپڑے گا، پیپلز پارٹی یہ نقصان بھی اٹھا نے کو تیار ہوجاتی اگر اسے آنے والے وقت میں سو فیصد کامیابی کے آثار نظر آرہے ہوتے، استعفے والے کھیل میں بلوچستان سے جمعیت علما اسلام اور بلوچستان نیشنل پارٹی نقصان کے زد میں آئیں گی، جمعیت پھر بھی اپنی نقصان کا ازالہ آنے والے وقت میں کر سکتی ہے لیکن بی این پی اس نقصان کا متحمل نہیں ہوسکتا، بی این پی کو 16سال بعدمعقول تعداد میں پارلیمنٹ میں آنے کا موقع ملا ہے، بی این پی کا ورکر طویل مدت بعد مشکلات سے نکل کر,, آپ و لاپ،، ہونے جارہی ہے، چند ایک کو نوکریاں اور روزگار کے زرائع میسر آرہے ہیں یہ اچانک کا ستعفیٰ کا معاملہ انہیں دوبارہ مشکلات میں ڈال سکتی ہے، بلوچستان سے پشتونخو ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹیوالے ساتھی مولائی فقیر ہیں دونوں جماعتوں کو اپنی نقصان کی کوئی فکر نہیں کیونکہ فکر وہی کرے جس کے جھولی میں چند,, دانے،، موجود ہوں۔۔
آصف علی زرداری کا نواز شریف کو پاکستان آکر حالات کامقابلہ کرنے کی صلاح بھی غیر منطقی نہیں آصف علی زرداری نے بڑی سوچ و بچار کے بعد موقع مناسبت سے ن لیگ کے سامنے یہ صلاح رکھی ہے ن لیگ اس مطالبے یا مشورے کو تسلیم کرے یا نہ کرے ا پوزیشن کے اندر سوال ضرور اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ نواز شریف کو واپس آنا چاہئے یا نہیں؟ شاید یہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے بھی اس بارے میں لب کشائی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر سیاستداں جیل سے ڈرتا ہو تو اسے سیاست نہیں کرنی چاہیے، مولانا کا اشارہ آصف زرداری کی طرف اس لیئے نہیں جاسکتا کیونکہ زرداری کرپشن کے الزام میں 12سال تک جیل میں رہ چکے ہیں اور اس وقت بھی پاکستان میں موجود ہیں، مولانا کا اشارہ نوز شریف کی طرف کم لیکن ن لیگ کے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی طرف زیادہ ہے،پیپلز پارٹی نے اپوزیشن اتحاد میں ایسی دراڑ ڈال دی ہے جس کی وجہ سے پیپلز اور پی ڈی ایم دونوں کیلئے جائے ماندن و پائے رفتن کی صورتحال پیدا کی ہے،اپوزیشن اتحاد پیپلز پارٹی کے بغیر لنگڑی ہوجائے گی اور پیپلز پارٹی اپوزیشن سے الگ ہو کر اپنی وقعت کھو دے دیگی،پیپلز پارٹی کا جو تاک حکومت پر بیٹھ گئی ہے اسکا اثر زائل ہوجائے گا، پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کی مجبوری بن گئی ہیں، مجبوری میں ہی سہی دونوں کے الگ ہونے کے امکانات بہت ہی کم ہیں، بذود یا بدیر پیپلز پارٹی لانگ مارچ میں بھی شریک ہوگی اور استعفیٰ دینے پر بھی رضا مند ہوگی، پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم کا ہنی مون جاری رہے گا

اپنا تبصرہ بھیجیں