گردا ب سے نکلنے کے حکومتی عزائم

تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔ انور ساجدی
کتنی نااہل اپوزیشن ہے جو حکومت کی اتنی خامیوں اور خرابیوں کو کیش نہیں کر سکتی عہدوں کی خاطر پی ڈی ایم میں دراڑیں پڑ چکیں جس کے نتیجے میں ایک طرف مولانا صاحب دل چھوٹا کر کے عبدل خیل میں بیمار پڑ گئے جبکہ دوسری جانب مریم بی بی کی طبیعت بھی اچانک ناساز ہو گئی طبعیت کی سنگینی اتنی تھی کہ میاں صاحب کے ذاتی معالج ڈاکٹر لندن سے بھاگوں بھاگ لاہور آئے اور محترمہ کا معائنہ کیا وہ دن دور نہیں جب مریم کی ناسازی طبع اور رپورٹوں کا مسئلہ اٹھے گا جس کے بعد یہ مطالبہ سامنے آئیگا کہ انہیں علاج کیلئے لندن جانے کی اجازت دی جائے حالانکہ ان کے والد محترم ڈیڑھ سال سے لندن میں مقیم ہیں اور ایک دن بھی ایسی اطلاع نہیں آئی کہ وہ ہسپتال میں داخل رہے ہوں گوکہ بظاہر مریم کی بیماری کی وجہ پیپلز پارٹی کاسیاسی حملہ اور بے وفائی ہے لیکن بیمار ہونے کی صلاح انہیں بہت ہی اعلیٰ سطح پر دی گئی ہے ان کا موقف ہے کہ مریم بی بی بھی اگر اپنے والد کی طرح لندن میں رہیں تو سیاست میں جو ہلچل ہے وہ ختم ہو جائے گی کوئی مانے نہ مانے شریف خاندان کو اس وقت مریم کی لندن میں بہت ضرورت ہے کیونکہ وہ اپنے بھائیوں اور فیملی ٹرسٹ کی سربراہ ہیں سینکڑوں کاغذات پر ان کے دستخطوں کی ضرورت ہے اس کے بغیر کافی کام رکے ہوئے ہیں اس کے علاوہ لندن میں بھائیوں سے الگ مریم بی بی کا جو شاندارمحل ہے وہ سونا پڑا ہے جو اپنے مکین کا بے چینی سے منتظر ہے بظاہر امکانات ایسے ہیں کہ مریم کو باہر جانا نہیں چاہئے کیونکہ اس سے ن لیگ کی سیاست کو شدید دھچکہ لگے گا نہ صرف یہ بلکہ پارٹی دوبارہ چچا جان کی جھولی میں جا گرے گی اگرچہ حکام بالا سے کہا گیا ہے کہ کوئی گارنٹی نہیں کہ مریم واپس آ جائیں لیکن ان کے واپس نہ آنے سے انہیں کیا فرق پڑے گا ہاں یہ ضرور ہوگا کہ ن لیگ کو از سر نو صف بندی کرنا پڑے گی پارٹی کو اس کے صدر شہباز شریف کی حکمت عملی کے تحت چلنا پڑے گا جہاں تک شہباز شریف کا تعلق ہے تو وہ ”مارو مر جاؤ“ والی سیاست کے خلاف ہیں وہ ایک طرح سے صلح کل ہیں اور مصالحت کے لحاظ سے آصف علی زرداری کے طریقہ کار پر یقین رکھتے ہیں حکومت چونکہ اس وقت کئی محاذوں پر نبرد آزما ہے خاص طور پر اسے معاشی محاذ پر پے در پے ناکامیوں کا سامنا ہے اسے کچھ وقت پر سکون اور فراغت کے بھی درکار ہیں یہی وجہ ہے کہ وہ حفیظ شیخ کے بعد پیپلز پارٹی کے ایک اور وزیر خزانہ شوکت ترین کو پکڑ کر لا رہی ہے اگر پیپلز پارٹی نے معیشت اتنے اچھے طریقے سے چلائی تھی تو کپتان نے مختلف اوقات میں پیپلز پارٹی کی معاشی پالیسیوں کو سخت تنقید ہدف کیوں بنایا تھا اگر شوکت ترین کو لایا گیا تو یہ ایک نیا تجربہ ہوگا غالباً حکام بالا زور دے رہے ہیں کہ ایسا انتظام کیا جائے کہ 2023ء کے الیکشن تک یہ انتظام چلے کچھ مہنگائی میں کمی لائی جائے اور دوست ممالک سے مزید امداد‘ قرضے یا خیرات حاصل کی جائے حالانکہ کرپشن ختم ہونے کے باوجود خزانہ مکمل طور پر خالی ہو چکا ہے۔
