بھٹو کی پھانسی اور ضیاء الحق کا پاکستان

تحریر: انورساجدی
4اپریل اور دنوں کی طرح ایک دن ہے یہ 1979 کو ”صبح غریبان“ کی صورت میں بھی گزرا تھا اور آئندہ بھی گزر جائیگا۔
فراز صاحب کا شعر ہے
آنکھ سے دور نہ ہو دل سے اتر جائیگا
وقت کا کیا ہے گزرتا ہے گزر جائیگا
بھٹو صاحب پھانسی سے قبل پورے ملک کے لیڈر تھے اپنے عوام کے ہر دلعزیز رہنماء تھے لیکن جنرل ضیاء الحق نے پورا زور لگا کر 4اپریل 1979ء کے بعد انہیں ایک سندھی لیڈر بنا کر چھوڑا انہوں نے ایسا کمال دکھایا کہ ان کا نظریہ رائج اور مستعمل ہو گیا ہے آج کسی نے سوشل میڈیا پر ایک مضمون ڈالا تھا جس میں ریاست کو ”مملکت ضیاء داد“ کا نام دیا گیا تھا جنرل صاحب نے انتہاء پسندی اور بنیاد پرستی کا سہارا لے کر ریاست کی بنیادی ہیئت تبدیل کر ڈالی۔
5جولائی1977ء کو قوم سے خطاب کے دوران انہوں نے واضع طور پر کہا کہ نظام مصطفیٰ کی حالیہ تحریک نے انہیں بڑا متاثر کیا ہے اپنے اس اعلان کے بعد سے وہ 11برس تک حکمران رہے سیاہ و سفید کے مالک رہے لیکن وہ نظام مصطفیٰ نافذ نہیں کر سکے انہوں نے مارشل لاء کے استحکام اور بھٹو کی یاد بھلانے کی خاطر بے شمار تغریری قوانین نافذ کئے ہزاروں سیاسی کارکنوں کو بیچ بازار میں کوڑے لگائے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کیلئے
”کوئٹہ کے اس بازار“ کے چوہدری نورو کو ایوب اسٹیڈیم میں منہ کالا کر کے گدھے پر بٹھایا پیرانہ سالی کی وجہ سے چوہدری نورو کوڑے سہہ نہیں سکتے تھے اس لئے اسے کوڑوں سے بھی بڑی سزا دی گئی تذلیل انسانیت اور شرف آدمیت پر گھٹیا حملہ کی یہ ایک مثال تھی۔
ضیاء الحق نے ایک طرف ایک نیا نصاب رائج کر دیا دوسری طرف سیاست میں ”اسٹریٹ چائلڈز“ کو لاکر سیاسی خلاء پر کر دیا یہ آوارہ گرد اسٹریٹ چائلڈ بھی کمال کے نکلے مثال کے طور پر میاں نواز شریف پہلے پنجاب کے وزیراعلیٰ اور پھر مملکت ضیاء داد کے وزیراعظم بن گئے چوہدری نثار علی خان نے وزارت داخلہ کا محاذ سنبھالا‘ چوہدری پرویز الٰہی پنجاب کے وزیراعلیٰ اور ان کے کزن چوہدری شجاعت حسین تین ماہ کیلئے وزیراعظم مقرر ہوئے بڑی لمبی فہرست ہے جن میں شاہ محمود قریشی اور سید یوسف رضا گیلانی بھی شامل ہیں جنرل ایوب خان نے اپنے پہلے قہر آلود مارشل لاء کے ذریعے پاکستان ہی کی نئی تاریخ رقم کروائی انہوں نے الطاف گوہر‘ قدرت اللہ شہاب اور جمیل الدین عالی کے مشورے پر 23 مارچ کے دن کو یوم پاکستان قرار دیا حالانکہ 1956ء کے آئین کے نفاذ کے بعد یہ دن یوم جمہوریہ کہلایا نئی تاریخ میں لکھا گیا کہ 23مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں قرارداد پاکستان منظور کی گئی جو کہ سراسر جھوٹ تھا اس روز آل انڈیا مسلم لیگ نے لاہور میں اپنا اجتماع کیا تھا ایک قرارداد اگلے روز یعنی 24مارچ کو منظور کی گئی تھی جسے شیر بنگال مولوی اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی جبکہ اس کا اردو ترجمہ حیدر آباد دکن کے بہادر یا ر جنگ عرف نواب نے پڑھ کر سنایا تھا۔
قرارداد کا مطالبہ یہ تھا کہ
برصغیر کے ان علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے آزاد ریاستیں قائم کی جائیں لیکن ایوب خان نے تاریخ بدل ڈالی۔
ضیاء الحق نے پورا نصاب ہندوستان کی غلط تاریخ پر استوار کر لیا تمام حملہ آوروں کو مسلمانوں کا ہیرو بنا کر پیش کیا ایوب خان اور معروف ناول نگار نسیم حجازی ایک ہی علاقہ سے تعلق رکھتے تھے نسیم حجازی کے ناولوں کو تاریخ اسلام قرار دے کر نصاب بنایا گیا جبکہ ضیاء الحق تو اس کو اصلی تاریخ سمجھتے تھے نصاب سے مغربی پاکستان کے ان علاقوں کو مکمل طور پر خارج کر دیا گیا جہاں آج کا پاکستان قائم ہے گویا جس سرزمین کا نام پاکستان ہے وہاں کوئی حریت پسند‘ کوئی تاریخی شخصیت‘ کوئی ادب اور شاعری تخلیق نہ ہوئی تھی دونوں شخصیات نے گنگا جمنا تہذیب کو پاکستان کی بنیاد قرار دیا نواب سلیم اللہ خان بہاری سے لے کر نواب محسن الحسن الملک‘ سید احمد بریلوی سے لے کر سر سید احمد خان تک کونئے وطن کا نظریہ پیش کرنے کا کریڈٹ دیا ایوب خان سے پہلے شاعر لاہور اقبال لاہوری نہ حکیم الامت تھے اور نہ شاعر مشرق انہوں نے کوئی خواب بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ایک دن ایوب خان نیند سے اٹھے تو انہیں پتہ چلا کہ علامہ سر محمد اقبال کشمیری عرف لاہوری نے پاکستان کا خواب دیکھا تھا ان کے تفکر کا ایک جعلی پورٹریٹ بنا کر نصاب میں بھی شامل کیا گیا۔
علاقہ اقبال کے کریڈٹ پر خطبہ الہ آباد 1930ء کے سوا کوئی جدوجہد نہیں ہے بلکہ انہوں نے ہندوستان کا ترانہ لکھا تھا اور اسی کی وجہ سے مشہور تھے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم ہیں بلبلیں اس کی وہ ہے گلستان ہمارا
بچوں کیلئے لکھی گئی ان کی مشہور نظم
لب پہ آتی ہے میں انہوں نے جس وطن کا ذکر کیا ہے اس سے مراد ہندوستان ہے۔
جب ہم سکولوں میں پڑھتے تھے تاریخ برصغیر ڈاکوؤں کی کہانیوں پر مشتمل تھی تمام شاعری ہندوستان کے شعراء کی تھی ہم حیران پریشان تھے کہ یہ کون لوگ ہیں ہم تو انہیں نہیں جانتے ہیں یہ ہمیں کیوں پڑھائے جا رہے ہیں ایک مختصر ذکر خوشحال خان خٹک اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کا بھی نصاب میں شامل تھا۔
جو4اپریل آج ہے میں ایوب خان کے نصاب ضیاء الحق کے اسلام اور پاکستان کی موجودہ حکومت بھٹو کی پھانسی اور دیگر واقعات پر غور کر رہا تھا تو تاریکیوں کے گہرے بادل میرے ذہن پر چھا گئے 74 سال گزرے ہیں مملکت ضیاء داد ایوب خان اور ضیاء الحق کے نظریہ پر قائم ہے اور ان کے جانشین دھڑلے کے ساتھ حکمرانی کر رہے ہیں نصاب وہی ہے نظریہ وہی ہے تاریخ مشخ شدہ ہے تاریخ کی طرح یہ حکمران جغرافیہ سے بھی ناواقف ہیں آج بھی کہا جا رہا ہے کہ خدا نے اس مملکت کو ہمیشہ قائم رہنے کیلئے بنایا ہے تو بھائی بننے کے 24سال بعد یہ دولخت کیوں ہوا تھا آج شرم کے مارے راولپنڈی سازش کیس،اگرتلہ اور حیدر آباد سازش کیس کا ذکر نہیں کیا جاتا 16دسمبر1971ء کو سقوط ڈھاکہ کے بارے میں چپ سادھ لی جاتی ہے بس واحد سہارا یہ جھوٹا دعویٰ ہے کہ ایوب خان 1965ء کی جنگ جیت گئے تھے اگر واقعی ایسا تھا تو ایوب خان نے تاشقند جا کر سرنڈرکیوں کیا تھا۔
جھوٹ کی بھی کوئی حد ہوتی ہے ضیاء الحق کے موجودہ جانشین عوام سے براہ راست ٹیلی فون کے ذریعے جھوٹ پہ جھوٹ بولے جا رہے تھے 3سال کی بدترین ناکامی کو ابھی تک تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھے سیاسی حریفوں کو چور ڈاکو اور اچکے قرار دے رہے تھے جو ان کے اپنے ساتھیوں نے کیا اس کے باوجود پارسائی کا دعویٰ کر رہے تھے عدلیہ کی توہین کر کے ترغیب دے رہے تھے کہ سیاسی مخالفین کو زچ کرنے کیلئے ان کا ساتھ دیا جائے۔
جس ملک میں طاقت کا سرچشمہ عوام نہ ہو کوئی ہو تو انصاف کی توقع رکھنا بے کار ہے سارے سیاستدان کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہے ہیں ن لیگ نے پنجاب میں تحریک انصاف سے مک مکا کر کے سینٹ کے انتخابات میں پانچ نشستیں بلامقابلہ حاصل کر لیں اسے اصول کہا جاتا ہے اور اگر گیلانی نے حکومت کی آشیرباد سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کر لیا تو یہ بے اصول ہے ارے بھائی ہرطرف بے اصولی ہی بے اصولی ہے کٹھ پتلیوں کا تماشہ جاری ہے سیاستدانوں نے ذاتی معیار زندگی کافی اونچا کر لیا ہے اس کے بدلے میں وہ کچھ بھی کرنے کو تیار نہیں نیچے آنے کو تیار نہیں۔
دنیا کہہ رہی ہے کہ معیشت ڈوب رہی ہے 4اپریل کو وزیراعظم معیشت کی بہتری کی نوید سنا رہے تھے پنشن اور واجبات کی ادائیگی کیلئے رقم نہیں ہے پھربھی دعویٰ ہے کہ معیشت آگے بڑھ رہی ہے ڈیجیٹل دور میں بھی عوام کو بے خبر اور جاہل سمجھا جا رہا ہے ۔
میں نے جب ریاست اس کے معاملات سیاستدانوں کے کردار‘ غیر سیاسی عناصر کی بالادستی‘ روز جہل کا درس دینے اور جعلی نظریہ پر غور کیا تو اس فیصلہ پر پہنچا کہ
ہماری تو کوئی تہذیب نہیں ہے کیوں نہ گنگا جمنی تہذیب سے غم غلط کیا جائے۔
برسوں پہلے پتہ چلا تھا کہ اردو زبان کی عظیم ناول
امراؤ جان ادا
اس کے منصف مرزا ہادی رسوا نے بولان میں بیٹھ کر تخلیق کیا تھا کہاں لکھنو اور کہاں بولان۔ لیکن وہ ایک ریلوے انجینئر تھے اور بولان میں ریلوے لائن بچھا رہے تھے بولان کے خشک پہاڑوں میں بیٹھ کر وہ لکھنو کو یاد کرتے رہتے تھے اسی وجہ سے لکھنو کی تہذیب پر ایک شاہکار ناول تحریر کرنے کے قابل ہوا میں امراؤ پر سوچ رہا تھا تو فیس بک پر انڈین آئیڈل کے تازہ پروگرام پر نظر پڑی اس پروگرام کی مہمان خاص امراؤ جان ادا فلم کی ہیروئن ریکھا تھیں جب مظفر علی نے یہ کلاسیک فلم 1980ء کی دہائی میں بنائی تھی تو امراؤ کے کردار کیلئے ریکھا سے بہتر فنکارہ نظر نہ آئی چنانچہ ساری فلم ان کے گرد گھومتی ہے فاروق شیخ اور نصر الدین شاہ بس خانہ پری کیلئے ہیں عظیم موسیقار خیام نے غضب کی موسیقی دی ہے انڈین آئیڈل میں ایک نوخیز بنگالی ساحرہ ”اررونیتا“ نٰغمہ سرا تھی
ان آنکھوں کی مستی کے مستانے ہزاروں ہیں
خیام نے اس گانے کے لئے لتا کی بجائے ان کی چھوٹی بہن آشا کا انتخاب کیا تھا۔
بنگالی ساحرہ نے دوگیت سنائے اور پورے پروگرام اور کروڑوں دیکھنے ولاوں کو سحر زدہ کر دیا۔
کم مایہ لوگوں اور غلاموں کی اپنی کوئی مرضی نہیں ہوتی ہمارے لوگ مست توکلی‘ شہ مرید‘ گراں ناز اور جام درک کی شاعری پڑھنے اور عظیم گلوکار مرید بلیدی کی محسور کن آواز سننے سے محروم ہیں یا انہیں اپنی زبان سے درو کر دیا گیا ہے تو وہ کیا کریں
انگریز دنیا میں جہاں گئے انہوں نے مقامی زبانوں پر بلڈوزر چلایا اور اپنی زبان بزور طاقت مسلط کر دی تاکہ مفتوحہ علاقوں کے نوجوان وررڈ درتھ‘ کیٹس اور شیکسپیئر کو عظیم شاعر اور ادیب مانیں۔
اداکار نصیر الدین شاہ کے مطابق انگریزی تعلیم کے دوران وہ غالب سمیت کسی مقامی شاعر کی شاعری سے واقف نہیں تھے لیکن جب غالب کو پڑھا تو سارے انگلش شاعر بہت پیچھے نظر آئے۔
جام درک نے کہا تھا
میں پاگل ہوں جو دل سے الجتھا ہوں
اور دل پاگل ہے جو مجھ سے الجتھا ہے
یہی چار اپریل2021ء کا اختتامیہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں