اے این پی کی پھرتیاں۔۔۔۔۔!

تحریر: رشید بلوچ
پارلیمنٹ سے استعفوں کے معاملے پر اپوزیشن جماعتوں اور پیپلز پارٹی کے درمیان شروع دن سے ہی اختلاف رائے موجود تھی،پیپلز پارٹی قبل از وقت انتخابات اور اجتماعی استعفوں، دونوں کے حق میں نہیں ہے، جمعیت علما اسلام اور ن لیگ از سر نو عام انتخابات کی خواہش رکھتی ہیں، پی ڈی ایم نے 16اکتوبر 2020کو اپنا پہلا جلسہ ن لیگ گڑھ گوجرانولہ میں کیا تھا، 16اکتوبر کے جلسے میں ن لیگ کے قائد نواز شریف کی متنازعہ تقریر پر پیپلز پارٹی نے کھل کر ا عتراض اٹھا یا تھا، اسکے بعد کراچی میں مریم نواز کے کمرے میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری کیلئے پولیس کی چھاپہ مار کاروائی نے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے موقف میں بھی تضاد پیدا کی تھی،یوں سمجھیں پی ڈی ایم کے بنتے ساتھ ہی دونوں بڑی جماعتیں زہنی طور پر ایک دوسرے کو قبول کرنے کو تیار نہیں تھیں،، ن لیگ اور پیپلز پارٹی کی نکاح مولانا فضل الرحمان نے زبردستی پڑھائی تھی، زبردستی یا مروت میں کرائی جانے والی شادیوں کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے جیسے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان ہوا ہے، پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی شادی میں عوامی نیشنل پارٹی کا کردار پیپلز پارٹی کے فرسٹ کزن جیسا ہے، مشرقی معاشرے میں بیوی کی ناراض ہوکر میکے چلے جانے کا رد عمل ہمیشہ کزنز اپنی ناراضگی کی صورت میں دیا کرتے ہیں، پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے روٹ جانے کے بعد اے این پی نے باقاعدہ سسرالیوں سے ناطہ توڑدیا ہے،کزن کے روٹھ جانے کے بعد میاں بیوی میں طلاق کے آثار نظر آرہے ہیں، پیپلز پارٹی اور اے این پی کے چھوڑ جانے کے بعد پی ڈی ایم میں پہلی جیسی توانائی نہیں رہے گی، پی ڈی ایم میں حکومت گرانے کی پہلے جیسی سکت و قوت بھی باقی نہیں بچے گی، لیکن وہ اتنی کمزور بھی نہیں ہوگی جس کا یہ دعویٰ شیخ رشید یا حکومتی وزر آ کر رہے ہیں، کمزور پچ پر رہ کر بھی پی ڈی ایم حکومت کیلئے چیلنج بن سکتی ہے، حکومت کیلئے مشکلات کھڑی کر سکتی ہے، پیپلز پارٹی اور اے این پی کے بغیر سات جماعتیں پی ڈی ایم کا حصہ ہیں یہ ساتھ جما عتیں یکسوئی کے ساتھ اپنی جد وجہد جاری رکھیں، 26مارچ کا ملتوی شدہ لانگ مارچ کی از سر نو احیا کریں تو حکومت کا ناطقہ بند کر سکتی ہیں اجتماعی استعفوں سے بھی حکومت کیلئے آئینی بحران بھی پیدا ہوسکتی ہے، اگر حکومت بڑے پیمانے پر ضمنی انتخا بات کرانے میں کامیاب بھی ہوجائے لیکن دھرنوں اور احتجاج سے پیدا ہونے والی صورتحال پر حکومت کیسے قابو پالے گی؟ ضروری نہیں کہ اپوزیشن حکومت گرانے کا اپناہدف پوراکر لے بلکہ حکومت کو کمزور پچ پر کھیلنے پر مجبور کرانا بھی اپوزیشن کی کامیابی تصور کی جائے گی، ایسا بھی نہیں ہے کہ اپوزیشن میں دراڑ پڑنے سے صرف پی ڈی ایم کی صف بندی کمزور ہوگی بلکہ پیپلز پارٹی بھی اکیلے رہ کر اپنی وقعت کھو دے دے گی،پی ڈی ایم میں رہ کر پیپلز پارٹی آنے والے وقت میں خود کو توانا رکھ سکے گی، پیپلز پارٹی کی پی ڈی ایم سے الگ ہونے کا نقصان پی ڈی ایم کو کم اور پیپلز پارٹی کا زیادہ ہوگا، اے این پی کا کیا ہے؟ وہ پیپلز پارٹی سے جڑا بچہ ہے جہاں پیپلز پارٹی ہوگی اے این پی صف کے کسی کنارے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگی، اے این پی نے جلد بازی میں علیحدگی کا فیصلہ کیا ہے یا اسے پیپلز پارٹی نے الگ ہونے کاا شارہ دیا ہے، کل کلاں پیپلز پارٹی پی ڈی ایم میں رہنے کا فیصلہ کرتی ہے تو اے این پی بن بلائے مہمان بن کر پیپلز پارٹی کے ساتھ ہولے گی۔۔۔۔
پی ڈی ایم سے اے این پی کی الگ ہونے کی وجہ سینٹ میں لیڈر آف دی اپوزیشن کے انتخابات بنے، اے این پی نے پیپلز پارٹی کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کو ووٹ دیا تھا، پی ڈی ایم کی دیگر جماعتوں نے انتخابات سے غیر جانبدار ہونے کا فیصلہ کیا تھا، مریم نواز نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت کی جانب سے پہلے ن لیگ کو اپوزیشن لیڈر کیلئے پیشکش کی گئی تھی،ن لیگ کی طرف سے انکار کے بعد حکومت کیلئے اگلا آپشن پیپلز پارٹی تھی تا ہم یہ پیشکش پیپلز پارٹی کو بھی دی گئی تو پیپلز پارٹی نے اتحادیوں سے مشورہ کیئے بغیر فورا پیکج پانے کیلئے حامی بھر لی،ہوسکتا ہے پیپلز پارٹی کو حکومت کی طرف سے ن لیگ کو دی جانے والی پیش کش کاعلم نہ ہو اسلئے پیپلز پارٹی نے اپنے تئیں اسے غنیمت سمجھ کر قبول کر لی ہے،بہر حال جو بھی معاملہ ہو شاہد خاقان عباسی نے پی ڈی ایم کی توسط سے پیپلز پاٹی اور عوامی نیشنل پارٹی کوشوکاز بجھوا دیا، شوکاز ملنے کا رد عمل پیپلز پارٹی کو دیا جانا چاہئے تھالیکن طیش پیپلز پارٹی کے چچازاد بھائی اے این پی کو آگئی اس نے پرتی دکھاکر پی ڈی ایم سے علیحدگی اختیار کرلی، بقول شاہد خاقان عباسی انہوں نے شوکاز نوٹس نہیں بلکہ دونوں جماعتوں کو وضاحت دینے کا کہا تھا،سمجھ نہیں آرہاکہ شاہد خاقان صاحب نے وضاحت یا شوکاز سے متعلق معزر ت خواہانہ رویہ کیوں اختیار کیا ہے،؟پی ڈی ایم دس جماعتوں کی اتحاد ہے،اتحاد میں شامل دو جماعتوں نے ڈسپلین کیخلاف ورزی کی ہے، جواب طلبی تو بنتی ہے،جواب طلبی پر اپنا موقف پیش کرنے کے بجائے کوئی جماعت ناراض ہوکر چلی جاتی ہے،اسے بہ خوشی پیٹھ پر تھپکی دے کر الوداع کہنا چاہئے،نرم لب ولہجہ اپنا کر کمزوری نہیں دکھانی چاہئے، پہلی بار نہیں کہ عوامی نیشنل پارٹی نے اتحادیوں کو بیچ چوراہے پرچھوڑ کر دوری پیدا کی ہے، پونم کے اتحاد سے سب سے پہلے عوامی نیشنل پارٹی نے کنارہ کشی اختیار کی تھی، پونم سردار عطا اللہ مینگل کی سربراہی میں بنی تھی، بلوچ پشتون،سرائیکی اور سندھی قوم پرست جماعتوں کی یکجاہ ہونے سے پونم بنی تھی جب تک سردار عطا اللہ مینگل پونم کے سربراہ تھے یہ ایک منظم سیاسی اتحاد مانی جاتی تھی، پونم کو نیشنل عوام پارٹی (نیپ) کا نعم البدل بھی کہا جاتا تھا، سردار عطا اء اللہ مینگل کے بعد پونم کی بھاگ دوڑ محمود خان اچکزئی کے سپرد کی گئی، پو نم کی سربراہی محمود خان اچکزئی کے پاس آتے ہی عوامی نیشنل پارٹی نے اس سے علیحدگی اختیار کر لی، اس وقت اے این پی نے موقف اختیار کیا تھا کہ محمود خان اچکزئی نے خفیہ طور پر مقتدرہ کے ایک بہت بڑے افسرسے ملاقات کے بعد پونم کی کی قیمت پر صوبائی نشستیں حاصل کرنے کیلئے کمپرومائز کر لیا ہے اس لئے ہم کسی کے سودا گری کا حصہ نہیں بن سکتے، پونم سے متعلق اے این پی کی الزامات سے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی ہمیشہ انکار کرتی رہی ہے، مختصر یہ کہ اے این پی کا ٹریک ریکارڈ اتحادیں توڑنے میں کچھ خاص قابل تعریف نہیں رہی اس لئے مستقبل میں بھی زیادہ توقع نہیں رکھنی چاہئے، رہی بات پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی یہ دونوں جماعتیں ماضی اور مستقبل میں حریف تھے حریف ہیں اور حریف رہیں گیاے این پی کی پھرتیاں۔۔۔۔۔!

اپنا تبصرہ بھیجیں