منزل کہاں ہے تیری
تحریر: انورساجدی
لک پاس صدیوں تک ایک تاریخی مقام رہا ہے کوئٹہ کے جنوب میں ضلع مستونگ کی حدود میں واقع یہ درہ برصغیر کو زمین کے راستے یورپ سے لنک کرتا ہے برسوں پہلے جب گاڑیاں لک کی اونچی چڑھائی سے نیچے اترتی تھیں ایک بورڈدکھائی دیتا تھا جس پر لکھا تھا لندن5ہزار میل اس زمانے میں اعشاریہ نظام رائج نہیں تھا اس لئے کلومیٹر نہیں لکھا جاتا تھا5ہزارمیل8ہزار کلومیٹر بنتا ہے یہ جغرافیائی فضیلت صرف سرزمین بلوچستان کو حاصل ہے کہ وہ نہ صرف وسط ایشیاء اور مشرق وسطیٰ کے درمیان بفر کا کام کرتا ہے بلکہ یورپ تک واحد زمینی رسائی کا بھی ذریعہ ہے لک پاس کوانگریزوں نے نیابت کوئٹہ مستجارلیز پر لینے کے بعد 1876ء میں پختہ کیا تھا تاکہ کوئٹہ گیریژن آنے والی فوجی گاڑیوں کی آمدورفت کیلئے آسانی رہے انہوں نے فوجی اسلحہ کی جلد سپلائی کیلئے ریلوے لائن بھی بچھائی تھی اور خوجک پا کا عظیم ٹنل بھی بنایا تھا یہ تاریخی ورثہ پاکستان کی مرکزی سرکار کی نااہلی کی وجہ سے تقریباً متروک ہوگیا ہے انگریزوں نے پہلی افغان جنگ کا آغاز شالکوٹ سے کیا تھا پے در پے شکستوں کے بعد انگریزوں نے کامیابی حاصل کرلی اور افغانستان کا ایک چھوٹا ساحصہ برٹش بلوچستان میں شامل کرلیا ڈیورنڈ لائن بناکر افغانستان کو ہمیشہ کیلئے بلوچستان سے الگ کرلیا۔1876ء سے لیکر ایک صدی تک افغان پاوندے یا کوچی ڈیورنڈ لائن کی اس طرف آتے تھے سردیاں گزارکر واپس چلے جاتے تھے انگریزوں نے افغان وطن کو تقسیم کرنے کے باوجود پاوندوں کو آنے جانے کی سہولت دی تھی عجیب بات ہے کہ افغان باشندے آج بھی کسی نہ کسی طرح آجاتے ہیں لیکن مشرقی بلوچستان کے لوگوں کو مغربی بلوچستان جانے کی اجازت نہیں ہے۔
لک پاس جو کہ چلتن کے دامن پرواقع ہے ایک سحرانگیز مقام ہے یہ دراصل بلوچستان مین لینڈ جانے کیلئے ایک ذیلی درے کا کام کرتا ہے مشرقی جانب تاریخی درہ بولان شروع ہوتا ہے جس کا اہم مقام کولپور ہے افغانستان سے ماضی میں جو حملہ آور سندھ پر حملہ کیلئے آئے انہوں نے اسی راستے کا استعمال کیا۔
چلتن کے بارے میں آخری خان میراحمد یار خان نے اپنے غیر مطبوعہ انٹرویو میں بتایا کہ جب بھی حملہ آور بلوچ سرزمین پر قتل وغارتگری کا سوچ کر آتے تھے چلتن کے دامن پر تباہی سے ضرور دوچار ہوجاتے تھے ان کے بقول چلتن بزرگوں اور اولیاء اللہ کا مسکن رہا ہے یہ پہاڑ شمالی کی جانب سے اللہ نے ودبیعت کی ہے۔احمد یار کے مطابق وہ جوانی میں کئی مرتبہ چلتن کی بلند ترین چوٹی تک گئے لیکن اب پیرانہ مسالی اور موٹاپے کی وجہ سے نہیں جاسکتا انہوں نے کہا کہ چلتن کے اوپر سے اگر جنوب اور مغرب کی طرف دیکھیں تو ایسا حسن نظرآئیگا کہ اس پورے خطے میں اس کی نظیر نہیں ملتی چلتن کا اپنا ایکو سسٹم ہے جب آبادی کم تھی تو اس میں پہاڑی جانور بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے لیکن رفتہ رفتہ انہیں ختم کردیا گیا پہاڑ سے آنے والی ندیوں کے کنارے پستہ قد ہپرس کے درخت اب بھی پائے جاتے ہیں ہپرس بلوچی میں جونیپر کانام ہے طرح طرح کی جڑی بوٹیاں بھی پائی جاتی ہیں ہوسکتا ہے کہ ماضی میں برفانی چیتے بھی ہوں لیکن اب ناپید ہیں بھٹو کے دور میں چند مارخور چھوڑے گئے تھے جن کی محدود تعداد موجود ہے ایک تشویش کی بات یہ ہے کہ سرکاری کی جانب سے چلتن سے چھیڑ چھاڑ جاری ہے اس کے دامن پر کئی عمارتیں زیرتعمیر ہیں اور مزید تعمیرات کاسلسلہ جاری ہے زیادہ دیر کی بات نہیں یہاں پر بھی ہاؤسنگ اسکیموں کادور شروع ہوجائیگا حالانکہ یہ ایک نیشنل پارک ہے ہزار گنجی اڈہ بناکر علاقہ کی خوبصورتی کوگہن لگادیا گیا باقی کسر آبادی میں اضافہ پوری کررہاہے۔ میرے لکھنے کا مقصد ٹنل کے بعد تاریخی لک پاس چڑھائی کی تباہی ہے جسے ترک کردیا گیا ہے حالانکہ اسے ایک یادگار کے طور پر باقی رکھنا ضروری ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ لک پاس کی پرانی سڑک کو دوبارہ بنائے سیاحوں کیلئے کچھ سہولتیں فراہم کرے سڑک کے دونوں کناروں کو خوبصورت جنگلوں سے آراستہ کرے ویسے تو ان حکومتوں سے کچھ کہنا بھینس کے آگے بین بجانا ہے اس بارے میں جان بلیدی کا کہنا درست ہے کیونکہ وہ جب خود حکومت میں تھے تو بھینس کی طرح بین کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔
