ایک اور جھٹکا

تحریر: انورساجدی
سمجھو کہ میں کوئی دور دیس گیا تھا اس لئے بے شمار واقعات اور حادثات ہوئے وہ ضابطہ تحریر میں آنہ سکے اس وقت پورے ملک میں عمران خان اور جہانگیر خان ترین کی لڑائی کے چرچے ہیں دونوں خان سرائیکی بولنے والے ہیں اور نام کی حد تک خان کا لقب رکھتے ہیں ترین صاحب اس وقت جنوبی پنجاب کے امیر ترین شخص کی حیثیت رکھتے ہیں ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ زمین انکے قبضہ میں ہے جو انہوں نے 15ہزار چھوٹے چھوٹے مالکان سے مقاطع پر حاصل کررکھی ہے لیکن کسی کو بھی اپنی زمین پر آنے کی اجازت نہیں ہے6شوگر ملیں سب سے اچھی چل رہی ہیں چینی کی کل پیداوار میں 20فیصد حصہ اکیلے ان کا ہے بظاہر سالانہ ایک سو ارب کاکاروبار کرتے ہیں لیکن اصل کاروبار کا حجم اس سے زیادہ ہے دعویٰ ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کوئی پانچ سوسال پہلے پشین سے لودھراں میں آئے تھے غالباً یہ وہ زمانہ ہوگا جب ملتان پر پختونوں کی حکومت تھی لودھراں اور قرب وجوار کے علاقے بلوچوں کے قبضے میں تھے رفتہ رفتہ ترین خاندان بہاولپور کے اعلیٰ خاندانوں سے جڑ گیا رشتے ناطے ہوگئے ریاست بہاولپور کی تاریخ میں سیدزادہ حسن محمود کا ایک نمایاں مقام تھا وہ ریاست کے آخری دیوان یا وزیراعظم تھے پاکستانی سیاست میں بھی انہیں اہم مقام حاصل تھا انہوں نے اپنے اثرات پھیلانے کیلئے دور دور تک رشتہ داریاں کیں مثال کے طور پر بڑے پیر صاحب پگارا اور سید عملدار حسین گیلانی تھے جبکہ جنرل اختر عبدالرحمن اور جہانگیر خان ترین داماد انکے بہنوئی حسن محمود کے صاحبزادہ مخدوم احمد محمود سابق گورنر پنجاب اور پیپلزپارٹی جنوبی پنجاب کے صدر ہیں وفاقی وزیر خسرو بختیار کاتعلق بھی اسی خاندان سے ہے سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں مخدوم احمد محمود اپنے دو ایم این اے اسلام آباد لے آئے یہ جہانگیر خان ترین کے جہاز میں آئے تھے حالانکہ ذاتی طیارہ احمد محمود کا بھی تھا لیکن پائلٹ چھٹی پر تھا مخدوم صاحب کے جہاز کو کئی بار بلاول بھی استعمال کرچکے ہیں جب عمران خان کو اطلاع ملی کہ جہانگیر ترین انکے خلاف اپناجہاز استعمال کررہے ہیں تو وہ آگ بگولہ ہوگئے شوگر کمشن کی رپورٹ پر عملدرآمد کا حکم جاری کردیا نیب بھی حرکت میں آگیا خان صاحب اتنے ضدی ہیں کہ اپنے علاوہ کسی اور کیلئے جہانگیر ترین کے طیارے کا استعمال برداشت نہ کرسکے انکے کانوں میں یہ بات بھی ڈالی گئی تھی کہ جہانگیر خان درپردہ انکے خلاف سازشوں میں مصروف ہیں حالانکہ انہوں نے کوئی خاص سازش نہیں کی تھی بہرحال جب خان صاحب نے جہانگیر خان ترین کے گریبان پر ہاتھ ڈال دیا تو انہوں نے بڑوں سے شکایت کردی اور یہ اجازت حاصل کرلی کہ وہ اپنے بچاؤ کیلئے جو کریں اس کی اجازت دی جائے۔چونکہ گیلانی کی کامیابی کے بعد عمران خان نے اس طرح وزیراعظم بننے کی کوشش کی تھی جس طرح نوازشریف نے کی تھی اس لئے انہیں جھٹکا دینے کا فیصلہ کیا گیا خان صاحب گیلانی کی کامیابی تو نہ روک سکے البتہ انہیں چیئرمین سینیٹ بننے نہیں دیا اس دوران بہت کچھ ہوا وہ جو مشہور ”ایک پیج“ ہے وہ پھٹنے کے قریب آیا جسے کنٹرول کرنے کیلئے جہانگیر خان کو میدان میں اتارا گیا یہ جو8ایم این اے اور21ایم پی اے انکے کیمپ میں آگئے یہ کوئی حادثہ نہیں ہے بلکہ عمران خان کو واضح پیغام ہے کہ زیادہ پھرتیاں نہ دکھاؤ حدود میں رہو کچھ زیادہ وزیراعظم بننے کی کوشش نہ کرو ورنہ تمہاری حکومت کو چلتا کرنا ایک دن کا ہی کام ہے اسی دوران ”پیج“ کوبچانے کیلئے فائر بریگیڈ کاعملہ درمیان میں آگیا اندرون کھاتہ مفاہمت کی کوششیں ہورہی ہیں تاکہ جیسے تیسے کرکے یہ حکومت اپنی مدت پوری کرلے اگر عمران خان نے کوئی زیادہ حکم عدولی کرلی تو کچھ بھی ہوسکتا ہے فرمانبرداری کی صورت میں 2023ء تک انہیں چلایاجائیگا ورنہ 21کی بجائے31ایم این اے ترین کا کیمپ جوائن کرلیں گے پنجاب میں ایک تہائی اراکین بھی ان کے ساتھ آجائیں گے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی حکومت کا قائم رہنا مشکل ہوجائے گا کیونکہ چوہدری برادران ”گرگ بارہ دیدہ“ کی طرح تیار بیٹھے ہیں وہ ایک اشارہ پر سب کچھ الٹ دیں گے لیکن زیادہ امکان ہے کہ عمران خان سمجھداری کامظاہرہ کرکے مزید تابع فرمان بن جائیں گے۔
جہاں تک پی ڈی ایم کا تعلق ہے تو یہ باہر آنے سے پہلے گہوارے میں ہی دم توڑگیا مولانا اور بی بی مریم کو اس کا اتنا ملال ہوا کہ چارپائی سے جاکر لگ گئے رمضان شریف کے بعد یہ سرجوڑ کربیٹھیں گے اور کوئی نئی ترکیب سوچیں گے لیکن یہ بات طے ہے کہ پیپلزپارٹی اور اے این پی کے بغیر کوئی جاندار ملک گیر تحریک نہیں چل سکتی اگر ن لیگ مولانا کے ساتھ مل کر سولو فلائٹ کرے گی تو اس کے ہاتھ کچھ نہیں آئیگا ہاں ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں کامیابی نے اس کے حوصلے بڑھادیئے ہیں اس ضمنی الیکشن سے ظاہرہوتا ہے کہ ن لیگ کا ووٹ بینک اپنی جگہ قائم ہے جبکہ تحریک انصاف کا ووٹ بینک سکڑ رہا ہے اگرکارکردگی یہی رہی تو2023ء کے انتخابات میں یہ پارٹی سکڑ کر پنجاب کے چند علاقوں تک محدود ہوجائے گی جہاں تک میاں صاحب کے ووٹ کو عزت دو والی تحریک کا تعلق ہے تو آثار بتارہے ہیں کہ آئندہ انتخابات میں انجینئرڈ بھی ہونگے اور موجودہ ہائبرڈ نظام کی جگہ اس سے بھی بدترکوئی نظام لایاجائیگا اگر ن لیگ اور پیپلزپارٹی کو دور رکھا گیا تو سمجھو کہ شیخ رشید ٹائپ کا بندہ عمران خان کی جگہ لے گا عین ممکن ہے کہ جام کمال کو بھی آزمایا جائے جو بہت مفید ثابت ہونگے اگروزیراعلیٰ کی حیثیت سے وہ45واٹس ایپ گروپوں کے ایڈمن ہیں تو وزیراعظم بننے کے بعد سوگروپ قائم کریں گے اپنا ٹائم اسی پر پاس کریں گے کسی بھی امور میں مداخلت نہیں کریں گے جس کے نتیجے میں بہت اچھی حکومت چلے گی چونکہ دور دور تک دھند چھائی ہے لہٰذا یہ پیشنگوئی کرنا تو بہت مشکل ہے کہ آنے والے ماہ و سال میں کیا کچھ ہوگا لیکن یہ طے ہے کہ آئندہ الیکشن سے قبل اگر عمران خان قائم رہے تو ایک بڑی بازی ان کے ہاتھ لگے گی لیکن زیادہ امکان یہی ہے کہ اس کی نوبت نہیں آنے دی جائے گی یا تو اس سے پہلے چہرہ تبدیل کیاجائیگا یا فیصلہ نئے وزیراعظم پر چھوڑدیا جائیگا جو لازمی طور پر ”اپنا بندہ ہوگا“۔
اس سلسلے میں کوئی رسک نہیں لیاجائیگا اس تناظر میں ایسا بندوبست نظرآئیگا کہ آئندہ اسمبلی مزید مکس اچار ہوگی۔اس بات کاامکان بہت کم ہے کہ کوئی ایک پارٹی کامل اکثریت حاصل کرلے ایک کمزور اور ملی جلی سرکار فائدے میں ہوگی ایک ایسا وزیراعظم جو آنکھیں بند کرکے ہر فیصلہ پر انگوٹھا مثبت کرلے یہ جو ن لیگ سے خفیہ مذاکرات ہورہے ہیں ان کا کوئی بڑا نتیجہ نکلنے والا نہیں ہے بلکہ وقت کو آگے بڑھایاجارہا ہے ہوسکتا ہے کہ اس کے نتیجے میں شہبازشریف حمزہ اور مریم کو کچھ ریلیف دیاجائے زیادہ سے زیادہ مریم کو علاج کے بہانے باہر جانے کی اجازت مل جائے اور کچھ نہیں ہوگا عمران خان بضد ہیں کہ میاں نوازشریف کو نیاپاسپورٹ جاری نہیں کیاجائیگا لیکن بڑے انہیں سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ اگر پاسپورٹ جاری نہیں کیا گیا تو برٹش حکومت درخواست کے بغیر انہیں پناہ دے دے گی جس سے ساری دنیا میں ملک کی بدنامی ہوگی کیونکہ برٹش حکومت نے پاکستان کے محکمہ داخلہ کی ان تمام درخواستوں کو مسترد کردیا ہے کہ نوازشریف کو بے دخل کردیاجائے۔
جہاں تک پیپلزپارٹی اور زرداری کا تعلق ہے تو ان کے رابطے کافی آگے بڑھے ہیں عمران خان سے کہہ دیا گیا ہے کہ فی الحال سندھ حکومت کی برطرفی کا مت سوچو اگر ایک مرتبہ یہ راستہ کھل گیا تو بند نہیں ہوگا اور اس سے بالآخر مرکزی سرکار کو نقصان ہوگا البتہ عمران خان بضد ہیں کہ وہ سوئس کیس کو دوبارہ کھول کر زرداری کا جینا حرام کردیں گے سوئس بینکوں میں 1988سے90 اور193تک 6کروڑ ڈالر جمع کئے گئے تھے کہا جاتا ہے کہ یہ رقم بینظیر بھٹو کے نام پر جمع کروائی گئی تھی اب جبکہ برسوں بیت گئے ہیں اور یہ رقم اصل زر کے علاوہ سود سمیت نکال کرکہیں اور منتقل کردی گئی ہے تو یہ ملنے والی نہیں ہے اس کی خاطر پیپلزپارٹی نے اپنے وزیراعظم کی قربانی بھی دی تھی اس کے علاوہ سوئس عدالتوں میں کیس لڑنا اور اسے ثابت کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن ضدی کپتان کو کون سمجھائے وہ عامیانہ اور سرسری اقدامات کے ذریعے عوام کی واہ واہ بٹورنا چاہتے ہیں جبکہ اصل میں ان کی کارکردگی صفر ہے مثال کے طور پر انہوں نے ”کوئی بھوکا نہ سوئے“ والا پروگرام گزشتہ روز شروع کیاہے۔یہ پروگرام صرف3شہروں تک محدود ہے اگر 3شہروں کے چند سو افراد کو کھانا فراہم بھی کیاجائے تو10کروڑ بھوکوں کا کیا بنے گا زیادہ تر بھوکے دور دراز دیہی علاقوں میں رہتے ہیں پتہ نہیں کپتان کو اس طرح کے مشورے کون دیتا ہے بھوک کبھی خیرات سے ختم نہیں کی جاسکتی ہے یہ روزگار کے ذرائع بڑھانے سے ہی ختم ہوسکتی ہے جبکہ موجودہ حکومت کے دور میں روزگار میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور مزید دو کروڑ لوگ خطہ غربت سے نیچے گئے ہیں سرکاری اعداد وشمار کے مطابق40فیصد لوگ خطہ غربت سے نیچے ہیں لیکن اصل تعداد60فیصد ہے سب سے زیادہ افلاس بلوچستان میں ہے جہاں 80فیصد لوگوں کو دو وقت کی روٹی نصیب نہیں ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں