بگٹی ہاؤس کا نواب

تحریر: امان اللہ شادیزئی
گزشتہ سے پیوستہ
نواب بگٹی نے اپنے بیٹے سلیم بگٹی کو نواب خیر بخش کی خالی نشست پر انتخاب لڑانے کا فیصلہ کرلیا تھا اور مدمقابل تاج محمد جمالی تھے۔ جمالی خاندان کی سیاست ہی عجیب و غریب ہے، ہمیشہ اقتدار کے ساتھ سیاسی سفر کرتے ہیں۔ میر ظفر اللہ جمالی کا سیاسی سفر مسلم لیگ سے شروع ہوا، پھر انہوں نے جنرل پرویزمشرف کے ہاتھ پر سیاسی بیعت کرلی اور وزیراعظم بن گئے۔ اب وہ علیل ہیں اور ان کی سیاسی سرگرمیاں محدود ہوگئی ہیں۔
نواب سے بگٹی ہاؤس میں روز ملاقات ہوتی تھی۔ اب انہوں نے انتخاب لڑنے کا فیصلہ کرلیا تو روزانہ بگٹی ہاؤس میں سیاسی میلہ لگا ہوا تھا۔ 50 سے 60 لوگ بگٹی ہاؤس میں جمع ہوتے، تبصرے ہوتے اور الیکشن کی تیاری کے حوالے سے گفتگو ہوتی۔ ان ملاقاتوں میں نواب بگٹی کی منصوبہ بندی کو میں بڑے غور سے دیکھتا تھا کہ وہ کس طرح انتخاب لڑتے ہیں اور کیسے منصوبہ ترتیب دیتے ہیں۔ اور ان کی سیاسی روش پر غور کرتا تھا کہ ایک نواب الیکشن میں کیسے حصہ لیتا ہے۔ 1970ء کے انتخابات میں نیپ کی منصوبہ بندی نواب نے کی تھی، وسائل بھی فراہم کیے اور مہم بھی چلائی۔ اب جب الیکشن کے کاغذات جمع ہوگئے تو کارنر میٹنگ کی منصوبہ بندی کی گئی۔ نواب کوئٹہ کی سیاسی فضا سے واقف تھے اور انہیں معلوم تھا کہ کوئٹہ میں کون کون سی برادریاں ہیں، کتنے گروپ ہیں، قبائلی معتبر کون کون ہیں، علاقہ کون کون سا ہے۔ انہوں نے دیوار پر ایک بڑا چارٹ بنالیا تھا، اس کو وہ دیکھتے تھے۔ اب انہوں نے فیصلہ کرلیا کہ کارنر میٹنگوں سے مہم شروع کرنی ہے۔ پہلی کارنر میٹنگ اْس علاقے میں کی جہاں پنجابی زیادہ آباد تھے۔ ان کے مقررین میں میرے علاوہ علی احمد کرد، سعید اقبال (مرحوم) مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر، خدائے نور و دیگر شامل تھے۔ اس پہلی کارنر میٹنگ میں مجھے اپنی تقریر بالکل پسند نہیں آئی۔ علی احمد کرد سے کہا کہ دل میں نفرت کا ایک طوفان بھٹو حکومت کے خلاف بھرا ہوا ہے لیکن تقریر پڑھنے کا مزہ ہی نہیں آیا، کیا میں تقریر کرنا بھول گیا ہوں؟ تقریر کا لطف ہی نہیں آرہا تھا، عوام بھی مطمئن نہیں ہورہے تھے اور نہ ان میں جوش و خروش نظر آرہا تھا۔ روز سوچتا تھا کہ کس طرح تقریر کروں؟ کیا خامی ہے جس کو دور کروں؟ وحدت کالونی میں جلسہ تھا۔ علی احمد کرد، خدائے نور اور سعید اقبال نے تقریر کی۔ اس کے بعد میں نے تقریر کی جس نے ہجوم میں جوش و خروش پیدا کردیا۔ خدائے نور کو اندازہ ہوگیا کہ شادیزئی تو جم گیا ہے۔ اس لیے بگٹی ہاؤس میں دوسرے دن کے پروگرام کو ترتیب دیا گیا تو خدائے نور نے مجھ سے کہا کہ آغا صاحب آج آپ کی تقریر نہیں ہے۔ ان سے کہا ٹھیک ہے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ایک انجانا خوف محسوس کرنے لگے کہ شادیزئی تقریر کرے گا تو لیڈر بن جائے گا۔ اپنے حلقے میں بھی بعض لوگ مجھ سے تقریر کے حوالے سے خوف زدہ رہتے اور تقریر کرنے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتے تھے، بلکہ موقع ہی نہیں دیتے تھے۔ ایک کارنر میٹنگ تھی، اس علاقے میں بھی پنجابی زیادہ تھے، خدائے نور نے کہا کہ آغا صاحب آج آپ کی تقریر نہیں ہے۔ بعض نوجوانوں نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کی تقریر ہے؟ میں نے کہا کہ نہیں۔ اس میٹنگ میں اورنگ زیب کاسی نے تقریر کی تو پنجابیوں کے خلاف چلے گئے۔ اس دوران صدیق بلوچ میرے پاس آئے اور کہا کہ اورنگ زیب نے ماحول خراب کردیا ہے، نواب صاحب چاہتے ہیں کہ آپ تقریر کریں۔ صدیق بلوچ (مرحوم) ایڈیٹر آزادی سے کہا کہ میری تقریر نہیں ہے، اس لیے تقریر نہیں کروں گا، خدائے نور نے منع کیا ہے۔ وہ اسٹیج پر نواب کے پاس گئے، اس کے بعد دوبارہ آئے اور مجھ سے کہا کہ نواب نے کہا ہے کہ ماحول بہت خراب ہوگیا ہے اس لیے آپ لازمی تقریر کریں گے۔ اس کے بعد میرا نام پکارا گیا۔ کوئی 15 منٹ تقریر کی۔ اب میں اپنی تقریر کے جوبن پر آگیا تھا۔ اس کے بعد نواب بگٹی تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو 10 منٹ تک میری تقریر کی تعریف کرتے رہے اور کہا کہ مجھے معلوم ہوتا کہ شادیزئی اتنا اچھا مقرر ہے تو میں اس کو کبھی گرفتار نہ کرتا۔
ہم جب شام کو بگٹی ہاؤس میں جمع ہوئے تو نواب بگٹی نے کہا کہ آپ نے تو کمال کردیا، اتنی اچھی تقریر کہاں سے سیکھی! نواب نے خدائے نور کو بلایا اور کہا کہ آپ لوگ شادیزئی سے پہلے تقریر کریں، اس کی تقریر کے بعد آپ تقریر نہیں کرسکتے۔ اس کی تقریر میری تقریر سے پہلے رکھا کریں۔ اس کی تقریر کے بعد میرا ذہن کھل جاتا ہے اور نئے نئے خیالات آتے ہیں۔
مرحوم مجھ سے بہت زیادہ متاثرتھے اور میرا بڑا احترام کرتے تھے۔ بعض اہم سیاسی معاملات میں بھی شریکِ مشورہ رکھتے تھے۔ یہ ان سے میری چوتھی ملاقات تھی۔ کمال کی بات ہے کہ میں نواب سے متاثر تھا اور وہ مجھ سے متاثر ہوگئے تھے۔
ہم نواب بگٹی کے حوالے سے اْن کی سیاسی سرگرمیوں کا تجزیہ کررہے ہیں کہ وہ کس طرح انتخابات میں حصہ لیتے تھے۔ اس پہلو پر آنے سے پہلے ایک سرسری نقشہ بگٹی ہاؤس کا لینا چاہتا ہوں۔ اْن کی رہائش گاہ قندہاری بازار (اقبال روڈ) اور پرنس روڈ کے درمیان ایک گلی میں واقع ہے۔ یہ رہائش گاہ ان کے والد کے زمانے کی ہے سیون ٹائپ (7-Type)۔ یہ ایک عام مکان ہے جو کسی طرح بھی ایک طاقتور بلوچ کا مکان نہیں لگتا۔ بگٹی ہاؤس کا وہ کمرہ جہاں نواب اپنے مہمانوں سے ملاقات کرتے تھے، اس میں 15 افراد آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ بگٹی ہاؤس میں مولانا بھاشانی، شیخ مجیب الرحمٰن، ذوالفقار علی بھٹو، سردار عطا اللہ مینگل، نواب خیر بخش خان مری، پیرپگارا، ایئرمارشل اصغر خان، سراج الحق و دیگر آچکے ہیں۔ کمرے میں مغرب کی جانب ایک تاریخی تصویر لگی ہوئی ہے، یہ پینٹنگ ہے۔ اس تصویر میں ایک قبائلی لشکر جنگ کے لیے گھوڑوں پر سوار جارہا ہے۔ اس کے ساتھ ایک اور تصویر ہے، اس میں نواب بگٹی، سردار عطا اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو موجود ہیں۔ ایک تصویر میں نواب بگٹی اپنے بگٹی لباس میں ہیں اور تلوار ہاتھ میں ہے۔ انہوں نے چہرہ ڈھانپا ہوا ہے۔ نواب بگٹی سے ایک دن میں نے اس بارے میں پوچھا تو وہ خوب ہنسے اور کہا کہ یہ کوئٹہ کلب میں فیشن شو تھا، اس میں حصہ لیا اور مجھے پہلا انعام ملا۔ یہ اْس دور کی تصویر ہے جب وہ نوجوان تھے۔ بگٹی ہاؤس دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک حصے میں اْن کی بگٹی قبائل سے تعلق رکھنے والی بیگم رہتی تھیں، اور دوسرے حصے میں جمیل بگٹی کی والدہ رہائش پذیر تھیں جو بلوچ نہ تھیں، اْن کا تعلق پشاور سے تھا۔ ایک بیٹی نواب خیربخش کے بھتیجے ہمایوں مری سے بیاہی گئی تھی۔ ہمایوں مری ڈپٹی چیئرمین سینیٹ اور نگران وزیراعلیٰ بھی رہ چکے تھے۔
27دسمبر 1978ء کی ایک یخ بستہ رات تھی، میں ممتاز صحافی مرحوم عزیز بھٹی (نمائندہ نوائے وقت)کے ساتھ پریس کلب کوئٹہ میں سیاسی گپ شپ کررہا تھا اور چائے کا دور چل رہا تھا۔ اْن دنوں پریس کلب میں عصر کے بعد سینئر صحافی آجاتے تھے، ایک کمرے میں تاش کی بازی اور دوسرے کمرے میں شطرنج کا کھیل چل رہا ہوتا تھا۔ یہ ماضی کا خوبصورت پریس کلب تھا۔ بھٹی مرحوم سے جب ملاقات ہوتی تو وہ چائے ضرور پلاتے تھے اور پھر بعض سیاسی معاملات پر تبادلہ خیال ہوتا۔ اْس رات ہم خوش گپیوں میں مصروف تھے کہ ٹی وی میں دھماکہ خیز خبر جاری ہوئی کہ سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوگیا ہے۔ سرخ فوج بگرام ائیرپورٹ پر اترنا شروع ہوگئی تھی اور درہ سالانگ سے ٹینک اور بھاری اسلحہ کابل میں داخل ہورہا تھا۔ اْس وقت افغانستان کا صدر حفیظ اللہ امین تھا، جس کا تعلق پرچم پارٹی سے تھا۔ اْس نے اپنے استاد نور محمد ترہ کئی کو موت کے گھاٹ اتار کر صدارتی محل پر قبضہ کرلیا تھا۔ نور محمد ترہ کئی کا تعلق خلق پارٹی سے تھا۔ خلق اور پرچم کی کشمکش شخصیات اور نظریات کے حوالے سے چل رہی تھی۔ اس کشمکش اور تصادم نے افغانستان کو تباہ کردیا تھا اور یہ دونوں سوویت یونین کے لیے دردِ سر بنے ہوئے تھے، اس لیے برڑنیف نے افغانستان میں مداخلت کا فیصلہ کرلیا۔ یوں سرخ فوج افغانستان میں داخل ہورہی تھی اور ماسکو میں سردار داؤد اور برڑنیف کے درمیان مذاکرات ہورہے تھے کہ دونوں کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ اور شدید جھڑپ ہوئی، جس کا نتیجہ افغانستان میں سردار داؤد کا تختہ الٹنے کی صورت میں نکلا، انہیں کمیونسٹوں نے بڑی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا اور جیل سے نور محمد ترکئی کو نکال کر تختِ کابل پر بٹھا دیا۔
جب یہ خبر سنی تو دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ بے شمار خدشات ذہن میں اٹھ رہے تھے۔ طبیعت بے چین ہوگئی تھی۔ بھٹی مرحوم سے اجازت لی اور پیدل گھر کی جانب چل پڑا۔ خیالات کا ایک ہجوم تھا جو ذہن کو گھیرے ہوئے تھا۔ گھر انسٹی ٹیوٹ روڈ پر تھا۔ محمد خان مری میرے پیچھے آرہا تھا، اْس نے قریب آکر آواز دی اور مجھے رکنا پڑا۔ اس نے کہا کہ آپ کو خبر ہوگئی کہ روس افغانستان میں داخل ہوگیا ہے اور یہ بہت بری خبرہے۔ میں نے ان سے کہا کہ یہ ایک اچھی خبر ہے۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھنے لگے اور کہا کہ شادیزئی صاحب یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں! ان سے کہا کہ روس کو افغانستان میں شکست ہوگی۔ (جاری)

اپنا تبصرہ بھیجیں