ثواب دارین

تحریر: انورساجدی
اوپروالوں کے دستور نرالے ہیں؟ پہلے یوسف رضا گیلانی کو 16ووٹ زیادہ دلواکر جتوایا پھر چیئرمین کے الیکشن میں ہروایا اور اب زبردست انجینئرنگ کرکے انہیں اپوزیشن لیڈر بنوایا اس میں کیا حکمت پوشیدہ ہے یہ جلد پتہ چل جائیگا یہ بھی کہاجاسکتا ہے کہ مقتدرہ اور پیپلزپارٹی کی گٹھ جوڑ ثابت ہوگئی ہے اس کا بڑا ثبوت باپ پارٹی کا وہ نام نہاد فارورڈ بلاک ہے جو اچانک تشکیل دیا گیا تا کہ ضرورت پڑنے پر گیلانی کے حق میں زیادہ سے زیادہ ووٹ ڈالے جاسکیں ویسے تو دلاور اورکہدہ بابر اجازت کے بغیر گوادر سے باتل پہاڑ تک بھی نہیں جاسکتے چہ جائیکہ کہ اپنی پارٹی توڑکر فارورڈ بلاک بنائیں جے یو آئی کے پانچ اراکین شائد کنفیوز ہوئے کہ انہوں نے اپنی رائے کااظہار ہی نہیں کیا جس کی وجہ سے اعظم تارڑ کے حق میں صرف21ارکان نے درخواست جمع کروائی اے این پی اور جماعت اسلامی نے بھی پیپلزپارٹی کے امیدوار کا ساتھ دیا اگر سرکاری جماعت کے ووٹوں کو الگ کیاجائے تو بھی زرداری کے تین عدد ووٹ زیادہ تھے لیکن وہ اپوزیشن لیڈر بنانے کیلئے کافی نہ تھے یوسف رضا گیلانی کا نوٹیفکیشن بھی چیئرمین نے جلد بازی میں جاری کردیا ن لیگ اگرچہ اعتراض کرنے میں حق بجانب ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ اس عمل سے اس کے پیپلزپارٹی سے تعلقات پر کتنا اثرپڑے گا جو پہلے سے سردمہری کاشکار ہیں۔
سرکاری ناقدین نے بلاول اور مریم کی ایک دوسرے پر گولہ باری کے بعد کہا تھا کہ پی ڈی ایم کاانتقال ہوگیا ہے اگر پہلے نہیں ہوا تھا تو اب ہوا ہے اگر سانس باقی ہے تو مولانا اپنی حکمت چلائیں گے جو معلوم نہیں کہ کارگر ثابت ہوگی کہ نہیں اگرچہ ن لیگ کے اعظم تارڑ بھی کافی عرصہ سے مقتدرہ کے ہاں پسندیدہ رہے ہیں بلکہ بینظیر کے قتل کے وقت وہ اس کا حصہ تھے موصوف نے لیاقت باغ کے سامنے جائے حادثہ کو دھوکرتمام ثبوت مٹھادیئے تھے اس حوالے سے زرداری حق بہ جانب تھے کہ وہ ان کا اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے راستہ روکیں عجیب بات یہ ہے کہ جن لوگوں پر بینظیر کے قتل کاشبہ ہے یا زرداری پر تشدد میں حصہ ہے ان سب کو ن لیگ نے پنجاب میں عہدے دیئے اور ان کی سرپرستی کی ایک طرف ن لیگی قیادت نے بینظیر کی قبر پر حاضری دے کر انکو خراج عقیدت پیش کیا دوسری جانب مشکوک افراد کو نوازا یہ کھلا تضاد ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان پرانی کدوتیں بدستور موجود ہیں اور بظاہر ان کا ایک دوسرے کے ساتھ چلنا غیر نظری عمل ہے آئندہ چل کر ثابت ہوگا کہ ن لیگ اور پیپلزپارٹی محاذ آرائی کا راستہ اختیار کریں گے یا باہمی ضرورتوں اورمصلحتوں کے تحت پی ڈی ایم میں بادل نانخواستہ اکٹھے رہیں گے۔
ن لیگ کا یہ کہنا البتہ سوفیصد درست ہے اگر گیلانی کو اپوزیشن لیڈر لانا پیپلزپارٹی کی مجبوری تھی تو یہ مجبوری نوازشریف کو بتادیتے وہ یہ عہدہ ضرور پیپلزپارٹی کی نذرکردیتے احسن اقبال نے ایک پریس اعلان میں کہا کہ ساری دنیا کو پتہ ہے کہ باپ پارٹی والے کس کے کہنے پر ووٹ دیتے ہیں ادھر حکومت کو ن لیگ کا راستہ روکنے پراطمینان حاصل ہوا ہے کیونکہ اس وقت ن لیگ حکومت کے ریڈار پر زیادہ ہے بلکہ ہدف ہے یہ الگ بات کہ حکومت نے گھبرا کر مریم کی نیب میں پیشی ملتوی کردی اسے خدشہ تھا کہ مریم کے ساتھ کافی لوگ آئیں گے اور لاہور شہر کو تہہ وبالا کردیں گے دلچسپ بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی نے بھی اپنا جلوس بھیجنے کا اعلان کیا تھا خیراب تو پیپلزپارٹی نے ن لیگ کودھچکہ دیا ہے جس کے بعد شیخ رشید کا یہ کہنا درست معلوم ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی عمران حکومت کی انشورنس پالیسی ہے اسی کی وجہ سے یہ حکومت اپنے پانچ سال پورے کرے گی بقول ان کے حکومت کا گرنا پیپلزپارٹی کے فائدے میں نہیں ہے کیونکہ اس سے پیپلزپارٹی سندھ کے اقتدار سے محروم ہوجائے گی حکومت کی تبدیلی یا قبل ازوقت انتخابات صرف اور صرف ن لیگ کے فائدے میں ہے اس سے قطع نظر ملک کے سیاسی حالات شدید دھند کی لپیٹ میں ہیں ایک ناپسندیدہ کھیل جاری ہے سیاستدانوں کی مزید رسوائی کا اہتمام کیاجارہا ہے ان کیخلاف میڈیا ٹرائل جاری ہے مولانااور ن لیگ کو نیچا دکھایاجارہا ہے۔”چیلنجرز“ مزے میں ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے پی ڈی ایم میں رخنہ ڈال کر اپوزیشن کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اپوزیشن ایک ہارے ہوئے لشکر کی طرح ہوگئی ہے ازسرنو صف بندی میں اسے کافی وقت لگے گا پہلے تو مولانا کو اندرونی اختلافات ختم کرنے ہونگے اس کے بعد حکومت مخالف تحریک کو دوبارہ ترتیب دینا پڑے گا عید سے قبل اس کا کوئی امکان نہیں ہے پیپلزپارٹی استعفوں کے بغیر لانگمارچ کی حمایت کرے گی اس کا مقصد سودے بازی کی اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانا ہے تاکہ زرداری کیخلاف حکومتی کارروائیوں کو روکا جاسکے ن لیگ پر بھاری ہاتھ ڈالنے کے بعد حکومت کا پکا پروگرام تھا کہ وہ زرداری کیخلاف پرانے مقدمات دوبارہ کھولے سندھ میں شوگر انڈسٹری کو دی جانے والی سبسڈی کے مسئلہ کو اٹھائے اور سوئس کیس دوبارہ کھولے حالانکہ سوئس مقدمات زیادہ وقت گزرنے کے بعد ٹائم بار ہوچکے ہیں لیکن منی لانڈرنگ اور اینٹی ٹیریرسٹ قوانین کے تحت اسے دوبارہ اٹھایا جاسکتا ہے گوکہ عمران خان ذاتی طور پر دونوں جماعتوں کے یکساں خلاف ہیں لیکن مقتدرہ باری باری مارنا چاہتی ہے اس لئے بعض حالات عمران کے علم میں لائے بغیر نمٹائے جاتے ہیں حکومت کی پوری کوشش ہے کہ برطانیہ میں سابق ہائی کمشنر واجد شمس الحسن کی خدمات حاصل کی جائیں موصوف90سال کے ہوگئے ہیں اور انہیں عملی تعاون کی بہت ضرورت ہے تاہم پہلے مرحلے میں شوگرمافیا کیخلاف کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے تاکہ عوام کو مطمئن کیاجاسکے حکومت نے جہانگیر ترین اور شریف خاندان کومجرموں کی صف میں شامل کردیا ہے اور چینی کی قیمتوں کے بحران کو ان کی سازش کانتیجہ قرار دیا ہے غالباً عمران خان اپنے دوست اورمحسن جہانگیر ترین کو درس عبرت بتانا چاہتے ہیں ان کا پرانا ریکارڈ ہے کہ وہ اپنے کسی محسن کو نہیں بخشتے۔
یہ الگ بات کہ شوگر گروپ اعلیٰ عدالتوں سے ریلیف حاصل کرے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس وقت طاقت کے تینوں ستون ایک پیچ پر آگئے ہیں جس کی وجہ سے اپوزیشن کی مشکلات میں اضافہ ہوگا مخالفین تو یہ بھی کہتے ہیں کہ عمران حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے بجائے کہ وہ چینی کی قیمتوں میں کمی لائے وہ مٹی کی ناک رکھنے کیلئے جہانگیر ترین اور شریف خاندان کیخلاف کارروائی کرکے اپنے آپ کو بری الزمہ قراردے گی اگرچینی کا بحران جہانگیر ترین حمزہ اور مریم نے پیدا کیا ہے تو گندم کا بحران کسی کا پیدا کردہ ہے یا مہنگائی عمومی طور پر قابو سے باہر ہے اس میں کس مافیا کا ہاتھ ہے؟اگر دیکھا جائے تو اس کی ساری ذمہ داری حکومت کی نااہلی اور بیڈگورننس پر ہے اب جبکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے حکم پر متعدد شعبوں کی ٹیکس میں چھوٹ ختم کردی ہے اور ”نیپرا“ کو بے لگام بناکر اسے اختیار دیدیا ہے کہ وہ جب چاہے ازخود بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کرسکتا ہے۔اس کے بعد مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا دعویٰ سفید جھوٹ اور عوام کو بے وقوف بنانے کے مترادف ہے اگرچہ اسٹیٹ بینک کو خودمختار ادارہ بنانا اچھا اقدام ہے لیکن یہ بھی بنیادی طور پر آئی ایم ایف کی شرط ہے حکومت نے قرضوں کے دوبارہ حصول کیلئے یہ غیرمعمولی اقدامات اٹھائے ہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے نشاندہی کی تھی کہ حکومت نے اسے غلط اعداد وشمار فراہم کرکے غلط بیانی سے کام لیا تھا اسکے علاوہ اس حکومت کا وطیرہ ہے کہ وہ سطحی اقدامات اٹھاکر عوام کو مطمئن کرنے کی کوشش کررہی ہے وزیراعظم کے مشیر برائے توانائی ندیم بابر سے جبری استعفیٰ لینا اسی سلسلے کی کڑی ہے ندیم بابر کی اپنی کمپنیاں تھیں اور انہوں نے خوب مال کمایا اب جاکر ان سے استعفیٰ طلب کرلیا گیا ہے وفاقی کابینہ میں رزاق داؤد سمیت کئی ارکان ایسے ہیں جو بڑے بڑے کاروباری گروپ ہیں اور وہ حکومت میں رہ کر فوائد اٹھارہے ہیں۔موجودہ حکومت کے پاس ملکی حالات تبدیل کرنے کیلئے صرف ڈیڑھ سال باقی ہے کیونکہ6ماہ تو نگران حکومت اور انتخابی تیاری میں لگ جاتے ہیں اگر اس نے باقیماندہ مدت میں کوئی کارکردگی نہ دکھائی تو آئندہ انتخابات میں وہ سب سے بڑی جماعت کی بجائے ایک عام جماعت بن جائے گی اگر اس نے آئندہ ڈیڑھ سال بھی جنگ وجدل میں گزاردیئے تو اس کا اللہ ہی حافظ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں