شکست خوردہ لشکر

تحریر:رشید بلوچ
پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) جس تیزی سے پروان چھڑ رہی تھی، اسی تیزی کے ساتھ معدوم ہوتی جارہی ہے، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں، طنزیہ بیان بازی سے لگ ایسا رہا ہے کہ دونوں جماعتوں نے زہنی طور پر الگ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے،اتحاد کے سر براہ مولانا فضل الرحمان بیماری کی وجہ سے صاحب فراش ہیں، مولانا صاحب بھی دونوں جماعتوں کی تیز طرار بیان بازی سے مایوس نظر آرہے ہیں، کمانڈر کی مایوسی کا مطلب ہی یہی ہے کہ لشکر نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں وہ مزید جنگ لڑنے کی سکت نہیں رکھتی، میدان جنگ میں اگر لشکر میں سے ایک پلٹون ہتھیار پھینک کر واپسی کی راہ اپنا لے تو پوری لشکر کے حوصلے پست ہوجاتے ہیں،پست حوصلہ لشکر دشمن سے پوری آب و تاب سے جنگ لڑنے کی ہمت کھو دیتی ہے، یہی حا ل پی ڈی ایم کی ہے جس میں سے پیپلز پارٹی نے میدان میں آگے بڑھنے کی بجائے واپسی کی راہ اپنا ئی ہے، صرف ایک جماعت کی سرنڈر ہونے سے پوری پی ڈی ایم لشکر کی فیصلہ کن جنگ لڑنے کی ہمت جواب دے گئی ہے، اس سے یہی مطلب اخذ کی جاسکتی ہے کہ پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کے سہارے میدان میں کھڑی تھی، پیپلز پارٹی کے بغیر پی ڈی ایم کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے،اگر ان کی حیثیت ہے بھی تو وہ اتنی متاثر کن نہیں،پارلیمنٹ میں اس وقت ن لیگ کے بعد پیپلز پارٹی تیسری بڑی جماعت ہے،لامحالہ اپوزیش اتحاد میں پیپلز پارٹی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں، مشاور ت سازی میں پیپلز پارٹی کی رائے کو اپوزیشن حلقوں میں فوقیت دی جاتی ہے،اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں ہونا چاہئے کہ پیپلز پارٹی کو تمام صورتحال میں ویٹو پاور دی جائے، اپوزیشن کی جماعتیں پیپلز پارٹی کی جتنی اہمیت بڑھاتی رہیں گی، پیپلز پاٹی اتنی مضبوطی سے حکومت کے ساتھ ڈیل کرنے کی پوزیشن میں ہوگی،پیپلز پارٹی اپوزیشن کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھا کر اپنے لئے مستقبل میں مفاہمت کا راستہ اپناتی رہے گی، میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ موجودہ پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کی نہیں بلکہ سرداری آصف علی زرادری کی جماعت ہے جسے عرف عام میں مفاہمت کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے ان کے ہاں اصولی سیاست کی کوئی اہمیت اور وقعت نہیں۔۔
پی ڈی ایم کی تخلیق نے سیاسی جماعتوں کے اندر پائے جانے والے جمود کو توڑ کرسیاسی حرارت پیدا کی ہے، سیاسی مکالہ بازی ہوئی ہے، اسی موومنٹ سے سیاسی جماعتوں نے میدان میں خو د کو زندہ رکھا ہوئی ہے، اس دوران بعض جماعتوں کی جانب سے متنازعہ تقاریر بھی کی گئیں، جنہیں ریاستی قوانین کے تحت نشر ہونے سے روکا بھی گیا، ان تقاریر پر مخالف حلقوں کی جانب سے تنقید بھی کا جاتی رہی لیکن مجموعی طور پر ایک سیا سی ماحو ل میں ہلچل ضرور موجود رہی،اب ایک جماعت کی وجہ سے ساری بنی بنائی گھروندے کو ملیا میٹ کرنا خود سیاسی جماعتوں کی مفاد میں نہیں ہوگا، معاشرے کے ہر فرد کو معلوم ہے کہ پی ڈی ایم میں موجود مختلف الخیال جماعتیں معاشرے میں کوئی انقلابی تبدیلی لانے والے نہیں اور نہ ہی ان جماعتوں کی جدوجہد کو جمہور سے جوڑا جاسکتا ہے،پی ڈی ایم ایک ایسی تحریک ہے جس میں سوائے ایک جماعت کی باقی تمام جماعتیں موروثیت کی گرد میں لپٹے ہوئے ہیں،تمام جماعتیں پاور گیم کا حصہ ہیں، ہر جماعت اپنے لئے آنے والے وقت میں سپیس پیدا کرنے کے تگ و دو میں ہے،پی ڈی ایم میں سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ اس میں عوامی مسائل کا محلولہ شامل نہیں، مہنگائی بیروزگاری،اس وقت سب سے بڑے عوامی مسائل ہیں جس سے ہر عام شہری جھوچ رہا ہے،شاید عوامی مسائل سیاسی جماعتوں کے ہاں زیادہ اہمیت کے لائق نہیں اس لئے ایسے بے وقعت،فضول قسم کے مسائل پی ڈی ایم کے منشور کا حصہ بھی نہیں۔
پی ڈی ایم میں جمعیت علما ء اسلام کے علاوہ کسی جماعت کے پاس مشکل حالات کا سامنا کرنے کیلئے افرادی قوت موجود نہیں،شاید پیپلز پارٹی دوسری جماعت ہوگی جس کے جیالے کسی حد تک قیادت کے کہنے پر سڑکوں پر نکل آئیں،حالانکہ ن لیگ اپوزیشن میں بہت بڑی جماعت ہے لیکن اسکے کارکن ووٹ دینے کی حد تک ن لیگ کا حامی ہے، پنجاب کا کوئی فرد مریم نواز کے کہنے پر پولیس کی لاٹھی کھانے کو تیار نہیں ہوگا، رہی بات نیشنل پارٹی، بی این پی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی،یہ بچارے غریب جماعتیں اگر یہ کوشش بھی کرلیں دو چار سو لوگ سڑکوں پر نکال بھی پائیں گے لیکن ان کے نان و نفقے کے اخراجات کہاں سے پوری ہوں گی؟بقول حافظ حسین احمد لانگ مارچ کی صورت میں جمعیت علما ء ا سلام کے سرفرشوں کی دال روٹی کی بندوبست ن لیگ نے اپنے زمے لی ہے،مولانا فضل الرحمان نے اپنے جماعت کے اندر ایک سلوگن دی ہے,, مال ن لیگ کی جان جمعیت کی،، لانگ مارچ کیلئے جمعیت کی تیاری پوری ہے اسے دال روٹی بھی ملے گی اور رہنے کیلئے تمبو بھی، مسئلہ ن لیگ کیلئے آن کھڑا ہوگا، اسے اپنی کارکن سڑکوں تک لانے میں دشواری کا سامنا ہوگا، لانگ مارچ کی صورت میں دیکھنا یہ ہوگا کہ ن لیگ سڑکوں پر اپنی حاضری بھی دکھا پائے گی یا جمعیت کے کارکن پر ہی گزارہ کرے گی، پی ڈی ایم کو
برقرار رکھنے کی زمہ داری ہمیشہ مولانا فضل الرحمٰن نبھاتے آئے ہیں،ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو جوڑنے کی مشکل زمہ داری ایک بار پھر مولانا کے کندھوں پر آن پہنچی ہے، چونکہ مولانا صاحب ناسازی طبیعت کی وجہ سے فلحال یہ زمہ داری نبھانے سے قاصر ہیں اور شاید رمضان المبارک گزرنے تک مریم نواز اور مولانا صاحب کی طبیعت سنبھل جائیں گی، عید کے بعد ہی پی ڈی ایم کے سانسوں میں روح پھونکی جائے گی، لیکن اب تک جو حالات نظر آرہے ہیں پیپلز پارٹی نے نہ صرف استعفوں کے معاملے پر پی ڈی ایم سے فاصلہ رکھا ہوا بلکہ لانگ مارچ کی صورت حال میں بھی پیپلز پارٹی پی ڈی ایم سے لاتعلق ہی رہے گی، پیپلز پارٹی کو سینٹ میں اپوزیشن لیڈر کی نشست ملنے کے بعد سے اشارہ یہی مل رہا ہے کہ پیپلز پارٹی نے حکومت سے مفاہمت کا دریچہ کھول رکھا ہے، اسی دریچے سے پیپلز پارٹی کو آنے والے وقت میں اقتدار کی بھینی خوشبو سنگھائی جارہی ہے، پی ڈی ایم پیپلز پارٹی کو چلتا ہی سمجھے لیکن اسکے بغل میں کھڑی اے این پی کو مضبوطی سے تھامے رکھے ایسا نہ ہو پیپلز پارٹی کو پکڑے رکھنے کی چکر میں اے این پی ہاتھوں سے پھسل جائے، اے این پی 2008سے پیپلز پارٹی کے قریبی جماعت مانی جارہی ہے، اے این پی نے پی ڈی ایم شاخوں سے اڑنے کا ایک عملی نمونہ سینٹ کی اپوزیشن نشست کے دوران پیپلز پارٹی کے ساتھ دے کر ہلکا ساا شارہ دیدی ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں