پاک ایران ٹریڈ اورمشکلات۔۔!

تحریر: رشید بلوچ
پاک ایران سرحد کے آر پار ہزاراں گاڑیاں پٹرول کے مشکیزوں سے بھری ہوئی کھڑی ہیں،ان ہزاروں گاڑیوں میں بے سر و پا انسان سرحد کھلنے کی آس دل میں لئے اپنی شب و روز سرحد کی پٹی پر گزار رہے ہیں،یہ وہ بے بس مخلوق ہے جن کے گھر کا چولہ جلنے کا دار ومدار سر حد پر محدود پیمانے پر ہونے والے کاروبار سے جڑا ہے،دونوں جانب سرحد متحرک ہوتی ہے تو لاکھوں خاندان دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھا پاتے ہیں، پاک ایران سرحد پر مہینوں سے انسانی آمد و رفت ساکت ہوچکی ہے،کاروبار بند ہوچکا ہے،سرحد کے دونوں جانب سخت پابندیاں عائد کردی گئی ہیں،گزشتہ روز بھوک و ننگ سے بے حال اس لاچار مخلوق نے دیہمی سی آواز اٹھانے کی کوشش کی تھی،ابھی آواز نکلی ہی نہ تھی کہ ایرانی ملا رجیم نے چشم زدن میں گولیوں کی بوچھاڑ سے درجنوں جیتے جاگتے درتء پچ بے سہارا مخلوق کو ابدی نیند سلا دیا گیا، اس ظلم عظیم پر عالمی طاقتوں کے بھاندی ادارہ اقوام متحدہ نے زیر لب سر گوشی میں مذمت تو کی پر کوئی سبیل نکالنے کیلئے آگے نہ بڑھ سکی،دوسری جانب مجال ہے قوم پرستی کی پہاڑ گرانے والے کسی جماعت نے اپنے ہی قوم کا دل بہلانے کی ہی حد تک سہی دو منٹ کا احتجاج ریکارڈ کرائی ہو، ایسے معاملات پر قوم پرستی کے دعویدار جماعتوں کی قلعی کھل جایا کرتی ہیں،انکی ترجیحات کا بہتر انداز میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حکومتی حلقوں میں دونوں سرحد سے جڑی اس کاروبار کو“ Trade Illegal“ غیر قانونی کار وبار کہا جاتا ہے، ظاہر ہے قانون کی کتاب جہاں کسی چیز کی اجازت نہ دے اسے غیر قانونی سمجھا جاتا ہے لیکن یہاں ایک سادا سے سوال کی گنجائش پیدا کرنے کا حق بھی دیا جانا چاہئے،قانون کے رو سے ریاست اپنی عوام کے نان و نفقہ،رہن و سہن کا پابند ہوتی ہے،اگر حکومت وقت اپنی رعایا کو وہ تمام حقوق بہم پہنچارہی ہے جسکا ریا عا متقاضی ہے تو پھر سرحد پر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا کاروبار جو بھی قانون کے دائرے سے باہر ہوگا اسے غیر قانونی کار وبار مان کر حکومت کو کھڑا فیصلہ کرکے اسے روک دینا چاہئے،جہاں ریاست جملہ حقوق تو کجا دو وقت کی روٹی تک اپنی عوام کو دینے کے قابل نہ ہو ایسی صورت میں قانون کو غریب کے پیٹ پر لاگو کرنا در اصل بزات خود غیر قانونی عمل تصور کی جاتی ہے، پاک ایران سرحد کے دونوں جانب نوے فیصد لوگوں کی ذرائع آمدن کا در مدار باڈر ٹریڈ سے منسلک ہے،بارڈر کھلتی ہے تو لوگ خوشحال ہوجاتے ہیں اگر بند ہوتی ہے تو لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی کے لالے پڑ جاتے ہیں، بارڈر پر چھوٹے چھوٹے کاروبار کو یکجاہ کیا جائے تو یہ اربوں روپے کی دو طرفہ ٹریڈ بن جاتی ہے،حکومتی لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے سات دیہائیوں میں دونوں جانب غیر قانونی کاروبار ہوتی رہی ہے، پیسے کی رولنگ حکومتی خزانے سے بالا بالا پرائیویٹ سطح پر ہوئی ہے،سیکورٹی کے نام پر وردی میں ملبوس اہلکار اپنا اپنا حصہ لیکر اس کاروبار کو وسیع کرنے میں کردار ادا کرتی رہی ہیں جس سے بلوچستان کے خزانے کو ایک پائی کا بھی فائدہ نہیں پہنچا،اب چونکہ حکومتی سطح پر پاک ایران بارڈر کاروبار کیلئے بند کیا گیا ہے جس کی وجہ سرحد کے دونوں جانب لاکھوں خاندانوں کی ذرائع آمدن یکدم ساکن ہوکر رہ گئی ہے،جب تک بارڈر کاروبار کیلئے بند ہوگی دونوں طرف لوگوں کی مشکلات بڑھتی جائیں گی،یہ معاملہ بھوک و افلاس کا ہے،یہ معاملہ بڑا سنگین ہے،انسان ہو یا جانور ہر قسم کی مشکل و مصائب برداشت تو کر سکتی ہے لیکن بھوک ایک ایسی بلا ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے،زیادہ دیر تک دونوں طرف بارڈر ٹریڈ بند کیا گیا تو یہ ایک بہت بڑے شورش و افرا تفری کو جنم دینے کے مو جب بن سکتا ہے،بھوک و افلاس کی جن بھپر گیا تو اسے روکنا محال ہوگا اسے جتنی جلدی ہو سکے کھول دینا چاہئے۔
پاکستان ایران دو ہمسایہ برادر ممالک ہیں دونوں ممالک میں وقت و حالات میں عارضی الجھاؤ بھی پیدا ہوتی رہتی ہے لیکن دونوں ممالک میں بہت بڑی چپکلش موجود نہیں،نہ ہی دونوں برادر ممالک دشمنی یا بڑی چپکلش کے متحمل ہوسکتے ہیں،حالیہ کچھ عرصہ سے دونوں ممالک میں تلخیاں ضرور بڑھی ہیں لیکن ان تلخیوں کو بارڈر ٹریڈ کی بندش مشروط نہیں ہونا چاہئے،امریکہ اور چائنا اس وقت ایک دوسرے کے مدمقابل ہیں دونوں سپرپاورز کے درمیان اجارہ داری کی جنگ کسی ایک ملک کے زیر ہونے تک جاری رہے گی لیکن اسکے باوجود دونوں ممالک کھربوں ڈالر کے کاروبار سے منسلک ہیں،اسی طرح انڈیا چائنا کے درمیان ایک طرف جنگ چھیڑی ہوئی ہے لیکن اسکے باوجود اربوں ڈالر کی کاروبار بھی ساتھ ساتھ چل رہی ہے کئی ایسے ممالک ہیں جو دشمنی کے باوجود باہمی ٹریڈ بھی چل رہی ہے، پاکستان اور ایران کے درمیان کافی عرصے سے بہت سے اجزاء کی قانونی ٹریڈ ہورہی ہے اس میں غیر قانونی بارڈر ٹریڈ کو شامل کرکے اسے قانونی بنانے کی ضرورت ہے،بارڈر ٹریڈ کو قانونی غلاف پہنانے سے دونوں ممالک کو سالانہ اربوں ڈالر کی زر مبادلہ حاصل ہوگا اور دونوں جانب لاکھوں انسانوں کو باعزت روزگار بھی میسر ہوگا۔۔

اپنا تبصرہ بھیجیں