حکومت کے انکار کے باوجود ماہرین کا کہنا ہے کہ معاشی صورتحال 1971ء سے قدرے بہتر ہے لیکن اس سے پہلے کبھی اتنی خراب نہیں تھی کپتان خارجہ پالیسی کے بارے میں بھی ایک بڑا یوٹرن لینے والے ہیں ترکی سے دوری اختیار کی جا رہی ہے ترک ڈراموں کا غبار اتر چکا ہے کیونکہ ترکی ڈرامے مفت تو دے سکتا ہے نقد مال نہیں دیتا اسی لئے دوبارہ سعودی عرب سے رجوع کیا جا رہا ہے سعودی عرب کو بھی دوبارہ پاکستان کی ضرورت اس لئے پڑ گئی ہے کہ چین نے اس کے دشمن نمبر ایک ایران سے ایک بڑا معاہدہ کیا ہے سعودی عرب یقینی طور پر ایران کے اندر گڑبڑ پیدا کرنا چاہتا ہے لیکن یہ گڑ بڑ پاکستان کے حق میں نہیں ہے اس وقت عمرانی حکومت پر سعودی عرب اور امریکہ دونوں اپنے مقاصد کیلئے دباؤ ڈال رہے ہیں امریکہ انسانی حقوق کی پامالی اور اقلیتوں کے ساتھ بدترین سلوک کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کر رہا ہے اگر یہ رپورٹ جاری کر دی تو یہ پاکستانی حکومت پر دباؤ بڑھانے کا ایک حربہ ہوگا افغانستان کے حوالے سے بھی امریکہ کو پاکستان کی پالیسیوں پر شدید تحفظات ہیں جن کا اظہار کچھ عرصہ کے بعد سامنے آ جائیگا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی ڈونلڈ ٹرمپ سے مختلف ہوگی جو بائیڈن کو چین کی عالمی پیش رفت پر بھی بہت تشویش ہے اس کے تدارک کیلئے ایک نیا مارشل پلان بن رہا ہے امریکہ ساؤتھ چائنا سی شمالی کوریا اور برما میں فوجی جنتا کی کارروائیوں کے بارے میں بھی ایک منصوبہ تیار کر رہا ہے اس کے ساتھ ہی سنکیسانگ صوبے میں یوغور مسلمانوں پر تاریخ انسانی کے بدترین مظالم کا مسئلہ بھی اٹھایا جائیگا چین کے اثرورسوخ کی وجہ سے اس مسئلہ پر پوری عالمی برادری خاموش ہے حتیٰ کہ ترکی بھی اپنے نسلی اور لسانی بھائیوں کے بارے میں چپ سادے بیٹھا ہے بعض عالمی مبصرین کا خیال ہے کہ پیران سالی کی وجہ سے جوبائیڈن اپنی مدت پوری نہیں کر سکیں گے لیکن اگر انہوں نے مدت پوری کرلی تو ہمالہ کے اس پار اور اس پار بڑی تبدیلیاں آ سکتی ہیں چین اس بارے میں بڑی تشویش میں مبتلا ہے یہی وجہ ہے کہ دو روز قبل پاکستانی حکام نے چینی سفیر کے ساتھ ایک میٹنگ میں یقین دہانی کروائی کہ سی پیک پر کام کی رفتار تیز کی جائے گی اب تک جس سست روی کا مظاہرہ ہوا ہے اسے دور کر دیا جائیگا لیکن ہنو دلی دور است کے مصداق سی پیک کو مزید 20برس کاعرصہ لگے گا گوادر کو خنجراب پاس تک لنک کرنے کیلئے ابھی تک کسی براہ راست منصوبے کا آغاز نہیں کیا گیا ریل تو دور کی بات ڈھنگ کی سڑک بھی تعمیر نہ ہو سکی ہے۔
اگر ایک کمرشل پورٹ کو چلانا ہے تو وہ سندھ اور پنجاب کے راستوں کے ذریعے کیسے فعال ہو سکتی ہے گوادر میں ایک دو منصوبے بنائے گئے ہیں لیکن ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
بعض حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ صوبہ ساؤتھ بلوچستان بنے نہ بنے لیکن پاکستانی حکام کے ذہن میں ہے کہ لسبیلہ سمیت بلوچستان کے ساحل کو ایک جداگانہ یونٹ کی حیثیت دی جانی چاہئے پہلے وہ ایک کوسٹل ڈویژن بنانا چاہتے تھے تاکہ یہ بہ وقت ضرورت کام آ سکے لیکن پھر اچانک انہوں نے قلات میں ”میری کے عین سامنے“ ساؤتھ بلوچستان کا بورڈ لگا دیا انتخاب پچھلے سال اس کی نشاندہی کر چکا تھا اس وقت قوم پرستی کے دعویدار سارے سیاسی رہنماء سو رہے تھے کئی مہینوں تک اس کے خلاف آواز نہیں اٹھائی گئی نواب رئیسانی نے توگوادر کو بلوچستان کا سرمائی دارالحکومت قرار دینے کا اعلان کیا تھا لیکن اس پر ایک دن بھی عملدرآمد نہیں ہوا بظاہر حکومت 1973ء کے آئین کی موجودگی میں کسی بھی صوبے کو تقسیم نہیں کر سکتی کیونکہ اس کیلئے آئین میں دو تہائی اکثریت سے ترمیم کی ضرورت ہے جو کہ حکومت کے پاس نہیں ہے زرداری جیسے بھی ہوں وہ آئین کی ہیئت تبدیل کرنے کی مخالفت کریں گے حکام ایک اور انتظام کے ذریعے اپنے دیرینہ مقاصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن انہیں فکر ہے کہ تحریک انصاف بھی بری طرح فیل ہوئی ہے وہ آئندہ انتخابات میں کوئی نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر پائے گی ایک تجویز یہ بھی زیر غور ہے کہ بچی کچھی تحریک انصاف‘ ق لیگ اور ن لیگ کے باغی گروپ کو دو تہائی اکثریت دلوائی جائے تاکہ آئین میں ترمیم کے ذریعے نئے صوبوں کا قیام عمل میں لاسکے اس وقت حکومت کو صوبہ جنوبی بلوچستان اور صوبہ جنوبی سندھ کی شدید ضرورت ہے کیونکہ بیشتر ملکی وسائل اسی پٹی میں ہیں یہ اتنا قیمتی علاقہ ہے کہ چین اپنے قرضوں کے بدلے میں بہ خوشی اس علاقے کو قبول کر کے اس میں کئی ہانگ کانگ چنگنڈو،شین جن اور مکاؤ بنا سکتا ہے اور اس کے ذریعے خلیج اور مشرق وسطیٰ کی مارکیٹوں پر قبضہ جما سکتا ہے امریکہ کا البتہ دیرینہ اصرار ہے کہ گوادر ایک کمرشل پورٹ نہیں ہے بلکہ وہاں چین ایک تزویراتی بحری مستقر تعمیر کر رہا ہے۔
کوئی دو سال ہوئے ایک امریکی سیٹلائٹ نے گوادر پورٹ کے اندر خاص تعمیرات کی تصاویر جاری کی تھیں گوادر کے عین سامنے اومان یو اے ای کویت‘ بحرین اور قطر میں امریکی فوجی اڈے ہیں ان ممالک میں برطانیہ نے اپنے آخری اڈے امریکہ کے حوالے کر دیئے ہیں اگر گوادر پورٹ ایک کمرشل پورٹ ہے یا تزویراتی مستقر ہے جو بھی ہے حقیقت آئندہ دو سال کے عرصے میں واضع ہو جائے گی۔
ایک بات ضرور ہے کہ اگر حکومت نے ساحل بلوچستان کے مالکانہ حقوق یا لیز پر یہ علاقہ اسے دینے کی کوشش کی تو نہ صرف بلوچستان بلکہ پورے پاکستان میں ایک کہرام برپا ہو جائے گا اول تو یہ ممکن نہیں ہے اگر ایسا ہوا تو اس کا مطلب ہوگا کہ پاکستان اپنا اہم ترین جغرافیائی حیثیت کھو بیٹھا ہے جس کے بعد بطور ریاست اس کی حیثیت بہت متاثر ہو جائے گی ایسے فیصلے کی جرات یا حماقت تحریک انصاف کے سوا پاکستان کی کوئی بھی پارٹی نہیں کر سکتی۔
”بڑوں“ نے تحریک ونصاف کو لانے کا جو فیصلہ کیا وہ دل کے اندر پشیمان ہیں لیکن اسے چلانا ان کی مجبوری ہے خدشہ ہے کہ آئندہ انتخابات تک معیشت مکمل طور پر دیوالیہ نہ ہوجائے۔
پاکستان ڈیفالٹ نہ کر جائے کیونکہ بھاری قرضوں کی واپسی موجودہ آمدنی میں ممکن نہیں ہے حکومت نے پہلے ہی ڈویلپمنٹ اور دفاع منجمد کر دیا ہے دیکھنا یہ ہے کہ وہ اپنی آمدنی میں کیسے اضافہ کرے گی اور ڈیفالٹ ہونے سے ریاست کو بچائے گی۔
اگر بلوچستان کے وسائل چین کے قرضوں کے عیوض دیئے بھی جائیں تو ریاست کی معیشت کے چلنے کے امکانات نہیں ہیں ہاں یہ بات ضرور ہے کہ ریاست یہاں تک صرف موجودہ حکومت کی وجہ سے نہیں پہنچی بلکہ اس میں ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنا حصہ ڈالا ہے ن لیگ کا حصہ تو بہت زیادہ ہے۔