چلتن پربلاشبہ میرعبدالباقی بلوچ نے جو شاندار نظم لکھی تھی وہ ہمیشہ تابندہ رہے گی۔
رات باقی ہے سو رہو
سردست تو نواب صاحب چلتن کے دامن پر ابدی نیند سورہے ہیں ان کے جسد خاکی کوڈھیر سارے نامردوں کی موجودگی میں خواتین نے اٹھا کر چلتن کے دامن پر آسودہ خاک کردیا
باقی کے بقول چلتن نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ میں لہو اگل کر صبح کی نوید دوں گا لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ چلتن سے باتل تک اتنا خون بہے گا اور نہ جانے کب تک بہتا رہے گا ہمارے رہبر سورہے ہیں نہ معلوم کب چلتن مزید لہو اگل کر انہیں جگادے تب تک بہت سارا وقت گزرچکا ہوگا اور نقصانات ناقابل تلافی ہونگے جو میں دیکھ رہا ہوں جو طوفان اٹھ رہے ہیں وہ ثوراسرافیل کی طرح ہے بڑے بڑے پہاڑے رائی ثابت ہورہے ہیں ایک دن جب میں نے شاشان پہاڑ کودیکھا تو وہ مجھے چٹان کی بجائے رائی معلوم ہوا اس کی اونچائی لک پاس سے کم ہے اور اس کا سینہ چیر کر سوراخ بنانا کوئی مشکل نہیں ہے مشرقی مغرب کی جانب جو پہاڑ بے سیمہ کی طرف جاتا ہے اس کو رائی ہوتے ہم نے خود دیکھا اور جنوب کی طرف جایاجائے تو کولواہ سے آگے پہاڑ تو ہیں مٹی کے لک پاس لک باراں اور لکھ جھاؤ سارے توڑ پھوڑ کاشکار ہیں۔درون سے اورماڑہ تک مروہ آتش فشاں سے جو مٹی کے پہاڑ اور ٹیلے بنے ہیں وہ کافی کارآمد ثابت ہورہے ہیں چند سال بعد انسانی آبادی میں اضافہ کے بعد ڈرون کے گڈدیکھنے کو نہیں ملیں گے اگردیکھا جائے تو لک پاس سے لک راس کوہ تک اور لک پاس سے راس اوڑماڑہ تک بڑے پیمانے پرتجربات ہورہے ہیں قدرت نے کروڑوں سالوں میں اس سرزمین کی تراش خراش اورتزئین وآرائش کی لیکن طاقتور انسان چند سالوں میں گہن لگاکر اس کاحلیہ بگاڑرہے ہیں جو کچھ ہور ہا ہے وہ کسی سلیقہ کے بغیر ہورہا ہے بے رحمی اور بے دردی کے ساتھ ہورہا ہے ڈاکٹرصاحب بے شک نئی پارٹی بنائیں لیکن اپنے سلے ہوئے لب توکھولیں سب کے سب نے اپنے لب نہ جانے کیوں سل رکھے ہیں۔
اس خاموشی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی اور تباہی کیا ہوگی کہ لسبیلہ کے ٹراپیکل جنگل تیزی کے ساتھ کٹ رہے ہیں اور اسکی لکڑی سے قندھار کے تندور چل رہے ہیں یہ کونسا ٹمبر مافیا ہے جو مادر پدر آزاد ہے کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں ہے میں نے آج تک جام صاحب سے کوئی مطالبہ نہیں کیا لیکن ان سے یہ عرضی گزارنا حق بنتا ہے کہ اگر لسبیلہ کو نہیں بچاسکتے تو اس کے جنگل تو بچاؤ گڈانی سے جیونی تک کیاکچھ ہونیوالا ہے وہ بہت ہوش ربا ہے اچھا ہوگا کہ یہ چین لے جائے کم از کم یہ جواز تو ملے گا کہ ایک بڑی طاقت نے کمزور لوگوں کا وطن چھین لیا اپنوں نے جو حشر اپنی مملکت خداداد کے ساتھ کیاایسا تو دشمن بھی نہیں کرتے حقیقت یہ ہے کہ انگریزوں کے غلام آقا اور مالک بننے کے لائق نہیں ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ برطانیہ نے پاکستان کو دنیا کے آخری 21بدحال ممالک کی فہرست میں شامل کردیا ہے یعنی 180ممالک پاکستان سے بہتر ہیں۔”وزیراعظم کوئی بھوکا نہ سوئے“ کا پروگرام چلارہے ہیں لیکن25کروڑ آبادی کو کرونا کی ویکسین دینے سے قاصر ہیں ایک جعلی اشرافیہ مسلط ہے جو کرونا کی ویکسین چوری کرکے اپنے رشتہ داروں کو بچانے کی سعی کررہی ہے حتیٰ کہ بھارت سے بھی خیرات میں ویکسین حاصل کی جارہی ہے برطانیہ نے پابندی اسی وجہ سے لگائی ہے آگے دور دور تک تاریکی نظرآرہی ہے
جو میرکارواں ہیں انہیں معلوم نہیں کہ منزل کہاں ہے جانے کی سمت کس جانب ہے اور وہاں تک جانے کیلئے کرنا کیاہے