بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں ایک پنے کا اضافہ۔۔۔۔؟

تحریر: رشید بلوچ
جنوری 2018کو مسلم لیگ ن کے وزیر اعلیٰ نواب ثنا اللہ زہری کے خلاف انکے اپنی جماعت کے 24اراکین نے بغاوت کا لال جھنڈا لیکر اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرا دی،اس سے پہلے کہ تحریک عد م اعتماد پیش ہوتی چیف آف جھالاوان نے ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت سمجھی،نواب ثنا اللہ زہری کے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کیئے بغیر استعفیٰ دینے پر وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نواب صاحب نے ایک ٹیلی فون کال پر استعفیٰ دیا ہے، نواب ثنا للہ زہری کے بعد جھاؤ سے تعلق رکھنے والے پرانے مسلم لیگی خاندان کے چشم و چراغ میر عبد القدوس بزنجو کو وزارت اعلیٰ کے گدی پر بٹھا یا گیا، اس وقت پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے میر عبد القدوس بزنجو کو دست راست میں بٹھا کر کہا تھا کہ ن لیگ کو,, چھوٹ،، پہنچانے کا یہ عظیم کا رنامہ جمہوریت میں نے سر انجام دیا ہے،سردار آصف علی زرداری کے اس دعوے کو بلوچستان کے سیاسی حالات پر نظر رکھنے والے کسی فرد نے در خور اعتنا نہیں سمجھا،آصف علی زرداری کے دعوے پر یقین نہ کرنے کیلئے ایک ہی دلیل کافی تھی کہ پیپلز پارٹی 2018کے عام انتخابات میں کسی بڑے پردے پر آتی ہوئی نظر نہیں آرہی تھی اگر آصف علی زرداری کی جگہ یہی دعویٰ عمران خان کرتے تو شائد بلوچستانیوں کو یہ دعویٰ ہضم بھی ہوجا تا،بلوچستان کی پارلیمانی سیاست کا مزاج چھڑتے سورج کی روشنی کی طرف بھاگنے کی ہے، جس جماعت نے مرکز میں حکومت کی ہے بلوچستان کے الیکٹیبلزنے اس پر اپنی وفاداریاں نچاور کی ہیں، ن لیگ اس حوالے سے خوش قسمت رہی ہے کہ زیادہ تر اسے ہی شرف سلامی میسر آیا ہے،2018 کے عام انتخابات سے قبل ن لیگ کے باغی گروپ نے اپنی طرف سے یا کسی کے ا شارے پر پیپلز پارٹی کو یقین دلا یا تھا کہ 20.25گرو ہی جتھہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگا، چونکہ سب کے سب الیکٹیبلز ہیں یہ سب اپنی نشست جیتنے کی پوزیشن میں بھی ہیں پیپلز پارٹی کوبیٹھے بٹھا ئے بلوچستان میں حکومت بنانے کا نادر موقع ہاتھ لگنے والا ہے،آصف علی زرداری اس وجہ سے بھی خوش فہمی کا شکار بنے کیونکہ اس سے قبل 2008کا تجربہ انکے سامنے تھا جہاں سب سے کم تعدادکے باوجود اکثریت نے پیپلز پارٹی کے اندر خود کو سمو دیا اور پیپلز پارٹی کی حکومت بنوا دی لیکن 2018میں ایسی کوئی پیشنگوئی نہیں ہو رہی تھی اس لیئے یہ ممکن ہی نہ تھا کہ یہ جتھہ پیپلز پارٹی میں شامل ہواجاتی۔۔۔۔
اس وقت قومی اسمبلی میں دوسری بڑی جماعت ن لیگ کی ہے لیکن قائد حزب اختلاف کا عہدہ پیپلز پارٹی کے پاس ہے، ن لیگ نے صدارتی انتخاب میں اپنے سب سے قریبی حلیف مولانا فضل ارحمان کی حمایت کی تھی، چیئرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ انتخابات میں بھی پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام کو ن لیگ نے بھر پور حمایت دی،سینٹ میں شکست کی وجہ خود پیپلز پارٹی بنی،ن لیگ اپنی طرف سے ماضی میں ہونے والے غلطیوں کا ہر لحاظ سے کفارہ ادا کرنے کوتیار ہے، لیکن لگ ایسا رہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے ن لیگ کو مزید امتحان میں ڈالنے کی روش اپنا ئی ہوئی ہے، استعفوں کے معاملے پر تو پیپلز پارٹی اپوزیشن سے اپنی راہیں تقریبا الگ کر چکی ہے، اپوزیشن اور پیپلز پارٹی میں خلا مزید اس وقت پیدا ہوگیا جب پیپلز پارٹی نے سینٹ میں قائد حزب اختلاف کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کی حمایت حاصل کی اور اپوزیشن کو اعتماد میں بھی نہیں لیا، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان آہستہ آہستہ تلخیاں بڑھنے لگیں ہیں،بلا ول بھٹو نے جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کے ساتھ ہونے والے اپنے پریس کانفرنس میں مریم نواز سے متعلق کہا تھا کہ میں اپنے نائب صدر کو بتا دوں گا کہ وہ مریم نواز کے رد عمل کا جواب دیں،ایسی ریمارکس دینا اپنے اپوزیشن ساتھی کو نیچا دکھانے کے زمرے میں آتا ہے، گویا بلاول بھٹو زہنی طور پر مریم نواز کو اپنے برابری کے لائق نہیں سمجھتے، ساتھ میں بلاول بھٹو کا ن لیگ کو اشارتا آمر کا پیدوار کہنا وہ بھی ایک ایسے وقت میں جہاں گزشتہ دوسالوں میں دونوں جماعتوں کا اپوزیشن میں ایک رفاقت رہی ہے یہ بھی موقع مناسبت کے موافق نہیں، پیپلز پارٹی اگریہ سمجھتی ہے کہ مریم نواز عہدے کے لحاظ سے بلاول بھٹو کے ہم پلہ نہیں ہیں تو اپنی بات پیپلز پارٹی کو پی ڈی ایم بنتے وقت اپوزیشن جماعتوں کے سامنے رکھنا چاہیے تھا، دوسری بات یہ ہے کہ شہباز شریف کی جیل جانے کی وجہ سے مریم نواز اس وقت اپنی جماعت میں قائم مقام صدر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں،لامحالہ ن لیگ کی قیادت نے بلاول بھٹو کی حالیہ بیان بازی کو بھانپ لیا ہے اب انہیں احساس ہونے لگا ہے کہ پیپلز پارٹی اور ن لیگ اپوزیشن میں ایک ساتھ نہیں چل سکتے،اپنی قیادت کی حیثیت زیر کرنے پر ن لیگ بھی تا دیر خاموش نہیں بیٹھ سکتی۔۔۔۔۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ کو اس وقت مکافات عمل کا سامنا ہے، مسلم لیگ ن کی ماضی جمہوریت کیلئے اتنی شاندار نہیں اسکے باوجود مسلم لیگ ن پر طعنہ زنی سے پہلے پیپلز پارٹی کو یہ بھی سوچنا چاہیے کہ انگلیاں تو اسکی طرف بھی اٹھ سکتی ہیں کیونکہ آج کی پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو اور زوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی نہیں بلکہ یہ سردار آصف علی زرداری کی پیپلز پارٹی ہے، یہ وہی پیپلز پارٹی ہے جس نے ق لیگ کو قاتل لیگ کہا اور چوہدری برادران کوپنی حکومت میں شامل کرکے تاریخ میں پہلی بار ڈپٹی وزیر اعظم کی آسامی پیدا کی تھی، پیپلز پارٹی ایک طرف تو تحریک انصاف کو سلیکٹڈ کہتی ہے لیکن اس کے سامنے مفاہمت کیلئے جھولی بھی پھیلاتی رہی ہے، اس میں کوئی بعید نہ تھی کہ پیپلز پارٹی تحریک انصاف کے ساتھ ق لیگ طرز کی مفاہمت کر گزرتی اگر عمران خان انکار نہ کرتے، پیپلز پارٹی مفاہمت کیلئے تو بلوچستان میں بھی تیار بیٹھی تھی لیکن یہ مفاہمت ہائی جیک ہوا، جنہوں نے پیپلز پارٹی میں جانا تھا انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کی صورت میں ایک نئی جماعت بنا دی، شاید پیپلز پارٹی اب بھی اس خوش فہمی ہے کہ اسے بلوچستان میں ایک بہت بڑا بریک تھرو ملے گی، یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے بلوچستان عوامی پارٹی کیلئے چیئرمین سینٹ کی نشست کی قربانی دیدی۔۔۔۔
اپوزیشن اور پی ڈی ایم کی از سر نو پیوند کاری کیلئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ سردار اختر مینگل نے ڈاکٹر جہانزیب جمالدینی کی سربراہی میں اپنی جماعت کی ایک کمیٹی تشکیل دی ہے اس کمیٹی نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی قیادت سے ملاقات کرکے,, غلط فہمیوں،، کو دور کرنا ہے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بی این پی کے علاوہ نیشنل پارٹی، اے این پی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر مشتمل چار جماعتی کمیٹی بنائی جاتی تاکہ,,چھوٹے،، صوبوں اور,, چھوٹی،، جماعتوں کی ایک توانا کمیٹی,, ہاتھی،، نما جماعتوں سے بیٹھک لگا تی، چاروں جما عتیں مل کر کوئی نتیجہ بھی بر آمد کراتے لیکن ایسا کیا نہیں گیا،بہر حال پی ڈی ایم کو متحد کرنے کا بیڑھا اب ڈاکٹر جہانزیب کے ناتواں کندھوں پر آں پڑا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر جہانزیب اتنا بھاری بھرکم وزن کیسے اٹھا پائیں گے، تاہم اچھائی کی امید رکھنی چاہیے اگر پیپلز پارٹی استعفوں پر رضا مند ہوئی تو ڈاکٹر جہانزیب تاریخ میں امر ہو جائیں گے اور بلوچستان کی سیا سی تاریخ میں ایک پنے کا اضافہ ہوجائے گا