بنگلہ دیش سے معافی اور بھارت کے ساتھ امن

تحر یر: انور ساجدی
اس کے باوجود کہ حسینہ واجد نے نریندر مودی سے ملاقات کے دوران ایسی جگہ نشست رکھی جس کے اوپر 16دسمبر 1971کو سرینڈر والی تصویر آویزاں تھی لیکن عمران خان نے بنگلہ دیشی وزیراعظم کو خیرسگالی اور دوستی کے پیغامات بھیجے اسی طرح انہوں نے مودی کی طرف بھی دوستی کا ہاتھ بڑھایا کہاں دو سال قبل تک جنگ کی صورتحال تھی اور کہاں پاکستان نے بھارت سے چینی اور کپاس درآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے بہت اچھی بات ہے کہ دونوں ہمسائے دشمنی اور نفرت چھوڑ کر دوستی اور تجارت کی طرف آئیں لوگوں کو یاد ہوگا کہ
نواز شریف کے دوسرے دور میں جب اٹل بہاری دوستی بس کے ذریعے طویل سفر طے کر کے دہلی سے لاہور پہنچے تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ صبح ہمیں آرڈر دیں شام کو ہم گیہوں آپ کے دروازے پر پہنچا دیں گے۔
لیکن اس کے بعد جنرل پرویز مشرف نے جو مہم جوئی کی اور کارگل میں جنگ چھیڑ دی تو پاک بھارت تعلقات خواب بن کر رہ گئے مشرف کارگل کی جنگ بھی ہار گئے اور تعلقات بھی بگاڑ گئے نتیجہ بدترین تباہی کی صورت میں نکلا۔
نواز شریف کے دوسرے دور میں جب مودی اچانک کابل سے رائے ونڈ پہنچے تو آسمان سر پر اٹھا لیا گیا نواز شریف کو انڈیا کا ایجنٹ اور مودی کا یار کہا گیا یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ مودی کو ویزے کے بغیر پاکستان آنے کی اجازت کیوں دی گئی کشمیر کے گزشتہ انتخابات میں بلاول بھٹو نے چیخ چیخ کر نعرہ لگایا کہ جو مودی کا یارہے وہ غدار ہے لیکن اس نعرے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا بلکہ پیپلز پارٹی بری طرح سے کشمیر کے انتخابات ہار گئی نواز شریف کی معزولی کے بعد عمران خان نے اقتدار میں آ کر وہی دشمنی والی روش اختیار کر لی ایسا مواقع بھی آیا کہ سرحد کے دونوں طرف مسلح افواج جنگ کے لئے تیار تھے لیکن یو اے ای نے بیچ میں آ کر نہ صرف صورتحال کو سنبھالا بلکہ ونگ کمانڈر ابھی نندن کو بھی رہائی دلائی عمران خان نے سلامتی کونسل جا کر کشمیر کا مسئلہ زور دار طریقے سے اٹھایا لیکن کسی نے ان کی بات نہیں سنی وہ اقوام متحدہ کے عظیم ہال میں حاضرین کے بغیر اپنے آپ سے خطاب کر رہے تھے جب مودی نے ہندوستان کے آئین میں تبدیلی کر کے کشمیر کا خصوصی اسٹیٹس ختم کر دیا تو عمران خان نے بہت شور مچایا اسلامی کانفرنس میں فریاد کی لیکن ترکی اور ملائیشیاء کے سوا کسی نے ان کی مدد نہیں کی۔
ایک سال سے زائد عرصہ ہو گیا کہ مودی نے کامیابی کے ساتھ کشمیر کو ہڑپ کر لیا عمران خان کی حکومت عملی طور پر کچھ نہ کر سکی
چندماہ قبل کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ سری نگر کی بچیاں ہر صبح سورج نکلنے کے بعد منتظر رہتی ہیں کہ کب پاکستان کی فوج آئے گی اور ہمیں نجات دلائے گی لیکن ان کی یہ آس اب مایوسی میں بدل گئی ہے کشمیر کے لوگ جان گئے ہیں کہ پاکستان کی حکومت زبانی کلامی ہمدردی کے سوا ان کیلئے کچھ نہیں کر سکتی کوئی مانے یا نہ مانے کشمیر کے کیس کو بلوچستان کی صورتحال نے بہت نقصان پہنچایا جب بھی پاکستان کشمیریوں کے انسانی حقوق کا مسئلہ اٹھاتا تھا مودی حکومت جواب میں بلوچستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے مسئلہ کو اجاگر کرتی تھی اس لئے دنیا نے پاکستانی حکومت کی نہ سنی کیونکہ اس کے اپنے گھر کے ایک حصے کے حالات کشمیر سے ملتے جلتے تھے۔
اگر کشمیر کی زمینوں کو خریدوفروخت کیلئے آزاد کر دیا گیا ہے تو بلوچستان میں بھی عوام کی جدی پشتی زمینوں کو ژوب سے لے کر جیونی تک ایکوائر لینڈ قرار دیا گیا ہے ریاست جہاں چاہے زمین جبراً حاصل کر لیتی ہے حالانکہ یہ ایک وفاق ہے اس کا آئین ہے جس میں جان و مال اور غیرت و آبرو کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے لیکن بد قسمتی سے بلوچستان میں آئین کے اس حصے کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔
پاکستان کے جو ذی شعور لوگ ہیں انہیں اچھا لگ رہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے تعلقات نہ صرف معمول پر آئیں بلکہ وہ بہترین پڑوسی اور دوست بن جائیں اگر دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تجارت کریں تو وہ اپنی 80فیصد ضروریات پوری کر سکتے ہیں پاکستان سے بھارت بھیجنے کیلئے کچھ نہیں لیکن بھارت سے بہت کچھ منگوایا جا سکتا ہے تجارت شروع ہونے کے بعد دیرپا امن کیلئے کوششوں کا آغاز ہونا چاہئے دونوں ممالک کو اسلحہ کی دوڑ ترک کر دینی چاہئے اور عالمی طاقتوں کی ثالثی میں ایٹم سمیت دیگر خطرناک اسلحہ کی تیاری منجمد کر دینی چاہئے بلکہ یہ معاہدہ کرنا چاہئے وہ کبھی ایک دوسرے پر ایٹمی اسلحہ سے حملہ نہیں کریں گے اگر پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کی عالمی ضمانت ملے تو اس کے بعد مسلح افواج کی تعداد میں کمی لائی جائے تاکہ برصغیر کے لامحدود وسائل پونے دو ارب بدحال اور فاقہ زدہ عوام کی بہتری پر خرچ ہو سکیں اس وقت دنیا کی کل آبادی کا چھٹا حصہ برصغیر اور اطراف میں بستا ہے اس آبادی کا نصف حصہ خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے آنے والے وقتوں میں جب اس آبادی میں بے تحاشہ اضافہ ہو گا تو لوگوں کی اتنی بڑی تعداد کو ایک وقت کا کھانا مہیا کرنا بھی ممکن نہ ہو گا پاکستان کا حال سامنے ہے اتنا بڑا زرعی ملک اپنی آبادی کے لئے گندم چینی اور کپاس پیدا کرنے کی پوزیشن میں نہیں آئندہ چند سال تک یہ انڈیا سے درآمد کرنا پڑیں گی کیونکہ دور دیشوں سے یہ اجناس لانا بہت مہنگا پڑتا ہے۔
اگر بھارت اور پاکستان جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کر لیں تو ان کے عوام کیلئے بہت اچھا ہو گا ویسے بھی اس وقت پاکستان جس اقتصادی زبوں حالی کا شکار ہے وہ کسی جنگ کا متحمل نہیں ہو سکتا پاکستان کی موجودہ قیادت نے دیر آید درست آمد کے مصداق تین سال بعد اصل حقائق کا ادراک کر لیا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکمرانوں نے اپنی پرانی ڈاکٹرائن تبدیل کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ پہلے گھر کی حالت درست کرنی چاہئے اس کے بعد باہر کے معاملات پر توجہ دینی چاہئے۔
بھارت اور پاکستان کو سابق برطانیہ عظمیٰ جو گزشتہ صدی تک 3چوتھائی کرہ ارض پر حکمرانی کرتا تھا کی نئی پالیسی سے سبق سیکھنا چاہئے برطانیہ کی موجودہ حکومت نے اپنی مسلح افواج کی تعداد 75 ہزار تک محدود کرنے کا فیصلہ کر لیاہے اس کی بجائے وہ ٹیکنالوجی سے کام لے گا اور خلاء میں اپنے اڈے قائم کرے گا مودی کو ہندومت کے پرائیویٹ لشکروں کو ختم کرنا ہوگا جبکہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنے اتنہاء پسند جنگجو ملا صاحبان کو کنٹرول میں کرے دونوں طرف کے انتہاء پسندوں کی موجودگی میں اس خطہ میں مستقل امن کا قیام ممکن نہیں پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کو دل بڑا کر کے ایک اور کام بھی کرنا چاہئے جو آج تک کوئی بھی پاکستانی حکمران نہ کر سکا انہیں چاہئے کہ وہ 1971ء کے المناک واقعات پر بنگلہ دیش سے معافی مانگیں اس سے پاکستان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوگا اورا س کی عالمی پسندیدگی بڑھ جائے گی اگر انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، نیپال اور افغانستان کے درمیان دوستی ہو جائے تو اس خطہ کے کروڑوں عوام سکون کا سانس لیں گے اور انہیں بھوک افلاس اور ناداری سے نجات مل جائے گی پاکستان اور بھارت کے درمیان امن کے بعد برصغیر یا جنوبی ایشیاء دنیا کا ایک مثالی خطہ بن جائے گا عالمی جائزوں کے مطابق اس وقت نامساعد حالات کے باوجود انڈیا کی سالانہ شرح نمو 12.6فیصد ہے امن کے بعد انڈیا اور پاکستان ساری دنیا کو ترقی کے میدان میں پیچھے چھوڑ دیں گے

اپنا تبصرہ بھیجیں